جمعہ پڑھا کر مصلی پر ہی بیٹھا ہوا تھا کہ ہمارے ایک شناسا حسبِ معمول ملاقات کے لیے مصلی تک آئے۔ خلاف معمول رنجیدہ نظر آرہے تھے، حال چال دریافت ہونے کے بعد معمول کے مطابق اپنے کچھ دینی سوالات پوچھے پھر یہ کہنے لگے: شہر سے دور ایک قصبہ میں مسجد کی ترمیم کی ذمہ داری اپنے سر لی ہے دعا فرمائیں۔
یہ کہتے کہتے آبدیدہ ہوگئے!
میں نے آبدیدہ ہونے کی وجہ پوچھی تو کہنے لگے: جس جگہ کی مسجد کی ذمہ داری لی ہے اس قصبہ کے لوگ نادار ہیں، کام زیادہ ہے جو میری اپنی استطاعت سے بھی بڑا ہے اس لیے کچھ اور لوگوں سے بھی مدد لی ہے، لیکن اب پچھتا رہا ہوں کیونکہ دوسرے لوگ جو نہ اس قصبہ کے ہیں نہ ان کا کوئی تعاون ہے میری نیت پر شک کرنے لگے ہیں بلکہ یہ تک کہنے لگے ہیں کہ مسجد کی آڑ میں دولت سمیٹ رہا ہوں۔۔۔ یہ کہتے کہتے ان کے آنسو چھلک پڑے۔۔۔
میں نے انھیں تسلی دی، ہمت بندھائی، اللہ کی رضا کے لیے محنت کر رہے ہوں تو لومة لائم کی پرواہ نہ کرنے کی ترغیب دلائی اور یہ بھی کہا کہ قوم و ملت کی خدمت کی آڑ میں اپنی مطلب برآری میں لگے بعض حضرات نے لوگوں کے دل و دماغ کو اس قدر متاثر کیا ہے کہ لوگ اب اچھے اچھوں کے بارے میں بھی اچھا نہیں سوچ پاتے ہیں۔
بدگمانوں کی مہربانی سے
پاکدامن بچے نہ دامن چاک
ان کو دلاسہ دینے کی اصل وجہ یہ تھی کہ ان صاحب کے بارے میں مجھے معلوم تھا کہ خود اہل ثروت میں سے ہیں، (فقد لبثت فيكم عمرا من قبله) میں ایک عمر تمھارے درمیان گُزار چُکا ہوں (يونس: ١٦) کے بمصداق سماج میں اپنا ایک اعتبار رکھتے ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی جانتا ہوں کہ ان کی اپنی ایک زمین تھی جس کی قیمت چالیس لاکھ روپئے سے زیادہ تھی، اس زمین پر کوئی اور دعوی کر بیٹھا جو پریشان حال بھی تھا، ان صاحب نے خطبہ جمعہ میں ایک حدیث سنی (من أنظر معسرًا أو وَضع له، أظلَّه اللهُ يومَ القيامةِ تحتَ ظلِّ عرشهِ، يومَ لا ظلَّ إلا ظلُّه) جو کسی تنگ دست کے لیے آسانی پیدا کرے اور اس کی خاطر قیمت یا قرضہ گھٹادے اللہ تعالی روز قیامت اسے سایہ دے گا جس دن اس کے سایہ کے علاوہ کوئی سایہ نہیں ہوگا۔ (ترمذی و احمد) اس حدیث کو سننے کے بعد اللہ کی خاطر اس زمین سے دستبردار ہوگئے تھے، ایسے بے لوث لوگوں کو جب طنز و تعریض کے یہ جملے سننے اور سہنے پڑتے ہیں تو دل لہولہان ہوجاتا ہے۔
بات ختم ہوئی اور وہ بھی رخصت ہوگئے۔ لیکن اپنے پیچھے میرے ذہن میں بہت سارے سوال چھوڑ گئے، سارے سوالات کا یہاں تذکرہ ممکن نہیں۔ صرف ایک سوال سے متعلق کچھ گزارشات رکھنا چاہتا ہوں۔
سوال یہ تھا کہ کیا واقعتًا امت کے اخلاقی دیوالیہ پن کا یہ حال ہے کہ اب ہمارے درمیان کوئی امانت دار نہیں رہا؟ اور قرب قیامت کی وہ علامت ہم اپنی چشم سر سے دیکھ رہے ہیں جس کی بابت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ قرب قیامت امانتداری اٹھالی جائے گی یہاں تک کہ لوگ آپس میں کہیں گے: سنتے ہیں کہ فلاں قبیلے میں ایک امانتدار ہے۔ (مسلم)
یا پھر یہ ہمارے مزاج کی بے اعتدالی اور غلوپسندی کا مظہر ہے کہ ایک ہی رنگ کے چشمے سے سب کو دیکھتے ہیں۔
یا یہ ہمارے اپنے نفس کی کمزوری اور ہماری اپنی طبیعتوں کے خبث اور حسد کی کرشمہ سازی ہے جو ہمیں دوسروں سے صرف بدگمان ہونا سکھلاتی ہے۔
یہ فیصلہ آپ پر چھوڑتا ہوں، ہر شخص خوداحتسابی سے کام لے تو وہ خود سمجھ سکتا ہے کہ اس بدگمانی کے پیچھے مذکورہ بالا عوامل میں سے کونسا عامل کارفرما ہے، اس شخص کے اخلاقی رویہ کا کتنا دخل ہے اور خود کی اپنی کمزوری کا کتنا کہ ہماری نظر میں “معتبر” کوئی نہ رہا۔
تاہم اپنے طور پر آپ قارئین سے یہ گزارش ضرور کروں گا کہ سماج میں غلط عناصر کا وجود تو درکنار ان کا غلبہ بھی ہوجائے تب بھی اس قدر زیادہ مایوس نہ ہوجائیں کہ یہ سمجھنے لگیں کہ اب خیر باقی نہیں ہے۔
ہم خیر امت ہیں اور ہم اہل سنت کا یہ ماننا ہے کہ قرب قیامت تک امت میں خیر باقی رہے گا، کلی طور پر خیر کا ختم ہوجانا قیامت کا آنا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جو فرمایا تھا (لاتزال طائفة من أمتي ظاهرين على الحق) میری امت کا ایک طبقہ برابر حق پر رہے گا، غالب ہوگا (مسلم) .. اس کا ایک تقاضہ یہ بھی ہے کہ کم سہی کمزور سہی مگر اہل خیر باقی ہیں اور باقی رہیں گے اور یہ معاملہ ہر خیر کا ہے۔
لہذا ہماری طرف سے یہ زیادتی ہوگی کہ ہم قوم و ملت کے صرف خائنوں کو دیکھیں اور ان کی وجہ سے بدگمانی کی دوسری انتہا پر جا پہنچیں اور یہ مان لیں کہ جس نے بھی کوئی قومی و ملی ذمہ داری اپنے سر لی وہ “کرپٹ” ہی ہے۔
قوم و ملت کی خدمت کے میدان کو اتنی گھٹن سے نہ بھردیں کہ سانس لینا دوبھر ہوجائے، منفی خیالات کو اس قدر طاقتور ہونے نہ دیں کہ ہم کسی کے بارے میں اچھا بھی نہ سوچ سکیں۔
یاد رکھیں اگر ایسے عدم اعتماد کا ماحول رہے گا تو آئندہ اچھے لوگ کبھی میدان عمل کا رخ نہیں کریں گے، یہ بھی عین ممکن ہے کہ میدان میں موجود اچھے لوگ بھی میدان چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوں۔ ایسی صورت میں قوم و ملت کا اور جمعیت و جماعت کا جو نقصان ہوا اور آئندہ ہوگا اس کی بھرپائی کیسے ہو پائے گی، اور کیا ہمیں کل اللہ تعالی کے پاس جوابدہی نہیں کرنی پڑے گی؟؟
شرافت دست بستہ عرض کررہی ہے “أتهلكنا بما فعل السفهاء منا”کیا آپ اُس قصور میں جو ہم میں سے چند نادانوں نے کیا تھا ہم سب کو ہلاک کر دیں گے؟ (الأعراف:١٥٥) کیا میرا بھی کوئی وزن ہے؟ اعتبار ہے؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ اوقاف سے لے کر عمومی عطیہ جات اور چندوں تک قومی و ملی سرمایہ کے ساتھ بہت کچھ ایسا ہورہا ہے جو شرعا قانونا اور اخلاقا ناقابل قبول ہے تاہم اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ امت خیر سے کلی طور پر نہ کبھی خالی رہی نہ رہے گی۔
ان اخلاقی رویوں میں افراط و تفریط سے پاک میانہ روی اختیار کی جائے کہ یہی عین دین داری ہے۔
عليك بأوساط الأمور فإنّها
طريق إلى نهج الصّواب قويم
ولا تك فيها مفرطا أو مفرّطا
كلا طرفي قصد الأمور ذميم
Assalamualaikum wa rahmatullahi wa barakatuh Shaik aap ne jis sahab ka zikr kiya hai in se milte julte halaath aksar wa beshter hamare sath ronuma horahe hai “allah ki qasam khaker kehte hun kuch din se jamiat k ahbaab wa jamiat ke zimmedarao se door hi rehne me aafiyat mehsoos horahi hai warna kab kis din hame bhi kisi ilzaam me badnaam kardete bol nahi sakte” Allah ki panha Hamare darmiyan kuch mafaad (post,paisa,anaa)parast logao ki wajah se jamiat ka shiraza bhikhar chuka hai aur uske liye jo bhi iqlaas ke sath koshish karta hai uska yeh log jina dobhar… Read more »
Mashallah jazkllahu khaier shaik muhtram
Assalamu alaikum Shaik Aap ne jo khadshath zikr kiya wo Halath my dekhraha hun baz logon me Hoda wa mansab aane k bad Aqlaqi bigad k wajase bahut sare villege s k masjaid salafiath se dur huwe ,
برجستہ اور دل سے لکھی ہوئی تحریر، حکمت اور موعظت سے لبریز۔ مبارک ہو شیخ حسیب۔
كلام من القلب إلى القلب
Baarakallahu feek Shaikh