پھر کبھی اس راہ سے شائد گزر ہو یا نہ ہو

سلمان ملک فائز بلرامپوری شعروسخن

اب جنونِ عشق اپنا کارگر ہو یا نہ ہو

سنگِ جاناں پر نشانِ زخمِ سر ہو یا نہ ہو


کوئی کاروبارِ سامانِ نظر ہو یا نہ ہو

کارہائے دل بہ اندازِ دگر ہو یا نہ ہو


ہار دی ہے ہم نے رزمِ وصل میں یہ جان و دل

اب یہ میدانِ جنونِ شوق سر ہو یا نہ ہو


باندھ لی ہے پاؤں میں ہم نے بھی زنجیرِ جنوں

راستے میں خواہ کوئی ہم سفر ہو یا نہ ہو


چھیڑ رکھا ہے زباں پر نغمۂ فریادِ دل

اُس ستم ایجاد پر کوئی اثر ہو یا نہ ہو


منزلِ جاناں ہو مقصودِ نظر تو چل پڑو

دور تک کوئی نشانِ رہ گزر ہو یا نہ ہو


اپنے اپنے حالِ دل پر آپ رونا سیکھ لیں

شہرِ چارہ ساز میں اب نوحہ گر ہو یا نہ ہو


مرحبا صبحِ قیامت! الوداع شامِ حیات!

اے شبِ بیداد اب تیری سحر ہو یا نہ ہو


سر بہ صحرا پھر رہا ہوں جستجوئے یار میں

جذبۂ فرہاد پیہم سر بہ سر ہو یا نہ ہو


تیرے رخسار و لب و گیسو سے جب دل اٹھ گیا

زندگی میں پھر کوئی محبوب تر ہو یا نہ ہو


اس کی بستی میں ہو، سو دو پل ٹھہر کر دیکھ لو

پھر کبھی اس راہ سے شائد گزر ہو یا نہ ہو


رقص کرتے جائیے اپنے جنوں کے ساز پر

بزمِ یاراں میں کوئی آشفتہ سر ہو یا نہ ہو


ایک فنِّ خصیہ برداری ہی کافی ہے حضور!

آدمی میں اور کوئی بھی ہنر ہو یا نہ ہو


زندگی ہے مقتضائے اعتبارِ آدمی

زندگی کا کوئی پہلو معتبر ہو یا نہ ہو


مبتلا ہم سب طلسمِ آئینہ داری میں ہیں

خواہ اپنے پاس چشمِ خود نگر ہو یا نہ ہو

آپ کے تبصرے

3000