کیا عجب لوگ ہیں زخموں کو دوا کہتے ہیں

رشدی ندا شعروسخن

آنکھ کو جھیل تو اشکوں کو گھٹا کہتے ہیں

کیا عجب لوگ ہیں زخموں کو دوا کہتے ہیں


عشق بھی ہم نے کیا ہے تو عبادت کی طرح

ہم تعلق کو بھی نیکی کا صلہ کہتے ہیں


کتنے مجبور ہیں حالات کے مارے ہوئے لوگ

اپنی بربادی کو قسمت کا لکھا کہتے ہیں


اب اسی شہر میں جل جاتے ہیں انساں اکثر

پتھروں کو بھی جہاں لوگ خدا کہتے ہیں


لے اڑے سر سے ردائیں بھی مرے شہر کے لوگ

کتنے معصوم ہیں آندھی کو ہوا کہتے ہیں


کوئی بیتاب اگر ہو تو تڑپ جاؤں میں

کوئی بتلائے یہ کیا ہے اسے کیا کہتے ہیں


شکوہ ظلم بھلا کیسے زباں پر آئے

آپ جب عرض تمنا کو گلہ کہتے ہیں


ایک گمنام سی لڑکی جو غزل کہنے لگی

ان دنوں لوگ اسے رشدیٰ ندا کہتے ہیں

آپ کے تبصرے

3000