گلوں میں اب وہ رنگت ہے نہ محفل میں وہ تابانی
خزاں دیدہ چمن ہے،بزم خوباں میں ہے ویرانی
کوئی شوخی، کوئی نغمہ نہ رنگ وبو ہے گلشن میں
ہے رقصاں ہر طرف شہر نوا میں کیوں بیابانی
یہ کیسا کوہ غم ٹوٹا ہے ہم پر قافلے والو!
یہ کیسا چشم تر میں قلزم و دجلہ کا ہے پانی
یہ کیا افتادہے بار الہا! کیا قیامت ہے
دل محزوں پہ مشکل ہے شب غم کی یہ طولانی
خرد والو! وہ آخر کون بزم ارجمنداں سے
گیا شہر خموشاں کو بہ ہر انداز سلطانی
وہی جو بادہ توحید سے مخمور تھا ہر دم
وہ روشن نور ایماں سے سدا تھی جس کی پیشانی
وہ حق آگاہ، حق گو، حق نما،حق بین علامہ
دفاع حق میں توڑی جس نے ہر زنجیر زندانی
وہی گنج گرا نمایہ، نقیب اپنی جماعت کا
وہی سحبان ہندوستاں، وہی آزاد کا ثانی
وہی ہاں، آسمان علم و فن کا نیر تاباں
وہی فخر جماعت، ہاں وہی علامہ رحمانی
دلیل عزم وہمت تھا، سراپا علم و حکمت تھا
سیاست میں بھی جس کی شخصیت تھی جانی پہچانی
وہی مرد ہنرور، مرد آہن، دیدہ ور جس نے
دیار کفر میں پھیلایا ہر سو نور ربانی
جگایا خفتہ بختوں کو دیا پیغام حق گوئی
بتایا دہر کو ہوتی ہے کیا خوئے مسلمانی
متاع زیست کو راہ طلب میں تج دیا جس نے
نہ بھولے گی اسے ہر گز کبھی تاریخ انسانی
وہ جس کی عبقریت پر جہان علم حیراں ہے
سنابل کے عنادل جس کی کرتے ہیں مدح خوانی
عرب ہوں کہ عجم ہوں ہر کوئی اس کا ثناخواں تھا
تقی الدیں ہلالی ہوں کہ ابن بازو البانی
وہ جس نے چار سو مہرووفا کے پھول مہکائے
جبین آگہی نے جس سے پائی ہے درخشانی
تصوف، زندقہ ہو رفض ہو تقلید جامد ہو
گوارا کی کبھی نہ فکر باطل کی یہ طغیانی
عجب وہ شعلہ جوالہ تھا باطل کے خرمن پر
محاذ آرا ہوا ہرجا، دکھایا زور ایمانی
بلا کا کوہ ہمت تھا پیام حق سنانے میں
ہراساں کرسکا اس کو کبھی نہ قہرسلطانی
وہ چمکا علم کا اک نور بن کر افق عالم پر
نہ تھاحسن بیاں میں دور تک اس کا کوئی ثانی
ہمارے درد پنہاں سے تو یا رب خوب واقف ہے
دے ہم کو ضبط غم اور صبر کی توفیق ارزانی
میرے ممدوح کو خلد بریں سے شاد کر یا رب
تری شان کریمی میں نہیں تیرا کوئی ثانی
شمیم وہ مہر تاباں ہو گیا اوجھل نگاہوں سے
ابھی تک لوح دل پر ہے مگر صورت وہ نورانی
آپ کے تبصرے