کیسا مچا ہوا ہے یہ شور ہاؤ و ہو کا
عالم بدل گیا ہے گلشن میں رنگ و بو کا
ہم نے تمھاری خاطر کتنا لہو ہے تھوکا
“ہوتا ہے غم کے ہاتھوں اب خون آرزو کا”
دل کی سنائیں کس کو، ہے زخم زخم سارا
ہم نے سنا ہے تم کو، کام آتا ہے رفو کا
آساں نہیں ہے اے دل! راہ وفا پہ چلنا
پھر وہ سنبھل نہ پایا اک بار بھی جو چوکا
اے عشق! تیری منشا کب سے بدل گئی ہے
تو کیسے ہوگیا ہے حرص و ہوس کا بھوکا
واعظ، خطیب، شاعر ہیں سر میں سر ملاتے
جب سے ہوا ہے شہرہ دنیا میں خوش گلو کا
اوروں کی قدر میں ہی، اپنی ہے قدر مضمر
بن جائیے محافظ اوروں کی آبرو کا
بنتے بگڑتے دیکھے ہم نے جہاں میں رشتے
کرتا ہے دوست، دشمن انداز گفتگو کا
ضامن فلاح کی ہے یہ مستقل مزاجی
مد مقابل اب تک دیکھا نہ ایک سو کا
جس کو خدا سخن کا کہتے ہیں اہل اردو
ازبر ہے وہ سبھی کو، گو چل بسا کبھو کا
برسوں سے ڈھونڈتا ہوں اس کو سحر جہاں میں
کوئی نتیجہ نکلے میری بھی جستجو کا
بہترین غزل استاد محترم ہر ہر شعر قابل تعریف ہے
اللہ آپ کو ترقیاں نصیب فرمائے آمین
استادانہ کلام