روایتی دین، تجدید اور تجدد پسندی (پہلی قسط)

حافظ عبدالحسیب عمری مدنی فقہیات

’روایتی دین‘ مفکرین کی دنیا کی ایک معروف اصطلاح ہے۔ مفکرین کی جماعت اور ان کو پڑھنے اور سننے والے بکثرت اس اصطلاح کا استعمال کرتے ہیں اور خود کو اس ’روایت‘ سے آزاد ’دین‘ کا علمبردار باور کرواتے ہیں ۔

’ روایتی دین‘ اور ’روایتی فکر‘ جیسی اصطلاحات کا معاملہ بظاہر ایک سادہ سی اصطلاح کا معاملہ ہونے کے باوجود بباطن ایک گنجلک مسئلہ ہے جس کے مالہ و ماعلیہ پر غورکرنے کی شدید ضرورت ہے تاکہ اس اصطلاح اور اس سے وابستہ تصورات کے سلسلے میں ایک متوازن موقف طے ہو اور ان تصورات کی صحت یا عدم صحت کے سلسلے میں صحیح نتیجہ تک پہنچا جاسکے۔ ذیل میں ہم اسی کی کوشش کرتے ہیں ۔

سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ دین کے روایتی ہونے کا مفہوم سمجھ لیا جائے۔ اور جب ہم اس کی کوشش کرتے ہیں تو ہمارے سامنے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ دین کے روایتی ہونے کے دراصل دو مفہوم ہیں ۔

روایتی دین کا پہلا مفہوم

دین کے روایتی ہونے کے ایک مفہوم میں دین سے مراد وہ دین ہے جوروایت یعنی سلسلہ سند کے ساتھ منقول و مروی ہے جسے آپ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کہتے ہیں۔ نیز کتاب وسنت کا وہ معنی ومفہوم جو ‘قرآن کی قرآنی تفسیر یا نبوی تفسیر کے طور پر اور حدیث رسول کی نبوی تشریح وتوضیح کے طور پر اور سلف صالحین کے علم وفہم کے نام پر موجود ہے‘ کیونکہ قرآن وسنت صرف الفاظ کا نام نہیں ہے، الفاظ اپنے معانی ومفاہیم بھی رکھتے ہیں اور صحابہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن وسنت کے الفاظ کے ساتھ اس کے معانی اورمفاہیم بھی لیے اور ان کی روایت کی ہے۔ اسی لیے صحابہ کہا کرتے تھے ’’فعلمنا العلم والعمل‘‘ ہم نے علم وعمل دونوں ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے لیا ہے (مسند أحمد: ۲۳۴۸۲)

روایتی دین اپنے اس مفہوم میں عین دین اسلام ہے جو سب پر حاکم و فیصل ہے (إن الحکم إلا للہ) فیصلہ صرف اللہ ہی کا ہے۔(یوسف:۴۰) انسان کے ظاہر کی طرح انسان کا باطن اور اس کا قلب و ذہن بھی اس روایتی دین کی ہدایات کا پابند ہے:(وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَامُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗٓ اَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَھُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ اَمْرِھِمْ وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلاً مُّبِیْنًا) اور کسی مومن مردو عورت کو اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ کے بعد اپنے کسی معاملہ میں کوئی اختیار باقی نہیں رہتا اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا وہ صریح گمراہی میں پڑے گا۔(الأحزاب:۳۶)

پھر انسان چاہے کتنی ہی سمجھ بوجھ والا ہو اور کتنا ہی باکمال ہو اسے اپنی عقل وخرد سمیت اس بندگی کے دائرہ میں داخل ہونا پڑے گا۔ اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (فإنہ لو کان موسی حیا لما وسعہ إلا اتباعي) اگر موسی بھی زندہ ہوتے تو ان کے لیے بھی میری اتباع کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا۔(مسند أحمد: ۱۴۶۳۱) اسی لیے قرب قیامت حضرت عیسی علیہ السلام نازل ہوں گے تو اسی روایتی دین کے پیروکار بن کر آئیں گے۔ متفق علیہ روایت میں یہ بات ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نزول عیسی کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: (وإمامکم منکم) یعنی تمھارے امام تم ہی میں سے ہوں گے۔(متفق علیہ) ابن أبی ذئب جو اس حدیث کے راوی ہیں اس جملہ کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: (فأمکم بکتاب ربکم تبارک وتعالی وسنۃ نبیکم صلی اللہ علیہ وسلم) یعنی اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ عیسی ابن مریم تمھاری امامت تمھارے رب کی کتاب اور تمھارے نبی کی سنت کے مطابق کریں گے۔(مسلم: ۲۴۶) گویا اس روایتی دین کی پابندی ہی دراصل عبادت ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اسی روایتی دین کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

(إن الحق الذی لا باطل فیہ ہو ما جائت بہ الرسل عن اللہ وذلک فی حقنا ویعرف بالکتاب والسنۃ والإجماع ——- فلہذا کانت الحجۃ الواجبۃ الاتباع: للکتاب والسنۃ والإجماع فإن ہذا حق لا باطل فیہ واجب الاتباع لا یجوز ترکہ بحال عام الوجوب لا یجوز ترک شیء مما دلت علیہ ہذہ الأصول ولیس لأحد الخروج عن شیء مما دلت علیہ) حق جس میں باطل کی کوئی آمیزش نہیں ہے وہ وہی ہے جو رسول اللہ کی طرف سے لے کر آئے اور یہ ہمارے مفاد میں ہے۔ اس حق کی پہچان کتاب وسنت اور اجماع سے ہوتی ہے——– اسی لیے وہ حجت و دلیل جس کی اتباع واجب ہو کتاب وسنت اور اجماع ہی ہیں۔ یہ ایسا حق ہے جس میں باطل کی کوئی آمیزش نہیں ہے، یہ حق واجب الاتباع ہے کسی حال میں اسے ترک نہیں کیا جاسکتا، اس کا وجوب عام ہے اس طرح کہ ان اصول کی بیان کردہ کسی بھی چیز کو ترک نہیں کیا جاسکتا اور کسی بھی شخص کو ان اصولوں کی بتائی ہوئی تعلیمات سے آزادی کا بھی اختیار نہیں ہے۔ (مجموع الفتاوی: ۱۹:۵)

روایتی دین کا دوسرا مفہوم:

دین کے روایتی ہونے کا ایک دوسرا مفہوم بھی ہے، روایتی دین کے اس دوسرے مفہوم کے مطابق روایتی دین سے مراد وہ دین ہے جو آبا و اجداد سے نسل در نسل چلا آیا ہے اور اس کے دین ہونے کے لیے بس یہی سند ہوکہ ”إنا وجدنا آبائنا علی أمۃ وإنا علی آثارہم مقتدون” ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک دین پر پایا اور ہم تو انھی کے نقش پا کی پیروی کرنے والے ہیں۔ (الزخرف: ۲۳)

’روایتی دین‘ کے اس مفہوم میں دین روایتی نہیں بلکہ روایاتی ہوتا ہے جس کا مطلب ہی یہ ہے کہ یہ دین آمیزش سے پاک نہیں۔ فکر انسانی کا عنصر بھی اس میں شامل ہے، اس دین کے بعض اجزاء مستند ہیں تو بہت سارے بے سند بھی ہوسکتے ہیں۔ روایتی دین کا یہ مفہوم خود اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ اس کو آنکھ بند کرکے نہ اپنایا جائے، اس کا جائزہ لیا جائے اور اسے پرکھ کر دیکھا جائے۔ روایات کی پاسداری یا اس کے برعکس روایات سے بغاوت ایک سماجی مسئلہ ہوسکتا ہے مگر دین میں سماجی روایات دخیل ہوجائیں تو ان کے دین بننے کے لیے یہ حوالہ کافی نہیں ہے کہ یہ ہماری خاندانی یا قومی روایت ہے ۔

اسی حقیقت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا ہے: (وَاِذَا قِیْلَ لَھُمُ اتَّبِعُوْا مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِعُ مَآ اَلْفَیْنَا عَلَیْہِ اٰبَآئَ نَا اَوَلَوْ کَانَ اٰبَآؤُھُمْ لَایَعْقِلُوْنَ شَیْئًاوَّلَا یَھْتَدُوْنَ) اور ان سے جب کبھی کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالی کی اتاری ہوئی کتاب کی تابعداری کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اس طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا۔ اچھا اگر ان کے باپ دادا نے عقل سے کچھ بھی کام نہ لیا ہو اور راہ راست نہ پائی ہو تو کیا پھر بھی یہ انھی کی پیروی کیے چلے جائیں گے؟ (البقرۃ: ۱۷۰)

اکثر ایسا ہوتا ہے کہ لوگ دین سے دور ہوکرتقلید کے نام پرشخصی آراء یا خاندانی و سماجی روایات میں بندھ جاتے ہیں جبکہ شخصی اجتہادات و آراء اور بہت ساری روایات کاتعلق حقیقی دین سے ہو یہ ضروری نہیں ہوتا۔ ایسی صورت میں یہ روایتی دین قابل تنقیح بھی ہوتاہے اور قابل تنقید بھی، نہ یہ کہ قابل تقلید۔ یہ حقیقت ہے کہ مذہبی تاریخ میں قرآن و سنت سے الگ یا سلف صالحین کے طریق و منہاج سے جدا ہوکر امت نے بہت ساری ایسی چیزوں کو دین کا حصہ بنالیاہے جو کہ دین کا حصہ نہیں تھی۔ بقول اقبال؎

تمدن تصوف شریعت کلام

بتان عجم کے پجاری تمام

حقیقت خرافات میں کھو گئی

یہ امت روایات میں کھو گئی

آپ کے تبصرے

3000