فإذا الذي بينك وبينه عداوة…….

حافظ عبدالحسیب عمری مدنی تعلیم و تربیت

کل جمعہ پڑھاکر فارغ ہوا تو ایک کشمیری نوجوان آگے بڑھ کر آیا، عمر تقریبا 25 سے 30 کے درمیان ہوگی، بڑی محبت سے ملا اور کہنے لگا: “مولانا صاحب مجھے معاف کردیجیے، میں آپ سے بہت نفرت کرتا تھا۔”
یہ غیر متوقع صورت حال خود میرے لیے تعجب خیز تھی، اس نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا: “مجھے آپ سے نفرت تھی کیونکہ آپ داعش اور اس جیسی امت کے لیے قربانی دینے والی تنظیموں پر رد کرتے ہیں، میں آپ کو کسی کا آلہ کار سمجھ کر آپ سے نفرت کرتا تھا لیکن پھر اللہ نے مجھے ہدایت دی، اس سلسلے کی آپ کی اور دیگر علماء کی گفتگو سن کر مجھ پر اپنی غلطی واضح ہوگئی، لہذا اب میں آپ سے مل کر معافی کا خواستگار ہوں کہ لاعلمی میں آپ کو بہت برا بھلا کہا ہے۔”
میں نے اس نوجوان سے کہا: “کوئی بات نہیں، جب تم مجھے ناپسند کرتے تھے اور برا بھلا کہتے تھے تب کا مجھے پتہ بھی نہیں ہے اور اب آئے ہو تو ایک احسان مند دینی بھائی کی طرح محبت سے مل رہے ہو، تمھارے لیے تو میرے دل میں اول و آخر اخوت و بھائی چارہ والی محبت ہی ہے۔”
اس نوجوان کی اس گفتگو نے ثمامہ بن أثال رضی اللہ عنہ کی یاد تازہ کردی، قبول اسلام کے بعد انھوں نے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا:
يَا مُحَمَّدُ، وَاللَّهِ، مَا كَانَ عَلَى الْأَرْضِ وَجْهٌ أَبْغَضَ إِلَيَّ مِنْ وَجْهِكَ، فَقَدْ أَصْبَحَ وَجْهُكَ أَحَبَّ الْوُجُوهِ كُلِّهَا إِلَيَّ، وَاللَّهِ، مَا كَانَ مِنْ دِينٍ أَبْغَضَ إِلَيَّ مِنْ دِينِكَ، فَأَصْبَحَ دِينُكَ أَحَبَّ الدِّينِ كُلِّهِ إِلَيَّ، وَاللَّهِ، مَا كَانَ مِنْ بَلَدٍ أَبْغَضَ إِلَيَّ مِنْ بَلَدِكَ، فَأَصْبَحَ بَلَدُكَ أَحَبَّ الْبِلَادِ كُلِّهَا إِلَيَّ۔
“کل تک آپ کا چہرہ، آپ کا دین اور آپ کا شہر میرے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ تھا اور آج روئے زمین پر آپ کا چہرہ آپ کا شہر اور آپ کا دین میرے نزدیک سب سے زیادہ عزیز ہے”۔ (مسلم)
یہ ملاقات گزر گئی مگر ایک احساس اپنے پیچھے چھوڑ گئی کہ ایک داعی و مصلح کا کام ایک طبیب کی طرح اس ناحیہ سے بڑا مشکل ہوتا ہے کہ اپنے مریض کا علاج خود اس کے مفاد کے پیش نظر کرنا ہے مگر پھر بھی اکثر اس مریض کی ناراضگی و ناپسندیدگی کو جھیلنا پڑتا ہے، اس کی تلخ و ترش سننی پڑتی ہے، بسا اوقات اس کی طرف سے بے جا زیادتی کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے، تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہی مریض جب شفایاب ہوجاتا ہے تو وہ طبیب کا احسان مند ہوتا ہے اور اکثر اس قدر گرویدہ ہوجاتا ہے کہ بعد کی محبت پہلے کی نفرت و ناراضگی سے زیادہ شدید ہوتی ہے۔
لہذا مصلحین امت کو یہ سبق نہیں بھولنا چاہیے کہ کامیابی اکثر اس تکلیف دہ مرحلہ کے بعد ہی نصیب ہوتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی بارہا اس تکلیف سے گزرنا پڑا حتی کہ اللہ نے آپ کو تسلی دی اور اس کا علاج سجھایا { وَلَقَدۡ نَعۡلَمُ أَنَّكَ یَضِیقُ صَدۡرُكَ بِمَا یَقُولُونَ فَسَبِّحۡ بِحَمۡدِ رَبِّكَ وَكُن مِّنَ ٱلسَّـٰجِدِینَ وَٱعۡبُدۡ رَبَّكَ حَتَّىٰ یَأۡتِیَكَ ٱلۡیَقِینُ }
ہمیں خوب علم ہے کہ ان کی باتوں سے آپ کا دل تنگ ہوتا ہے۔ آپ اپنے پروردگار کی تسبیح اور حمد بیان کرتے رہیں اور سجده کرنے والوں میں شامل ہو جائیں۔ اور اپنے رب کی عبادت کرتے رہیں یہاں تک کہ آپ کو موت آجائے۔(الحجر: ٩٧-٩٩)
اسی لیے تواصی بالحق اور تواصی بالصبر کو ساتھ ساتھ چلنا چاہیے، کیونکہ حدود اللہ کی حفاظت حدودِ مملکت کی پاسداری سے زیادہ بڑی خدمت ہے اور سرحدوں کی حفاظت سے زیادہ مشکل سنت و شریعت کی حدود کا تحفظ ہے کہ یہاں اکثر وہی آپ کا دشمن بن جاتا ہے جس کی خاطر آپ یہاں پہرا دے رہے ہوتے ہیں۔ فذلکم الرباط فذلكم الرباط فذلكم الرباط

{یَـٰۤأَیُّهَا ٱلَّذِینَ ءَامَنُوا۟ ٱصۡبِرُوا۟ وَصَابِرُوا۟ وَرَابِطُوا۟ وَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ لَعَلَّكُمۡ تُفۡلِحُونَ} اے ایمان والو! تم ﺛابت قدم رہو اور ایک دوسرے کو تھامے رکھو اور سرحدوں کی حفاظت کے لیے کمربستہ رہو اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔ (آل عمران: 200)

آپ کے تبصرے

3000