جن کو اپنا میں سمجھتا تھا پرائے نکلے

م . ع . اسعد شعروسخن

کیوں نہ اب بھی دل مغموم سے ہائے نکلے

جن کو اپنا میں سمجھتا تھا پرائے نکلے


وہ جو لوگوں کے مسیحا بنے پھرتے تھے کبھی

پھول بچوں کے لہو میں وہ نہائے نکلے


میرا دل ہے یہ نہیں کوئی مسافر خانہ

جس کی مرضی ہو کسی وقت بھی آئے نکلے


اونچے محلوں پہ بڑا فخر تھا جن کو کل تک

آج ملبے میں انھی لوگوں کے سائے نکلے


زخم اتنے ہیں اگر کھودے کوئی دل کی زمیں

تو لہو آنکھ سے اشکوں کے بجائے نکلے


چائے سے عشق کا مطلب ہی یہی ہے اسعد

جب کٹے رگ تو سوا خون کے چائے نکلے

آپ کے تبصرے

3000