ہشام کے نام جس کا اب صرف نام ہی رہ گیا

کاشف شکیل شعروسخن

تجھے کفن میں جو دیکھا ہے حال کیا لکھوں

سیہ لباس میں نکلوں یا پھر لہو اُگلوں


ہشام جب تری مسکان‌ یاد‌ آتی ہے

خدا قسم وہ ہنساتی‌ نہیں رلاتی ہے


ابھی تو عمر تھی تیرہ، ہوا یہ کیسا ستم

حیات چھین لی تیری عجب خدا کا کرم


یوں گرمیوں میں تو سوتے تھے آسمان تلے

ستارے چھوڑ کے کیوں اندرون خاک چلے


بتاؤ حال ہے کیسا تمھارا آج کی شب

کرم کا فیصلہ فرمائے کل جہاں کا رب


او بھائی میرے بتاؤ تو خیریت اپنی

لکھو، کہو یا سناؤ تو کیفیت اپنی


قضا حیات سے کیوں دشمنی نبھاتی ہے

یقین کر یہ جدائی بہت ستاتی ہے


الف کے بعد معاً یاء کہاں چلی آئی

گلاب کھلنے سے پہلے خزاں چلی آئی


ہشام بابو تم آؤگے ملنے کب ہم سے

نجات کیسے ملے گی بتاؤ اس غم‌ سے


بتا کے جاؤ تلاشوں تمھیں میں کس گھر میں

دلوں میں قبر میں یا اشک‌ کے سمندر میں


مجھے تو لگتا ہے یہ عشق کی کہانی ہے

کہ حسنِ موت پہ قرباں تری جوانی ہے


کبھی یہ لگتا ہے دنیا نے بے وفائی کی

تبھی تو تو نے سزا دی اسے جدائی کی


کبھی یہ لگتا ہے جنت تھی منتظر تیری

سعادتیں تھیں سبھی اس میں مستتر تیری


معاملہ تھا رقابت کا اب سمجھ آیا

ہمارا پیارا خدا کو بھی ہوگیا پیارا


ہشام! ایک قیامت بپا ہے گھر میں یہاں

سبھی کو چھوڑ کے تم چل دیے اکیلے کہاں


کہا تھا ماں نے بتائے بنا نہ جانا دور

تم ایسے حکم عدولی پہ کیوں ہوئے مجبور


مجھے پتہ ہے جنازہ نہیں بَرات تھی یہ

جو مہر میں دیا حوروں کو وہ حیات تھی یہ


مئی کی تیرہ بہت تیرہ بخت تھی کاشف

کہ سوچ کر بھی جسے اہل خانہ ہیں خائف


ہشام! اچھا چلو خیر کوئی بات نہیں

نہ آئے موت جسے ایسی کوئی ذات نہیں

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
أبو ذكــــوان نورى

إنا لله و إنا إليه راجعون اللهم اغفر له وارحمه و عافه واعف عنه وأكرم نزله ووسع مدخله واغسله بالماء و الثلج والبرد ……………..