یہی کیا کم قیامت ہے

کاشف شکیل شعروسخن

جہانِ عشق اب سونا پڑا ہے

تمھیں پاکر کے بھی کھونا پڑا ہے


اداسی ہوگئی مجھ پر مسلط

تمھیں بھی رات دن رونا پڑا ہے


پڑا رہتا تھا اک کونے میں ہر دم

مگر اب مجھ میں ہی کُونا پڑا ہے


بھگانے کے لیے خوابوں سے تم کو

تصور میں تمھیں چھونا پڑا ہے


یہی کیا کم قیامت ہے مری جاں

تمھیں چومے بنا سونا پڑا ہے


میں دو سے ایک پھر زیرو ہوا ہوں

مگر یہ عشق کیوں دونا پڑا ہے


ترے دامن کے داغوں کو مجھے جاں!

جگر کے خوں سے کیوں دھونا پڑا ہے


غموں کا بوجھ تھا یکساں سبھی پر

مگر کاشف کو ہی ڈھونا پڑا ہے

آپ کے تبصرے

3000