اشک ہے کچھ اور، پانی اور ہے

محمد وسیم مخلصؔ شعروسخن

تو نے جی، وہ زندگانی اور ہے

ہم نشیں! میری کہانی اور ہے


زندگی جینا ہے اک کار دگر

زندگی کی ترجمانی اور ہے


بے رخی طے پائی تھی جس کا صلہ

وہ محبت کی نشانی اور ہے


خوف سے جس کے لرز اٹھتا ہے دل

ہجر کی وہ بے کرانی اور ہے


میں ہوں اس کوشش میں اک دن تو ملے

اور تیری لن ترانی اور ہے


گو کہ ہے برباد تو بھی عشق میں

یار! میری رائیگانی اور ہے


رنگ تجھ پر سب ہی جچتے ہیں مگر

دیکھ! رنگ مہربانی اور ہے


ہیں بظاہر ایک سے، لیکن وسیمؔ

اشک ہے کچھ اور، پانی اور ہے

آپ کے تبصرے

3000