’یہ دُم کٹی لومڑیاں‘

حافظ عبدالحسیب عمری مدنی تعلیم و تربیت

لڑکپن میں جو سبق آموز کہانیاں پڑھی تھیں ان میں سے ایک کہانی دُم کٹی لومڑی کی بھی تھی۔
کہانی کچھ اس طرح تھی کہ:
جنگل میں ایک شکاری لومڑی کے پیچھے لگ گیا، اس سے جان بچا کر بھاگتے ہوئے لومڑی کی دُم ایک کانٹے دار جھاڑی میں الجھ گئی، جان بچانے کی خاطر لومڑی اپنی دُم توڑ کر بھاگنے پر مجبور ہوگئی۔
جان تو بچ گئی تاہم دُم کٹی لومڑی خود کو دوسری لومڑیوں کے درمیان تنہا اور شرمندہ محسوس کرنے لگی۔ دُم کی خوبصورتی اور اپنی خاص شناخت کو گنوا کر وہ جس احساس محرومی سے دوچار تھی اس احساس نے اس کا جینا دوبھر کردیا تھا۔ اس کا بس نہیں چلتا تھا کہ پھر سے دُمدار ہوجائے اور نہ ہی اس کے لیے یہ ممکن تھا کہ خود ساری لومڑیوں کی دُم کاٹ دے۔
عیار لومڑی نے اس محرومی کے احساس اور اپنی ‏خفگی مٹانے کا ایک طریقہ ڈھونڈ لیا۔
اس نے تمام لومڑیوں کو اکٹھا کیا اور سب کے سامنے کھڑے ہوکر دُم کی برائی شروع کردی۔ کہنے لگی:
دیکھو!
اسی دُم کی وجہ سے شکاری ہمارا پیچھا کرتے ہیں، اسی کی وجہ سے ہماری جان جاتی ہے۔ اگر یہ دُم نہ رہے تو نہ شکاری آئے گا نہ جان جائے گی۔ یہ بھی دیکھو کہ جب سے میری دُم کٹی ہے میں خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرتی ہوں، پوری آزادی سے گھومتی پھرتی ہوں، نڈر ہوکر کسی بھی جھاڑی میں گھس جاتی ہوں، پہلے کی طرح اب مجھے کسی جھاڑی میں الجھنے پھنسنے کا کوئی خوف نہیں ہے۔
قصہ مختصر یہ کہ عیار لومڑی نے خود کے عیب و نقص کا حل یہ چنا کہ ساری لومڑیاں دُم کٹی ہوجائیں تاکہ وہ بھی ’خوش‘ رہے اور اس کا عیب عیب نہ رہے۔
مکار لومڑی کی یہ کہانی بچپن یا لڑکپن میں پڑھی تھی تو بس ایک کہانی تھی مگر جب سے ہوش سنبھالا ہے ایسی ’دُم کٹی لومڑیاں‘ جابجا دکھائی دیتی ہیں۔
آنکھیں کھلی رکھیں تو آپ قارئین کو بھی ایسی بے شمار دُم کٹی لومڑیاں اپنے دائیں بائیں دکھائی دیں گی ۔
معاشرتی و سماجی زندگی سے لے کر علمی و فکری دنیا تک، ہرجگہ ایسے نمونے قدم قدم پر ملیں گے۔
اسلام کی حقانیت، اس کی علمی قوت اور اس کی ہمہ گیر تاثیر کے مقابلے دنیا میں پائے جانے والے دیگر ادیان کی سطحیت اور استنادی کمزوری کو چھپانے کی خاطر لادینیت کو جدید دور کی ضرورت اور جدید دور کے تقاضوں سے پوری طرح ہم آہنگ ہونے والی آئیڈیالوجی کے طور پر متعارف کروانے والی ’مبلّغ لومڑیاں‘ بھی دیکھیں۔
چودہ صدیوں بعد بھی اسلام اور اسلامی تعلیمات کی آفاقیت اور بدلتے زمان و مکان کے باوجود ہر طرح کے حالات سے اس کی ہم آہنگی سے گھبرائی وہ لومڑیاں بھی دیکھیں جو یہ دعوت دیتی ہیں کہ اسلام کی آفاقیت کو نمایاں اور اجاگر کرنے کے لیے ہر زمانے میں ایک نئی تعبیر، ایک نئی تفسیر کی ضرورت ہے۔ جو بڑی ہی متانت و سنجیدگی بلکہ نہایت فکرمندی کے ساتھ یہ پیغام عام کررہی ہیں کہ علماء کو چاہیے وہ ’تجديد الخطاب الديني‘ کو اپنا مشن بنائیں۔ علماء کو چاہیے کہ وہ اس حقیقت کو سمجھیں کہ اسلام کا ایک نیا بیانیہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔
اس معاملے میں مزید ایک قدم آگے یہ بھی دیکھا کہ ان دُم کٹی لومڑیوں کی عیاری کا شکار کچھ بھولی لومڑیاں یہ تک مان چکی ہیں کہ اب کی بار یہ فریضہ علماء کے بجائے ’مفکرین‘ کے ہاتھوں ہی انجام پائے گا جو شرعی علوم و فنون کی دُم کا ’بوجھ‘ اپنے ساتھ نہیں لیے پھرتے بلکہ نئی دنیا، نئے پیمانے، نئے اصول اور اس طرح اسلام کی ایک نئی تعبیر کے علمبردار ہوتے ہیں۔ خیر سے انجام چاہے یہی ہو کہ (لَا يَبْقَى مِنَ الْإِسْلَامِ إِلَّا اسْمُهُ، وَلَا يَبْقَى مِنَ الْقُرْآنِ إِلَّا رَسْمُهُ) اسلام کے نام پر صرف ڈھانچہ رہ جائے اور اس کی روح بدل دی جائے۔ دین کے نام پر صرف شکل باقی رہ جائے اور اس کی حقیقت بدل دی جائے۔ (شعب الإيمان للبيهقي:٣/٣١٧)
جمہوریت کے نام پر مذہب سے نظریں چرانے والی کئی لومڑیاں دیکھیں جو اسلامی نظام حکومت کو محض عہدِ قدیم کی ایک یادگار قرار دینے پر تلی ہوئی ہیں۔
مسلمان عورت کے ’حقوق‘ کے لیے ’فکرمند‘ اور مسلم عورت کی ’ترقی‘ کا راگ الاپنے والی لومڑیاں بھی دیکھیں جو پردہ، مرد کی قوامیت، مسلم خاتون کے گھریلو کردار تک محدود ہونے جیسی باتوں سے پریشان ہیں، مسلم معاشرہ میں ’آدھے سماج کے ناکارہ رہ جانے‘ کے غم میں گھلی جارہی ہیں اور مساوات مرد و زن کو مسلم عورت کا حق سمجھتی ہیں اور اس راہ میں برسرپیکار ہیں۔
کچھ لومڑیوں کو اس فکر میں سر جوڑ کر بیٹھے دیکھا کہ مدرسوں سے انجینئر، ڈاکٹر، وکیل اور سائنسدان کیوں نہیں نکل رہے ہیں۔
ان دُم کٹی لومڑیوں کی ایک ٹولی ایسی بھی دیکھی جو مختلف علماء صلحاء خدام وغیرہ کی فکر میں غلطاں و پیچاں ہیں، جو پورے وثوق سے کہتی ہیں کہ علماء کو سب سے پہلے مدارس و مساجد کے بجائے بازار میں قدم جمانے چاہئیں، ایک کامیاب تاجر ہونا چاہےے تاکہ۔۔۔۔۔۔۔۔
صلحاء کو جماعت و جمعیت یا ملی اداروں اور قومی مسائل کی ’سیاست‘ سے دور رہنا چاہیے تاکہ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔
لومڑیوں کی ایک قسم وہ بھی دیکھی جو پورے یقین کے ساتھ یہ دعوٰی اور دعوت عام کررہی ہے کہ اب سلفی دعوت کے حاملین کو سیاست، خدمت خلق جیسے میدانوں پر زیادہ توجہ دینی چاہیے کیونکہ ۔۔۔۔۔
سماج اور معاشرے میں ایسی لاتعداد حاسد لومڑیاں نظر آئیں گی جو کسی بھی شخص کی ایسی کسی خوبی کا تذکرہ جس سے وہ خود محروم ہیں ایسے انداز میں کریں گی جیسے یہ اس شخص کی خوبی نہیں کمی ہے، کمال کے بجائے نقص ہے، اس پر اسے خوش ہونے کے بجائے شرمندہ رہنا چاہیے۔
آپ نفل عبادات اور طلبِ علم جیسی مصروفیات کو اپنا مشغلہ بنائے ہوئے ہیں وہ اس تشویش کا شکار ہیں کہ کہیں آپ کی صحت متاثر نہ ہوجائے، آپ کہیں سماج سے کٹ نہ جائیں۔
آپ سماج کی کسی بھی طرح خدمت کر رہے ہیں انیںہ فکر ہے کہ لوگ آپ جیسوں کی قدر نہیں کرتے اور آپ جیسوں کو ان کا جائز مقام نہیں دیتے۔
بين الأقوامى سیاست بالخصوص عالم اسلام کی صورت حال کے بارے میں کیا کہا جائے، یہاں تو اتنی لومڑیاں اور اتنے رُخ ہیں کہ الأمان والحفيظ
قارئین!
ہمارے عہد میں دُم کٹی لومڑیوں کی کوئی کمی نہیں ہے، اللہ ہی بہتر جانے کہ ان کی کتنی اقسام ہیں۔ یہ بس دیکھنے والی نظر پر موقوف ہے کہ وہ کتنی لومڑیوں کو دیکھنے کی استعداد رکھتی ہے۔
ہماری گزارش بس اس قدر ہے کہ آپ لومڑیوں کی عیار زبان سے زیادہ ان کی کٹی دُم پر نظر رکھیں۔ آپ مدعا و مقصود کو صحیح انداز میں سمجھ پائیں گے۔ اور اپنی دُم کی حفاظت کرلے جانے میں کامیاب بھی ہوں گے جو یقینا ان دُم کٹی لومڑیوں کے مقابلے ہمارا اضافی بوجھ ہے مگر اسی سے ہمارا اعتبار قائم ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالی نے قوم لوط کا تذکرہ کرتے ہوئے اسی دُم کٹی لومڑی والے مزاج کو بیان کیا ہےکہ لوط علیہ السلام کے متبعین نے اخلاقی برائی میں سماج کا ساتھ نہ دیا تو سماج نے یہ کہنا شروع کردیا:
أخۡرِجُوهُم مِّن قَرۡیَتِكُمۡۖ إِنَّهُمۡ أُنَاس یَتَطَهَّرُونَ(یہ سماج کے نام پر کلنک ہیں، سماج کو اس بوجھ سے چھٹکارا پالینا چاہےخ)
لہذا چوکنا رہے!
نظر آپ کی ہے تو منظر بھی آپ دیکھیے کوئی اور آپ کو کیوں اپنی مرضی سے دکھلائے؟؟
اور جب دیکھیے تو منظر کے ساتھ پس منظر بھی دیکھیے۔
نظر کا دھوکہ نظریہ کا دھوکہ بن جائے تو پھر پلٹنا بہت مشکل بالکل اسی طرح جس طرح کٹی دُم کا جوڑنا مشکل ہے۔
فاعتبروا يا أولي الأبصار (الحشر:۲)اے دیدہ بینا رکھنے والو!عبرت حاصل کرو۔

6
آپ کے تبصرے

3000
6 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
6 Comment authors
newest oldest most voted
عاصم أفضال

جزاکم اللہ خیرا
بہترین تمثیلی تحریر، اسلام کی آفاقیت پر اندرونی و بیرونی یلغار سے چوکنا رہنے اور اپنے اسلامی تشخص اور نظریہ کی حفاظت کی طرف توجہ دلاتا مضمون!
شکریہ 🌹

ریاض مبارک

لے دے کے اپنے پاس فقط اک نظر تو ہے
کیوں دیکھیں زندگی کو کسی کی نظر سے ہم

كي عثمان غني

ماشاءالله.تقبل الله جهودكم…آمين يارب

Shaikh Zakariya

ماشاء الله
بہت ہی بہترین لکھا ہے شیخ محترم نے
جزاك الله خيرا شيخنا
جمہوریت اور سیکولرازم کی فکر کے حاملین لوگ اور انکے تلوے چاٹنے والوں کے لئے یہ تحریر نشان راہنمائی ہے بس یہی کہنا ہے کہ فاعتبروا ياألي الأبصار

Awad Zayan

ماشاءالله… تبارك الله رب العرش العظيم…
زباں زد ایک انوکھی تمثیلی تحریر پڑھنے کو آئی۔۔۔ جو کہ ساری دنیا کے مختلف شعبوں کی دم کٹی لومڑیوں کی حقیقت کو بڑے مبہمانہ مگر منکشفانہ انداز میں بیان کر رہی تھی۔۔۔ “نظر آپ کی ہے تو منظر بھی آپ دیکھئے کوئی اور آپ کو کیوں اپنی مرضی سے دکھلائے۔۔۔؟؟؟ اور جب دیکھئے تو منظر کے ساتھ پس منظر بھی دیکھئے۔۔۔ نظر کا دھوکہ نظریہ کا دھوکہ بن جائے تو پھر پلٹنا مشکل بالکل اسی طرح جس طرح کٹی دم کا جوڑنا مشکل ہے۔۔۔” سبحان اللہ۔۔۔

فخرالدين سلفي

جزاك الله خير و أحسن الجزأ وبارك الله فيك