کن تضادات سے بھرا ہوا ہوں
جی رہا ہوں مگر مرا ہوا ہوں
سامنا اب کسی کا کرتا نہیں
خود سے میں اس قدر ڈرا ہوا ہوں
میرے سائے پہ بس ترا حق ہے
میں تجھے دیکھ کر ہرا ہوا ہوں
خود سماعت بیان کرتی ہے
ایسا دلچسپ ماجرا ہوا ہوں
اک چراگاہ ہوں میں رشتوں کی
اور اطراف سے چرا ہوا ہوں
وقت کے ساتھ سیکھ جاؤگے
کیسے کھوٹے سے میں کھرا ہوا ہوں
پیال ہوں پر کوئی جلا نہ سکے
اس سلیقے سے میں ’بَرا‘ ہوا ہوں
جانے کس شانے کا ہوں سر مخلصؔ
جانے کس شانے پر دھرا ہوا ہوں
آپ کے تبصرے