غزلوں میں مری

کاشف شکیل شعروسخن

ہجر کا درد سمٹ آیا ہے غزلوں میں مری

قیس سا مرد سمٹ آیا ہے غزلوں میں مری


نیند سے دور نَیَن، زلف پراگندہ بھی

اور رخِ زرد سمٹ آیا ہے غزلوں میں‌ مری


جب سے جنت سے بھگایا ہے خدا نے مجھ کو

طرد ہی طرد سمٹ آیا ہے غزلوں میں مری


میری غزلوں کے تصور کو حقیقت سمجھو

عشق سا فرد سمٹ آیا ہے غزلوں میں مری


یہ جو سرخی ہے، لبوں کی ہے، لہو کی یا پھر

احمری وَرد سمٹ آیا ہے غزلوں میں مری


میں نے “اسرار” کی آوارہ پڑھی ہے جب بھی

ایک شب گرد سمٹ آیا ہے غزلوں میں مری


بانو بلقیس کے ریپسٹ ہوئے جب سے رہا

ایک نامرد سمٹ آیا ہے غزلوں میں مری


اس کے رخسار سے بہتا ہوا آنسو کاشف

برف سا سرد سمٹ آیا ہے غزلوں میں مری

آپ کے تبصرے

3000