مائنڈسیٹ

وسیم المحمدی نفسیات

ردعمل دو طرح کے ہوتے ہیں۔ اصولی اور غیر اصولی۔ مائنڈسیٹ بھی دو طرح کے ہوتے ہیں، منفی اور مثبت۔ اثبات و نفی سے قطع نظر مائنڈسیٹ کی بنیادی خرابی یہی ہوتی ہے کہ اس کے نیچر میں فلیکسیبلٹی نہیں ہوتی۔ حالانکہ فلیکسیبل مائنڈسیٹ یا گروتھ مائنڈسیٹ بھی مائنڈسیٹ کی ایک قسم ہوتی ہے۔
مائنڈسیٹ دلائل پر مبنی ہو تو عقائد اور حالات و واقعات پر مبنی ہو تو خیالات کا مجموعہ ہوتا ہے۔ مسلمات‌ و مفروضات کا یہ فرق ہی اثبات و نفی کے حدود طے کرتا ہے۔
بعینہ اصولی ردعمل کی بنیاد مسلمات اور غیر اصولی ردعمل کی بنیاد مفروضات ہوتے ہیں۔ سارے غیر اصولی ردعمل Circumstantial ہوتے ہیں۔
واقعات کو اصول کی کسوٹی پر پرکھنے کے بجائے جو لوگ واقعات سے اصول بناتے ہیں اور پھر اسے قاعدہ کلیہ کی طرح مشتہر کرتے ہیں وہ محض غیر اصولی ردعمل تک نہیں رکتے، اپنے نقطۂ نظر کو اصول بناتے بناتے وہ ایک دن خود ہی اصول بن جاتے ہیں۔
یہ اصول قسم کے لوگ جہلا اور عوام نہیں علما اور خواص ہوتے ہیں۔ بیشتر ذہنی آلودگی اور فکری آوارگی کے یہی ذمہ دار ہوتے ہیں۔ یہ اکیلے خراب نہیں ہوتے جتنے سوشل ہوتے ہیں اتنے ہی ماس ہانیکارک رہتے ہیں۔ انھی کی ذہنیت کے مظاہر دیکھ کر مائنڈسیٹ جیسی تعبیر نمایاں ہوتی ہے۔
یہی مائنڈسیٹ لیبل کے طور پر عموماً استعمال ہوتا ہے۔ مائنڈسیٹ سنتے ہی فوری طور پر یہی معنی بھی ذہن میں آتا ہے۔ یہی مائنڈسیٹ زیر نظر مقالے کا موضوع ہے۔ کتاب و سنت اور اقوال سلف کی روشنی میں ڈاکٹر وسیم المحمدی صاحب نے نہایت تفصیل اور بڑی وضاحت کے ساتھ مائنڈسیٹ کی تشریح کی ہے۔
موجودہ زمانے میں اہل علم کے درمیان جو فساد برپا ہے اس کا کنکشن بھی اسی مائنڈسیٹ سے ہے۔ پڑھیں اور ریلیٹ کریں، کسی اور کو نہیں، خود کو۔ (ایڈیٹر)


امیہ بن ابی الصلت طائف کا رہنے والا تھا۔ اس کا تعلق ہوازن کی شاخ ثقیف سے تھا۔ اس کی ماں رقیہ عبد مناف کی پوتی تھی۔ گویا باپ بنو بکر سے اور ماں قریش سے تھی۔ یاد رہے ہوازن وہی قبیلہ ہے جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی ماں حلیمہ سعدیہ کا تعلق تھا۔ بنو بکر اور بنو سعد اپنی زبان دانی اور فصاحت میں مشہور تھے۔ دونوں کا تعلق ہوازن سے ہے۔

امیہ بن ابی الصلت محض بنو ثقیف ہی نہیں زمانہ جاہلیت میں پورے عرب کا مشہور شاعر تھا۔ زبان پختہ، اسلوب نہایت قوی اور اور انداز موثر تھا۔ صاف ستھری فصیح زبان میں شاعری کرتا تھا۔ اس کا ایک مکمل دیوان ہے جو اس کے زبان وبیان کی قدرت پر شاہد ہے۔ مگر اس کی اصل شہرت یہ نہیں ہے۔

امیہ بن ابی الصلت ان لوگوں میں سے تھا جنھیں حنفاء کہا جاتا ہے۔ جو زمانہ جاہلیت میں بھی شرک سے دور تھے۔ بتوں کی پوجا سے نفرت کرتے تھے۔ ایک اللہ کے قائل اور یوم آخرت پر یقین رکھتے تھے۔ جنت و جہنم کی باتیں کیا کرتے تھے۔ امیہ کی شاعری میں یہ چیزیں جگہ جگہ مل جائیں گی۔ اسی لیے امیہ کے بارے میں کہا جاتا ہے:’’أسلم شعره، وكفر قلبه‘‘ کہ اس کی شاعری نے تو اسلام قبول کرلیا تھا، مگر دل نے کفر ہی کو ترجیح دی۔

بس ایک بڑا فرق تھا۔ امیہ اپنی حنفیت میں ان حنفاء سے کہیں آگے تھا۔ اس کے حصے میں پیشوائی آئی تھی۔ بکثرت سفر کرتا۔ یہود و نصاری کے علماء سے ملاقاتیں کرتا۔ ان سے دینی گفتگو ہوتی۔ آسمانی کتابوں کو پڑھتا، ان میں موجود حقائق سے براہ راست استفادہ کرتا۔ ان چیزوں نے اس کی فکر پر گہرا اثر ڈالا۔ وہ حنیفیت کی طرف مائل ہوا، پھر اس پر پختگی کے ساتھ جم گیا۔

تاہم امیہ صرف توحید کا قائل ہی نہیں تھا، بلکہ اس کی طرف دعوت بھی دیتا تھا۔ لوگوں کو بتوں کی پوجا سے منع کرتا، اللہ تعالی سے ڈراتا اور یوم آخرت کی باتیں بکثرت کرتا، یہاں تک کہ اس میں مشہور ہوگیا۔

چونکہ امیہ کے تعلقات یہود و نصاریٰ سے تھے۔ اہل علم کی مجالست تھی۔ خود تورات و انجیل پڑھا کرتا تھا اس لیے اسے یہ معلوم تھا کہ آخری نبی کا ظہور بس ہونے ہی والا ہے، اور اس کا ظہور اسی جزیرہ عرب میں ہوگا۔ یہ باتیں بھی وہ لوگوں سے برابر کیا کرتا تھا۔

لیکن!!!!

امیہ یہ سوچتا تھا کہ جس ڈھب سے وہ زندگی گزار رہا ہے بھلا اس کے علاوہ نبوت کسی اور کو کیسے مل سکتی ہے؟ چنانچہ یہیں اسے ہوائے نفس نے جا لیا۔ دھیرے دھیرے اسے یہ یقین ہو چلا کہ نبوت کے شرف سے وہی با مشرف ہوگا۔ ہوائے نفس نے اس یقین کو اس کے یہاں اس قدر پختہ کردیا کہ تورات و زبور کو پڑھنے والا اور اہل علم کی صحبت میں وقت گزارنے والا یہ نہیں سمجھ سکا کہ رسالت تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اتنا بڑا شرف اور ایسی اہم‌ ترین ذمہ داری ہے کہ اس کے لیے اللہ کے بہت ہی خاص بندے مخصوص ہوتے ہیں، اور اللہ تعالی جسے چاہتا ہے اپنے فضل خاص و حکمت بالغہ سے یہ شرف وفضیلت عطا کرتا ہے:الله أعلم حيث يجعل رسالته۔

جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہورا ہوا اور اسے نبوت محمدیہ کی خبر لگی تو اس کے پاؤں تلے سےزمین نکل گئی۔ اس کے سارے خواب یکلخت چکنا چور ہوگئے۔

بعض روایتوں میں آتا ہے کہ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقاتیں بھی کیں۔ آپ کی حقانیت کا متعدد بار اعتراف بھی کیا اور آپ کے برحق ہونے کی گواہی بھی دی۔

تاہم اگر وہ روایت درست مان لی جائے جس میں آتا ہے کہ امیہ نے اپنے مرض الموت میں کہا: ’’قد دنا أجلي، وهذه المرضة منيتي، وأنا أعلم أنَّ الحنيفية حق، ولكن الشك يداخلني في محمد‘‘

تو اس میں موجود شک سے مقصود وہ معہود شک نہیں لگتا جو یقین کے بالکل منافی ہوتا ہے۔

وہ ایک ایسی نفسیاتی کیفیت اور ہوائے نفس کے اس ملغوبہ کا نام ہے جس کی بنیاد اس امر پر رکھی جاتی ہے کہ جو چیز میری رائے، میری مرضی، میری خواہش، میری مصلحت اور میرے یقین و اذعان کے خلاف ہو؛ وہ بھلا کیونکر درست ہو سکتی ہے؟

اس طرح وہ رائے جس قدر بھی صداقت پر مبنی ہو ایک ہوی پرست مخالف کے یہاں ہمیشہ کم از کم شک کے دائرے میں رہتی ہے۔ اور ہوائے نفس سے مغلوب یہ کمزور انسان کسی بات کی صداقت کا اعتراف کرنے سے محض اس لیے عاجز ہو جاتا ہے کہ وہ اس کی خواہش، اس کی مرضی اور اس کی مصلحت کے خلاف ہوتی ہے۔

امیہ کا وہ شک بھی در اصل ہوائے نفس کا وہ غلغلہ تھا جو اس کی رگ و پے میں سرایت کر چکا تھا۔ جو اس کے شعور و احساس پر اس قدر مسلط ہو چکا تھا کہ وہ یہ تصور نہیں کر پاتا تھا کہ اس کے ہوتے ہوئے کوئی اور بھی نبی ہو سکتا ہے؟ اور اس کی موجودگی میں نبوت کسی اور کو بھی مل سکتی ہے؟ یہ شدید احساس بسا اوقات اسے ایک ایسے موہوم شک کی طرف لے جاتا تھا جس میں اپنی ذات یا اپنے موقف کے لیے کوئی ٹمٹماتی ہوئی امید چھپی ہو، مگر اس کی حیثیت حسرت و یاس اور نامرادی کے استعارہ سے زیادہ کچھ نہیں تھی۔

جس طرح جب ہم کوئی ایسی خبر سنتے ہیں جو ہماری خواہش، ہماری مصلحت، ہمارے پختہ یقین اور ہماری تمام امیدوں کے بالکل برخلاف ہوتی ہے؛ تو پہلے مرحلہ میں ہم اس کا یقین نہیں کرتے۔ اس پر شک کی دبیز چادر چڑھاتے اور اسے جھٹلانے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ جب انکار کی کوئی گنجائش نہیں بچتی اور وہ خبر حقیقت بن کر ہمارے سامنے پوری طاقت سے کھڑی ہوجاتی ہے، تب بھی ہم اپنے دل کے نہاں خانے میں کہیں نہ کہیں محض تسلی ہی کی خاطر اس کی تکذیب کرتے اور امکانیات کے سارے زاویے سامنے رکھ کر اس کے اطراف شک کی سوئی گھماتے رہتے ہیں بھلے خارج کا یقین اس کا ساتھ بالکل نہ دے۔ نفس انسانی کے عجائب میں سے یہ بھی ایک بڑا عجوبہ ہے کہ ایسے حالات میں وہ شک و یقین دونوں کو ساتھ لےکر چلتا ہے۔ بسااوقات اس کی اندرونی خواہش شک کے ساتھ ہوتی ہے جبکہ عقل اور حقیقت یقین کے ساتھ۔ اس حالت میں اس کے نفس کے احوال ہوتے ہیں اور اس کا موقف عموماً انھی احوال کے اردگرد گھومتا رہتا ہے۔ اگرچہ حاسم مواقف اور سنجیدہ ظروف اسے اعتراف حق پر مجبور کرتے رہتے ہیں۔ اس کنڈیشن میں اگر مگر کی بوسیدہ چادر میں لپٹا یہی شک نفس انسانی کے لیے اس کی ٹوٹتی امید کا آخری سہارا، اس کی حسرت و یاس کا استعارہ اور اس کی نامرادی کا کنایہ بنا رہتا ہے۔ جبکہ دل میں حیرت و استعجاب اور مسلسل کشمکش کی ایک کیفیت بنی رہتی ہے۔

جس قدر ہمارا جھوٹا یقین پختہ اور ہمارا ٹوٹتا خواب قوی ہوگا، شک کا یہ کانٹا بھی ہمارے دل میں اسی قدر زور سے چبھتا اور کھٹکتا رہےگا۔ بھلے ہی اس شک کی ایک سلیم فطرت انسان کے یہاں کوئی حیثیت ہی نہ ہو، بلکہ اسے یہ ایک مضحکہ خیز چیز لگتی ہو۔ نفس انسانی میں موجود عجائب کی یہ ایک ایسی بڑی حقیقت ہے جس سے انکار نا ممکن لگتا ہے۔

امیہ کا یہ شک بھی -واللہ اعلم- کچھ ایسے ہی لگتا ہے۔ اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ “يداخلني” کا یہ لفظ “يخالجني” سے متقارض ہو، اور کہنے والا جان بوجھ کر بظاہر اس لفظ سے بچ تو رہا ہے مگر سیاق وظروف نہ صرف اس تقارض پر دلالت کر رہے ہیں بلکہ امیہ کے خلجات نفس اور داخلی کیفیات کی بھرپور انداز میں ترجمانی بھی کر رہے ہیں۔

ورنہ ایسے ذی علم و جہاں دیدہ پر بھلا آپ کے نبوت کی حقانیت کیسے مخفی رہ سکتی تھی؟ یہی وجہ ہے کہ متعدد بار اس سے آپ صلی اللہ علیہ سلم کی صداقت اور نبوت کے تئیں حقانیت کا اعتراف منقول ہے۔

جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا اعلان ہوگیا تو اب اس کے پاس دو راستے تھے: ایک راستہ ایمان و اتباع کا تھا جو اس کے علم کا متقاضی تھا کہ یہ بندہ ایمان لاکر سابقین اولین میں اپنا نام لکھوا لیتا اور دنیا وآخرت میں سرخرو ہوتا۔ دوسرا راستہ مکابرت و عناد اور حقد و حسد کا تھا جس کی طرف ہوائے نفس اسے بلا رہا تھا۔

چنانچہ اس نے دوسرا راستہ چنا، اور ہوائے نفس نے اس کے سارے علم کو آخر کار چت کردیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ یہ بندہ نبوت کے بارے میں اس قدر علم رکھنے اور زمانہ جاہلیت میں توحید کا داعی رہنے کے باوجود ایمان نہیں لا سکا، اور کفر کی حالت میں اس کی وفات ہوئی۔

امیہ کے سوانح پڑھیں تو کہیں کہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بسا اوقات اس کا میلان ایمان کی طرف ہوتا تھا، مگر ہوائے نفس کا تسلط اس کے نفس پر اس قدر شدید تھا کہ ایمان نہیں لا پاتا اور کسی نہ کسی بہانے اس سے صرف نظر کر جاتا۔

امام ابن قتیبہ رحمہ اللہ نے فرمایا:آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حسد کی بنا پر یہ بندہ ایمان نہیں لایا اور کفر کی موت مرا۔

حسد انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتا۔ جب یہ گندگی اپنی تمام آلائشوں کے ساتھ دل میں اترتی ہے تو حاسد کوکسی بھی حد تک لےکر چلی جاتی ہے۔ حاسد بھلے ہی خود حسد کی آگ میں جل جل کر خاک ہوجائے اور اپنا سب کچھ جلا ڈالے، مگر اس کی پوری کوشش رہتی ہے کہ محسود کو خاک کردے، اور جس نعمت کی بنا پر وہ اس آگ میں جل رہا ہے وہ محسود سے چھن جائے تاکہ اسے سکون ملے۔ کوئی دوسری چیز اسے سکون نہیں فراہم کر سکتی۔

حاسد کے پاس نہ کوئی اصول ہوتا ہے نہ ضابطہ، نہ کوئی اخلاقی قاعدہ نہ انسانی حوالہ۔ محسود کے تئیں وہ ہمیشہ متناقض اور ہمہ وقت نچلی سے نچلی سطح تک اترنے کے لیے تیار رہتا ہے، بس محسود کو زک پہنچ جائے اور اس سے وہ نعمت چلی جائے جو حاسد کو بے چین کیے رہتی ہے۔

اب آپ امیہ کی حالت پر غور کریں۔

امیہ غزوہ بدر کے بعد جب شام کے سفر سے لوٹا تو حجاز آیا۔ بدر سے گزرا تو قلیب بدر (میدان بدر کا وہ کنواں جس میں صنادید قریش کی لاشیں ڈال دی گئی تھیں) تک گیا۔ اسے بتایا گیا کہ اس قلیب میں قریش کے بڑے بڑے سردار دفن ہیں جو غزوہ بدر میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ میں مارے گئے تھے۔ نیز اسی میں ربیعہ کے دونوں بیٹے عتبہ اور شیبہ بھی ہیں۔ در اصل ربیعہ امیہ کا ماموں لگتا تھا۔ اس طرح یہ دونوں اس کے ماموں زاد بھائی بھی تھے۔ یہ سن کر امیہ نے ان کے سوگ میں اپنی اونٹنی کے کان کاٹ دیے۔ اور اپنا وہ مشہور قصیدہ کہا جس میں نہ صرف بدر کے مقتولین کا نوحہ اور صحابہ کرام کی ہجو تھی، بلکہ کھل کر اس نے قریش کو اس بات پر ابھارا کہ وہ محمد صلی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے مقتولین کا بدلہ لیں۔

غور کریں یہ اس شخص کی حالت تھی جو زمانہ جاہلیت میں لوگوں کو توحید کی طرف بلاتا اور یوم آخرت پر ایمان کی بات کرتا تھا۔ جنت و جہنم جس کی گفتگو کا محور اور ایک اللہ کی عبادت جس کے مجالس کا عنوان ہوا کرتا تھا۔ حسد نے اس کو اس مقام پر لا کھڑا کیا کہ جب موحد اعظم صلی اللہ علیہ وسلم توحید کی حقیقی دعوت لےکر آئے تو یہ ان کا دشمن ہوگیا اور انھی لوگوں کی صف میں جا کھڑا ہوا جو کفر و شرک میں لت پت اور یوم آخرت کے منکر تھے۔ یہ حسد کا شاخسانہ تھا، اس کے مکروہ نتائج تھے اور ایک حاسد کے بدترین انجام کی طرف واضح اشارہ تھا۔

بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان:(وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ الَّذِيَ آتَيْنَاهُ آيَاتِنَا فَانسَلَخَ مِنْهَا فَأَتْبَعَهُ الشَّيْطَانُ فَكَانَ مِنَ الْغَاوِينَ ۝ وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنَاهُ بِهَا وَلَكِنَّهُ أَخْلَدَ إِلَى الأَرْضِ وَاتَّبَعَ هَوَاهُ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ الْكَلْبِ إِن تَحْمِلْ عَلَيْهِ يَلْهَثْ أَوْ تَتْرُكْهُ يَلْهَث ذَّلِكَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُواْ بِآيَاتِنَا فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ )اسی کے بارے میں ہے۔

موجودہ آیات چاہے امیہ بن ابی الصلت کے بارے میں ہوں یا بنی اسرائیل کے کسی اور شخص کے بارے میں، یا ان کا سبب نزول کچھ اور ہو، مگر آپ غور کریں کہ امیہ پر یہ آیتیں کس قدر فٹ آتی ہیں۔ امیہ کو اللہ تعالیٰ نے علم دیا۔ شعور عطا کیا۔ زبان وبیان کی قدرت دی۔ اگر چاہتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاکر سرخرو ہوجاتا اور دنیا وآخرت میں بلند مرتبہ کا حامل ہوتا۔ مگر اس نے سفالت و پستی کا راستہ چنا، دنیا کو ترجیح دی، خواہش نفس کی پیروی کی۔ چنانچہ ہوائے نفس نے اس سے توفیق الٰہی کا استحقاق ہی چھین لیا، حقد و حسد اور کبر و عناد آڑے آگیا اور اس نے ایمان پر کفر کو ترجیح دے دی۔

عدم توفیق بسا اوقات اچھے بھلے انسان کو سفالت کے کس درجہ میں پہنچاتی ہے اس کا اندازہ اس روایت سے ہوتا ہے کہ جب امیہ سےکہا گیا تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ان کی حقانیت واضح ہوجانے کے باوجود ایمان کیوں نہیں لے آتے؟ تو اس نے جواب دیا کہ ایسی صورت میں بھلا بنوثقیف کی ان عورتوں کو میں کیا جواب دوں گا جن سے کبھی میں کہا کرتا تھا کہ عنقریب میں نبوت سے سرفراز ہونے والا ہوں۔

امیہ کو پختہ یقین تھا کہ نبوت جیسی عظیم نعمت کا حقدار تو وہ ہے۔ وہ کسی اور کو کیسے مل سکتی ہے؟ چنانچہ اس عظیم استحقاق کا فیصلہ وہ خود کرنے بیٹھ گیا۔ اور جب نبوت نہیں ملی تو اس نے سوچا اگر یہ شرف عظیم مجھے نہیں ملا، تو کسی اور کے لیے اس شرف کا اعتراف کیوں؟ بھلے ہی اس کی قیمت کچھ بھی چکانی پڑے اور دنیا وآخرت دونوں ہاتھ سے نکل جائے۔

یہ زمانہ جاہلیت میں حنیفیت کی زندگی گزارنے والے، جس زمانے میں شرک کا دور دورہ تھا اس وقت توحید کی طرف بلانے والے، جنت وجہنم کی باتیں کرنے والے اور کفریہ ماحول میں یوم آخرت پر ایمان رکھنے والے اس امیہ بن ابی الصلت کا مائنڈ سیٹ تھا جس کے حصہ میں حنفاء کی پیشوائی آئی تھی۔

مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے اپنے ماموں ابو جہل سے پوچھا:کیا نبوت سے پہلے آپ لوگ محمد صلى اللہ علیہ وسلم کو جھوٹا سمجھتے تھے؟ اس نےجواب دیا:میرے بھانجے!اللہ کی قسم ہم تو محمد صلى اللہ علیہ وسلم کو نبوت سے بہت پہلے ہی اس وقت امین کہتے تھے جب وہ بالکل جوان تھے۔ ہم نے کبھی انھیں جھوٹ بولتے سنا ہی نہیں۔ اس پر مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: تب آپ لوگ محمد صلى اللہ علیہ وسلم کی اتباع کیوں نہیں کرتے؟ ابو جہل نے کہا:میرے بھتیجے!در اصل یہ ہمارے اور بنو ہاشم کے درمیان عزت وشرف کی لڑائی ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ انھوں نے کھانا کھلایا تو ہم نے بھی کھانا کھلایا ۔ انھوں نے پانی پلایا تو ہم نے بھی پانی پلایا۔ انھوں نے پناہ دی تو ہم نے بھی پناہ دی۔ یہاں تک کہ جب ہم عزت وشرف میں بالکل مساوی اور یکساں ہوگئے تو بنو ہاشم نے کہا:نبی تو ہم میں سے مبعوث کیا گیا ہے۔ اب بھلا اس شرف کو ہم کیسے پا سکتے ہیں؟

چنانچہ ابو جہل کو بہتر یہ لگا کہ نہ صرف نبوت ہی کا انکار کردے بلکہ نور نبوت کو بجھانے کی نامراد کوشش کرتے کرتے اس امت کا فرعون بن جائے۔

اخنس بن شریق رضی اللہ عنہ نے عین جنگ بدر میں ابو جہل سے پوچھا:مجھے محمد صلى اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بتلاؤ؟ وہ سچے ہیں یا جھوٹے؟ یہاں ہمارى بات کوئى نہیں سن رہا ہے اس لیے بالکل سچ سچ بتانا۔ ابو جہل نے جواب دیا:تمھارا برا ہو۔اللہ کی قسم محمد صلى اللہ علیہ وسلم بالکل سچے ہیں۔ وہ کبھی جھوٹ نہیں بولتے۔ لیکن قصی بن کلاب کی اولاد جب سارے کار خیر کے ساتھ ساتھ نبوت بھی لےکر چلی جائےگی تو باقی قریش کے لیے کیا بچے گا؟

چنانچہ ابو جہل نے بہتر یہ سمجھا کہ نبوت ہی کا انکار کردے۔ بھلے ہی دنیا وآخرت میں انجام کچھ بھی ہو۔

یہ ابو جہل کا مائنڈ سیٹ تھا۔

حی بن اخطب یہودی قبیلہ بنو قریظہ کے قائدین میں سے تھا۔ اللہ تعالى کی طرف سے علم کے ساتھ ساتھ شجاعت کا بھی وافر حصہ اسے ملا تھا۔ گویا قبیلے کا بڑا ذی علم، بہادر اور اگوا تھا۔

جب آپ صلى اللہ علیہ وسلم ہجرت کرکے مدینہ آئے تو یہ اپنے بھائی کے ساتھ آپ صلى اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کرنے گیا۔ ان دونوں نے آپ کے جسم پر موجود مہر نبوت دیکھی۔ بہت سارے سوالات بھی کیے تاکہ آپ کے نبوت کی حقیقت اور سچائی بالکل واضح ہوجائے۔ جب یہ ملاقات ہوگئی اور لوٹ کر یہ لوگ گھر آئے تو اس کے بھائی نے اس سے پوچھا:کیا یہ وہی نبی ہے جس کا ذکر تورات میں آیا ہے؟ حی بن اخطب نے کہا:بالکل یہ وہی ہے۔ بھائى نے کہا:تو کیا ارادہ ہے؟ حی بنت اخطب نے کہا:جب تک زندہ رہا محمد صلى اللہ علیہ وسلم کی عداوت کا ارادہ ہے۔

چنانچہ نبوت کے اس قدر واضح ہوجانے کے باوجود بجائے اسے قبول کرنے کے ایک یہودی عالم نے نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کی عداوت کا فیصلہ کیا۔ بھلے ہی اس کی قیمت کچھ بھی چکانی پڑے۔

غزوہ خندق کا وقت تھا۔ مدینہ کے حالات انتہائی نازک ہو چکے تھے۔ مومنوں کی حالت ایسی تھی کہ ان کے دل حلق تک پہنچ گئے تھے۔ خوف وہراس کا عالم تھا۔ لوگ سراسیمگی کے شکار تھے۔ مسلمان بالکل ہل کر رہ گئے تھے۔ بد گمانی پھیل چکی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ اس بار کفار ومشرکین مدینہ کا خاتمہ ہی کردیں گے۔ ایسے عالم میں عین حالت جنگ میں بنو قریظہ نے غداری بھی کردی۔ مگر اللہ کی مدد آئی۔ کفار ومشرکین ہزیمت اٹھا کر لوٹ گئے۔ اور پھر بنوقریظہ کو اس غداری کی سزا ملی۔ سزا بھی اس شخص نے مقرر کی جس کو انھوں نے خود چنا۔

یہی حی بن اخطب جس نے صدق نبوت جاننے بلکہ اس کا اعتراف کرنے کے باوجود آپ صلى اللہ علیہ وسلم سے عمر بھر دشمنی کو ترجیح دیا تھا۔ اور حسب وعدہ اس دشمنی کو نبھایا بھی۔ چنانچہ اسی غزوہ خندق کا ماحول بنانے اور خیانت در خیانت کرنے میں بھی بھرپور کردار ادا کیا تھا تاکہ مسلمانوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے۔ جب اس کو قتل کرنے کے لیے لایا گیا تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے اس ڈھیٹ،معاند اور مکابر یہودی سے کہا:حی بن اخطب!کیا اللہ تعالى نے تجھے ذلیل و رسوا نہیں کردیا؟ اس پر اس نے نہایت بے شرمی سے آپ صلى اللہ علیہ وسلم کو جواب دیا:ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہی ہے۔ میری بھی ایک عمر ہے اس سے تجاوز تو کر نہیں سکتا۔ کہنے کی بات یہ ہے کہ مجھے تمھاری عدوات پر کوئی پچھتاوا اور ملال نہیں ہے۔

غور کریں کہ بغض وعناد، نفرت ودشمنی، حقد وحسد، ضلالت وگمراہی کا کون سا حصہ اس بد بخت کے نصیبے میں آیا تھا کہ حق کے اس قدر واضح ہونے کے باوجود عمر بھر اس سے دشمنی اور نفرت کی۔ پھر اس قدر ذلت ورسوائی کے ساتھ مرنے پر بھی کوئی پچھتاوا نہیں ہوا۔ جبکہ یہ ایک عالم شخص تھا۔ اسے اچھی طرح پتہ تھا کہ آگے آخرت میں بھی کیا انجام ہونے والا ہے؟

یہ حی بن اخطب جیسے ایک یہودی کا مائنڈ سیٹ تھا۔

ایک انسان کی کمزوری کے جو مختلف مظاہر ہیں ان میں سے ایک مظہر یہ بھی ہے کہ وہ طبعی طور سے اپنے نفس کا گرویدہ اور اپنی خواہشات کا اسیر ہوتا ہے۔ اسے صرف اپنی اچھائیاں نظر آتی ہیں۔ جبکہ وہی شخص اپنے مخالف سے بغض ونفرت کا سودا کرتا ہے اور اسے اس میں صرف کمیاں اور کوتاہیاں نظر آتی ہیں۔ یہ در اصل جہالت، ہوى پرستی اور ظلم وزیادتی کا نتیجہ ہوتا ہے۔

جہالت اور ہوى پرستى باطل کا سرچشمہ ہے۔ایک جہالت دوسری جہالت کو جنم دیتی ہے۔ علم سے کورا شخص عموما حلم سے بھی عارى ہوتا ہے۔ اور جہالت کی یہ دونوں قسمیں کسی کے اندر جمع ہوجائیں تو پھر جہالت مجرد جہالت نہیں رہتی، زور زبردستی،ڈھٹائی بے شرمی اور شر انگیزی کا عکس قبیح بن جاتی ہے۔

اللہ تعالى نے قرآن کریم میں اہل باطل کا ذکر کرتے ہوئے متعدد مقامات پر جہالت، ظلم اور حق سے اعراض جو عموما ہوى پرستی کا نتیجہ ہوتے ہیں؛ ایک ساتھ ذکر کرکے ان کے آپسی تعلقات کو اجاگر کیا ہے۔ اللہ کے رسول صلى اللہ علیہ وسلم نے بھی اس طرف واضح اشارہ کیا ہے۔

ابن القیم رحمہ اللہ نے جب حق سے اعراض و روگردانی کے متعدد اسباب پر روشنی ڈالی تو جہالت کو پہلے مقام پر رکھا، اور کھل کر یہ کہا کہ اکثر لوگ اس بنا پر حق سے منہ موڑ لیتے ہیں۔ ابن القیم رحمہ نے اس کی جو وجہ بتائی ہے وہ بہت ہی اہم اور آبِ زر سے لکھنے کے لائق ہے۔

آپ نے فرمایا:(مَنْ جَهِل شيئًا عادَاه وعادَى أهلَه)کہ انسان کی عادت یہ ہوتی ہے وہ جس چیز کا علم نہیں رکھتا اس کا دشمن بن جاتا ہےاور اسی پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ جو صاحب علم ہے اس سے بھی عداوت پر اتر آتا ہے۔ پس علم اور صاحب علم دونوں اس کے دشمن ہوجاتے ہیں۔

ایسے انسان کا مائنڈ سیٹ کیسے تیار ہوتا ہے؟ اس کی باطل پرستی میں کیسے پختگی آتی ہے؟ حق سے روگردانی کرتے کرتے وہ ظلم وجہل اور ہوى پرستی کا کیسے اسیر بن جاتا ہے؟ دن بدن حق سے اس کی دوری کے اسباب کیسے قوی سے قوی تر ہوتے جاتے ہیں؟ اور آخر میں کس طرح وہ سرکشى کا استعارہ اور ایک علمی معاشرہ میں غنڈہ گردی کا سیمبل بن جاتا ہے ؛ ابن القیم رحمہ اللہ نے اس کی بھی بڑی اچھی توجیہ وتعلیل کی ہے۔

چنانچہ آپ فرماتے ہیں:جہالت کے ساتھ ساتھ اگر بندہ حق پرستوں سے بغض وعداوت اور حقد وحسد کرنے لگے تو پھر حق سے اس کا اعراض قوی ہوجاتا ہے۔ اب اگر اس کے ساتھ ساتھ وہ بندہ ایسا ہے جس کی تربیت اور عادات واطوار کی تکوین اس کے آباء واجداد کے طور طریقوں پر ہوئی ہے، اور وہ ان کا رسیا ہے؛ تو حق سے اس کی روگردانی مزید قوی ہوجاتی ہے۔ پھر اگر اس کے دل میں یہ بیٹھ جائے کہ جس حق کی طرف اسے دعوت دی جا رہی ہے اسے قبول کرنے صورت میں وہ اپنی موجودہ عزت وشہرت ، مقام ومرتبہ ، نفسانی خواہشات اور اغراض ومطامع سے ہاتھ دھو بیٹھے گا ؛ تو حق سے اس کا فاصلہ مزید بڑھ جاتا ہے۔ اب اگر اس کے ساتھ ساتھ اسے یہ لگنے لگے کہ حق کو قبول کرنے کی صورت میں اس کے دوست احباب، اس کا کنبہ وخاندان ، اس کی قوم، اس کا قبیلہ؛ اس کی جان مال اور عزت وجاہ کے دشمن بن جائیں گے؛ اور قبول حق کی صورت میں ان پر خطرات منڈلانے لگیں گے؛ تو ایسی صورت میں یہ دوری اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔

غور کریں!جہالت ایک انسان کو کہاں کہاں کا سفر کراتی ہے؟ اور ایک جاہل انسان جو عموما ہوائے نفس اور ظلم وزیادتی کا اسیر ہوتا ہے؛اس کا مائنڈ سیٹ کیسے تیار ہوتا ہے؟ اس تیارى میں کون کون سے عوامل کار فرما ہوتے ہیں؟ اور مختلف مراحل سے ہوتا ہوا کس طرح وہ حق سے دور ہوتا چلا جاتا ہے؟ اب اگر صحیح علم سے وہ اس کا علاج نہیں کرتا ہے تو جہالت کی یہ تاریکی اس کی قرین ، ہوی پرستی اس کا شیوہ اور ظلم وزیادتی اس کی ہابی (Hobby) بن جاتی ہے۔

ہوائے نفس کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ شریعت مطہرہ کے ساتھ ساتھ نہیں چل سکتی، اور جب شریعت کے ساتھ نہیں چل پائےگی تو حق کے ساتھ بھی نہیں چل پائےگی، کیونکہ حق شریعت کے ساتھ ہے۔ پھر اس کے بعد گمراہی ہے (وماذا بعد الحق إلا الضلال)۔ یہی وجہ ہے کہ ہوائے نفس کا اسیر باطل پرست ہوتا ہے۔ اور حق کی حلاوت اس کے حلق سے نہیں اترتی۔

تاہم جہالت اور اس کے مظاہر جس طرح واضح اور عیاں بیاں ہوتے ہیں، ہوى پرستی اور اس کے مظاہر ویسے نہیں ہوتے، بلکہ اکثر اوقات بہت ہی مخفی اور پیچیدہ ہوتے ہیں۔

امام شاطبی رحمہ اللہ نے اپنی مایہ ناز کتاب الاعتصام میں اس اہم ترین امر کی بخوبی وضاحت کی ہے۔چنانچہ خودہوى پرست انسان بسا اوقات یہ تک نہیں جان پاتا کہ وہ ہوى پرستی کا شکار ہے، اور جو کچھ کہہ اور کر رہا ہے وہ در اصل اس کی ہوى پرستی کا نتیجہ ہے۔ معاملہ یہیں پر ختم نہیں ہوتا، بلکہ اس کی پیچیدگی اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ کبھی کبھی تو دوسرے لوگ بھی نہیں جان پاتے کہ ہوى پرستی کا شکار یہ شخص جو کر رہا وہ ہوائے نفس کا نتیجہ ہے۔ انھیں یہ غلط فہمی ہوتی ہے یہ شخص جو کچھ کر رہا ہے وہ عدل وانصاف اور حق پرستی کا نتیجہ ہے، جبکہ حقیقت میں وہ ہوى پرستی کا نتیجہ ہوتا ہے۔

ہوائے نفس کی اسیری میں اس قدر غموض ہوتا ہے کہ بسا اوقات ایک ہی کام ایک شخص اپنے نفس کی تسکین کے لیے کرتا ہے، جبکہ وہی کام دوسرا شخص حق کی نصرت اور عدل وانصاف کے تقاضے پورا کرنے کے لیے کرتا ہے۔ ایسی جگہوں پر یہ تمییز کرنا کس قدر مشکل ہوگا اہل علم اچھی طرح اندازہ لگا سکتے ہیں۔ پھر یا تو صاحب معاملہ خود اپنے نفس کو ہر طرح کے تعصب سےبالکل الگ کرکے جان پائےگا، یا پھر ایسے پختہ دلائل اور واضح قرائن ہوں گے کہ لوگ اسے پہچان لیں گے۔

تاہم اہل علم نے ہوائے نفس کے شکار شخص کی کچھ ایسی علامتیں ذکر کی ہیں جن سے اسے پہچاننے میں آسانی ہوتی ہے، جیسے:ہوى پرست کا متناقض ہونا۔ اپنے نقطہائے نظر میں تضاد کا شکار ہوجانا۔ مخالف پر رد کرتے وقت طنز و تشنیع کرنا۔تحقیر وتذلیل اور استہزا کا راستہ اپناتے ہوئے شرعی حدود وآداب سے باہر نکل جانا۔ اپنی محبت ودشمنی کا معیار اپنی ذاتی موافقت وشخصی مخالفت کو بنانا۔ مخالفین کی غلطیوں اور ان کی سبقت لسانی کو محض تنقید اور استہزا وتحقیر کے لیے چن چن کر جمع کرنا۔ ان کا پورے جوش وخروش سے ذکر کرنا۔ ان پر خوش ہونا۔ اسی بہانے اپنى شہرت کا سامان کرنا۔قابلیت کا سکہ جمانے کی ناروا کوشش کرنا۔ کسی چیز کی برائی کرنا، پھر اس سے بڑی برائی میں پوری ڈھٹائی سے بنا کسی شرم وحیا سے غوطے لگانا۔مدح وذم میں مبالغہ کرنا۔ جب کسی کی مدح پر آنا تو اسے آسمان پر چڑھا دینا اور پھر جب برائی کرنا تو اسےہر خوبی سے عاری کردینا۔

ان میں سب سے اہم علامت صاحب ہوى کا متناقض ہونا ہے۔ چنانچہ آپ دیکھیں گے کہ ہوى پرست ہمیشہ اپنی گفتگو اور نقطہائے نظر میں تضاد کا شکار رہےگا۔ آج کسی چیز کی برائی کرے گا، کل اسے خود کرےگا۔ آج کسی عمل کو کمتر گردانے گا، کل پھر اسی کی تعریف میں قصیدہ لکھے گا، اور موقع ملا تو خود بھی اسے کرےگا۔ کسی رائے کو محض اس لیے کمزور اور نا قابل اعتنا گردانے گا کہ اس کا کہنے والا اس کا پسندیدہ شخص نہیں ہے۔ مگر وہی بات اس کا پسندیدہ شخص کہہ دے تو اس کی تعریف کرنے میں بالکل نہیں ہچکچائے گا۔ حالت یہ ہوگی کہ اسی شخص کی آج برائی تو کل مدح سرائی کرے گا۔ چونکہ اس کے نقطہائے نظر کا مدار ہوائے نفس ہوتا ہے اس لیے وہ ہمیشہ تناقض کا شکار رہتا ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے منہاج السنۃ النبویۃ میں ایک ہوى پرست کے تناقض کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ہوائے نفس کا پجاری اپنے عمل میں تناقض کا اس قدر شکار ہو جاتا ہےکہ بعض چیزوں کو کبیرہ سمجھ کر ان سے اجتناب کرتا ہے،مگر ان سے بڑی چیزوں کو بڑے آرام سے انجام دیتا ہے۔ وجہ صرف جہالت اور ہوائے نفس کا غلبہ ہوتا ہے۔

ابن تیمیہ رحمہ اللہ ہوى پرستی کے شکار شخص کے مائنڈ سیٹ کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ایک ہوائے نفس کے شکار شخص کی حالت یہ ہوجاتی ہے کہ وہ اپنے مخالف کی حق بات بھی نہیں تسلیم کرتا۔ بلکہ بسا اوقات اس کے اچھےاعمال کی بھی باطل تاویل کرتا ہےاور دور کی کوڑی لاکر اس کے ظاہر وباہر نیک کاموں اور عمدہ کاوشوں کو غلط ٹھہرا دیتا ہے۔ اسی پر بس نہیں کرتا۔ نیتوں پر بھی حملہ کرتا اور ارادوں پر بھی قطعی حکم لگاتا ہے۔

بسا اوقات ہوى پرستوں کی ایک انجمن ہوتی ہے۔ادھر ایک ہوى پرست نے ہوى پرستی دکھائی ادھر آٹھ دس ہوى پرستوں نے ڈھول بجانا شروع کردیا۔ اس انجمن کے اراکین کی یہ خصوصیت ہوتی ہے کہ بھلے ہی صدر انجمن کی بات صحیح سے سمجھ میں نہ آئے، اس کی ہوى پرستی پلے نہ پڑے، مگر تائید ضرور کریں گے۔ اگرچہ اس کی کوئی دلیل ان کے پاس نہ ہو،اس کی حقیقت و حقانیت کی کوئی معرفت نہ ہو۔ نہ ہی صدر انجمن نے کوئی معقول علت ذکر کی ہو۔ بس بات ان کے ہوائے نفس سے میل کھا جائے۔ ان کی فرہادی محبت بلاقید بلا شرط ہوتی ہے۔ اور یہی حال ان کی مخالفت کا ہوتا ہے۔ وہاں بھی ہر مخالفت اور دشمنی محض ہوائے نفس کے تابع ہوتی ہے اور پوری ایمانى دارى سے اس کا حق ادا کرتے ہوئے تمام حدود پار کر جاتے ہیں۔

ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے مجموع فتاوى میں اس مائنڈ سیٹ کی طرف بھی بہت دقت سے اشارہ کیا ہے:(ولهذا تجد قومًا كثيرين يحبون قومًا ويبغضون قومًا لأجل أهواء لا يعرفون معناها ولا دليلها، بل يوالون على إطلاقها، أو يعادون من غير أن تكون منقولة نقلاً صحيحًا عن النبي صلى الله عليه وسلم وسلف الأمة، ومن غير أن يكونوا هم يعقلون معناها، ولا يعرفون لازمها ومقتضاها)

اسی لیے بعض معاصر اہل علم نے تو کھل کر اس کی صراحت کردی ہےکہ ہوى پرست باطل میں ایک دوسرے کی کھل کر تائید کرتے ہیں، اور ایسے شخص کی برائی اور مذمت کرتے ہیں جس کی شریعت کی رو سے برائی نہیں کی جا سکتی۔ یہ سب کچھ وہ محض ہوى پرستی میں کرتے ہیں۔

ایک بار یہ مائنڈ سیٹ بن جائے تو پھر ایسے افراد کے یہاں کوئی دلیل نہیں کام کرتی، آپ ہزار دلیل دیں، مانیں گے وہی جو ان کے من موافق ہوگا۔ وجہ یہ ہے کہ انھیں حق کی تلاش نہیں ہوتی۔ انھیں اپنے خواہش نفس کی برتری مقصود ہوتی ہے۔ اسی لیے علامہ البانی رحمہ اللہ کہا کرتے تھے کہ حق پرست کے لیے ایک دلیل کافی ہوتى ہے۔جبکہ ہوی پرست کے لیے ہزار دلیلیں بھی نا کافی ہیں۔ لا علم کو آپ علم سے آراستہ کر سکتے ہیں مگر ہوى پرست پر قابو پانا بہت ہى مشکل اور نا ممکن سا ہے۔

اسی لیے اللہ تعالى نےاسراف وزیادتی کے شکار ایسے شخص کی اتباع سے خصوصی طور پر خبردار کرتے ہوئے فرمایا ہے:وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَنْ ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُطًا۔

ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اسی چیز کو بہت ہی سمپل انداز میں یوں کہہ دیا ہے:(وصاحب الهوى يُعميه الهوى ويصمه، فلا يستحضر ما لله ورسوله في ذلك، ولا يطلبه، ولا يرضى لرضا الله ورسوله، ولا يغضب لغضب الله ورسوله، بل يرضى إذا حصل ما يرضاه بهواه، ويغضب إذا حصل ما يغضب له بهواه)کہ ہوى پرست انسان کو خواہش نفس اندھا اور بہرہ بنا دیتی ہے، پھر کسی مسئلہ میں وہ اللہ اور اس کے رسول کی بات نہیں تلاشتا، نہ ہی ان کی رضا اور غضب کی خاطر وہ خوش اور غصہ ہوتا ہے۔ وہ بس اپنے من موافق چیز وں پر خوش ہوتا اور طبلہ بجاتاہے، اور اپنى ذاتی خواہش کے برخلاف چیز وں پر ناراض ہوتا اور ناک بھوں چڑھاتا ہے۔ چنانچہ اس کے یہاں کل مسئلہ ہوائے نفس کا ہوتا ہے۔

قرآن کریم نے اس مائنڈ سیٹ کی اسی سنگینی کو اجاگر کرنے کے لیے شریعت اور ہوائے نفس کو ایک دوسرے کے مد مقابل لا کھڑا کیا ہے۔ اور کھل کر اس چیز کی وضاحت کر دی ہے کہ وحی مبارک اور نفسانی خواہشات دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں جو کبھی اکٹھا نہیں ہو سکتیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شریعت مطہرہ کی پاپندی کا مقصد ہی انسان کو نفسانی خواہشات سے روکنا ہے، تاکہ وہ حق کی پیروی کرے۔ ایسی صورت میں بھلا یہ دونوں کیسے جمع ہو سکتے ہیں؟

قرآن کریم کے بموجب ہوى پرستی ایسی خطرناک بیمارى ہے کہ گزشتہ امتیں اس کا شکار ہوکر راہ حق سے بھٹک گئیں۔ ضلالت وگمراہی ان کی ہمنوا بن گئی، اور رب کی پھٹکار ان کے حصہ میں آئی، چنانچہ فرمایا:(أَفَكُلَّمَا جَاءكُمْ رَسُولٌ بِمَا لاَ تَهْوَى أَنفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْ فَفَرِيقاً كَذَّبْتُمْ وَفَرِيقاً تَقْتُلُون) [البقرة: 87]، نيز فرمايا:{إِن يَتَّبِعُونَ إِلاَّ الظَّنَّ وَمَا تَهْوَى الأَنفُسُ وَلَقَدْ جَاءهُم مِّن رَّبِّهِمُ الْهُدَى}[النجم:23]

ہوائے نفس کا علاج آسان نہیں ہوتا، اس کی قید سے نکلنے کے لیے جوجھنا پڑتا ہے۔ شریعت کا صحیح علم اور اس پر عمل اس سے پیچھا چھڑانے میں مدد کرتى ہے۔ اب اگر کسی کے پاس علم کے نام پر محض دوچار دینی کتابوں سے شناسائی، چند ملحدین کی چند کتابوں کا مطالعہ،فن ادب سے آشنائی ،الفاظ وتراکیب کی کشیدہ کاری اور اسلوب کی جادوگری ہو، مگر علم کی گہرائی نہ ہو۔ فقہ وفہم میں اصالت وگیرائى نہ ہو۔ مزاج میں سنجیدگی بات میں توازن اور طبیعت میں انصاف نہ ہو تو وہ ہوائے نفس کی اسیری سے کیسے نکل سکتا ہے؟اس پر مستزاد اگر ایسےشخص کا شوقِ سخن اور عشق خامہ فرسائی آسمان سے باتیں کرتا ہو تو اس کی یہ عادت نہ صرف اسے جادہ حق سے دور کرنے میں مدد کرتى ہے ۔ بلکہ تماش بینوں کی تالیوں کی گڑگڑاہٹ اس کے اس مائنڈ سیٹ کو مزید پختہ بناتی ہے۔

فرض کریں آپ منبر و محراب کے چمپئن ہوں۔ آپ کی زبان میں شیرینی اور طرز گفتگو میں اثر ہو۔ آپ کی ساحرانہ گفتگو سے سننے والا متاثر ہونے بغیر نہ رہ پاتا ہو۔ سامعین کی ایک جماعت آپ کو فالو کرتی اور آپ کی باتوں کو سنتی اور مانتی ہو۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو علم بھی دیا ہو۔ مگر یہ علم اس قدر نہ ہو کہ آپ ہر موضوع پر گفتگو کر سکتے ہوں۔ ہر میدان میں حکم کا کردار ادا کر سکتے ہوں۔ ہر فیلڈ میں ایمپائری کے فرائض انجام دے سکتے ہوں۔ یا ہر کھیل کے کھلاڑی بن سکتے ہوں۔ پھر بھی آپ کی خواہش یہی رہتی ہے کہ ہر موضوع پر بولیں۔ ہر مناقشہ میں حصہ لیں۔ ہر مسئلہ میں اپنا وجود درج کرائیں؛ تو یہاں آپ کو دیکھنا ہوگا کہ آپ کا یہ عمل آپ کو حق کا نصیر بنا رہا ہے، یا کوئی اور چیز ہے جو ہوائے نفس کا اسیر بنا رہی ہے۔ آپ کی اس خواہش کے پیچھے اصل محرک کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی یا کچھ اور؟ شہرت، عزت، دکھاوا، حمیت، تعصب، کوئی اور دنیاوی فائدہ، یا کچھ اور۔۔۔؟ جس کا تعلق پہلے نمبر پر اللہ تعالیٰ کی رضا اور حق کی نصرت سے نہیں ہے۔ یہی محرک در اصل آپ کے ان سارے نشاطات کے نتائج اور فوائد طے کرےگا۔

فرض کریں آپ قلم و قرطاس کے بے تاج بادشاہ ہیں۔ آپ لکھتے ہیں تو الفاظ جادو بن جاتے ہیں۔ آپ کی کوئی تحریر نشر ہوتی ہے تو آپ کے قارئین جب تک اسے پڑھ نہ لیں چین نہیں پاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو خوب شہرت دے رکھی ہے۔ سوشل میڈیا پر آپ کے فالوورز کی ایک بڑی تعداد ہے جو آپ کی باتوں کو سر آنکھوں پر رکھتی ہے۔ آپ کی گفتگو کو اپنی چشم کا سرمہ اور آنکھوں کا کاجل بناتی ہے۔ ادھر آپ نے کچھ فرمایا ادھر ایک بڑی تعداد اس کی تائید کرتی اور اس کی تشہیر میں لگ جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو علم بھی خوب دے رکھا ہے۔ بڑے بڑے مسائل میں آپ بآسانی گفتگو کر سکتے ہیں۔ مناقشہ، مناظرہ اور مسائل کا تصفیہ کر سکتے ہیں۔ تاہم نہ صرف ہر مسئلہ میں آپ بولنے کی شدید خواہش رکھتے ہیں بلکہ آپ کی خواہش رہتی ہے کہ آپ ہی ہر مناقشہ کا عنوان اور ہر مناظرہ کا ٹائٹل ہوں۔ سرخی نہ ہوں تو ذیلی عنوان ہی سہی مگر سر فہرست ہوں۔ آپ مختلف فیہ مسائل میں اس طرح شرکت کرتے ہوں جیسے وہ زہد و رقائق کے عام موضوعات ہوں۔ نہ آپ سیاق دیکھنے کے عادی ہوں نہ گفتگو کا محل، نہ ہی یہ کہ آگے اس کے نتائج کیا نکلیں گے؛ بس خود کو آگے رکھنے کی خواہش ہو۔ اگر لوگ مسائل میں اس طرح اختلاف کر رہے ہوں کہ وہ مجادلہ اور مناقشہ سے ہوتے ہوئے فساد بن چکا ہو؛ پھر بھی آپ وہاں اپنا وجود درج کرانا چاہتے ہوں؛ تو آپ ایک بار ٹھنڈے دل سے ضرور غور کریں کہ آپ کا نقطہ انطلاق کیا ہے؟ اخلاص؟ حق کی نصرت؟ حمیت؟ تعصب؟ شہرت کی بھوک؟ یا کچھ اور ۔۔۔؟

ضرور سوچیں کہ آپ کا یہ عمل آپ کو اللہ تعالیٰ سے قریب کر رہا ہے یا آپ کے لیے ہوائے نفس کی اسیری کی راہ ہموار کر رہا ہے؟

آپ کا یہ نقطہ انطلاق ہی سب کچھ طے کرےگا۔ اور آنے والے تمام نتائج اسی چھلنی سے چھن کر نکلیں گے۔

ایک عالم کا علم اس وقت تک اپنی بلندی کو نہیں چھو سکتا جب تک اسے اس بات کا علم نہیں ہوجاتا کہ اسے کہاں بولنا اور کہاں خاموش رہنا ہے؟

ایک ربانی عالم جس قدر اس بات سے سروکار رکھتا ہے کہ اسے کہاں اور کتنا بولنا ہے، اسی قدر عملا اس بات سے بھی اس کی گہری شناسائی ہوتی ہے کہ کب اسے اپنے ہونٹ سی لینے ہیں۔

اپنے علم و عمل کے تئیں ایک مخلص داعی جس قدر بولنے پر یقین رکھتا ہے اسی قدر خاموشی اس کے طرز زندگی کا اٹوٹ حصہ ہوتی ہے۔

اپنے مشن کے لیے ایک سچا شخص جب تک اس کا ادراک نہ کرلے کہ اسے اپنی زبان کو کب تک تالا لگا کر رکھنا ہے اور کب کتنے وقت کے لیے اسے آزاد کرنا ہے؛ وہ اپنے مشن میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔

جس قدر یہ جاننا ضروری ہے کہ کب بولنا ہے، اسی قدر یا اس سے بھی کہیں زیادہ یہ جاننا ضروری ہے کہ سکوت کے مقامات کیا کیا ہیں؟

تاہم مقاماتِ سکوت کا ادراک یہ علم کے آخری مراحل کا حصہ ہے۔ جب ایک عالم علم کی گہرائی، مشاہدات کی گیرائی، نیز عمل کے تجربات کی بھٹی سے کندن بن کر نکلتا ہے تب اسے اس بات کا ادراک ہونا شروع ہوتا ہے کہ کہاں مجھے بولنا ہے؟ کہاں کتنا بولنا ہے؟ اور کہاں بالکل خاموشی سے صم بکم عمی بن کر گزر جانا ہے۔

ولقد أمرّ على اللئيم يسبّني

فمضيتُ ثَمّتَ قلتُ: لا يعنيني

یہی علم کا وہ آخری مقام ہوتا ہے، جسے ہم علم کا معراج بھی کہہ سکتے ہیں۔ مگر اس معراج کا شرف پانے کے لیے عہد تجرد کی پاسداری کرنی پڑتی ہے۔ ہوائے نفس سے بالکل پاک ہونا پڑتا ہے۔ اس خطرناک مرض سے کلی شفا حاصل کرنی پڑتی ہے۔ اور اس شفایابی کے لیے خصوصی توفیق الٰہی -جو بنا اخلاص کے کبھی حاصل نہیں ہو سکتی- کے ساتھ ساتھ نفس کے ساتھ شدید مجاہدہ کی ضرورت پڑتی ہے۔ اور یہ اتنا آسان نہیں ہوتا۔ خود کو جلانا اور انا کو خاک کرنا پڑتا ہے۔

اس بیمارى کے علاج میں مشقت کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ یہ طبعی میلان سے میچ کرتا ہے، اس لیے اس سے بچنا آسان نہیں ہوتا۔ لہذا نفس کو بہت سنبھالنا اور اور کنٹرول کرنا پڑتا ہے۔ یہ چیز کنٹرول ہوجائے تو بندے کے لیے جنت کا حصول بالکل آسان ہوجاتا ہے :(وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى فإن الجنۃ ہی المأوى}[النازعات:40]۔ تاہم یہ بیماری اگر دل میں اتر جائے تو اس کا علاج آسان نہیں رہتا۔ بعض سلف صالحین سے مروی ہے:(لنحتُ الجبال بالأظافير أهونُ من زوال الهوى إذا تمكَّن في النفس)کہ ہوائے نفس اگر جڑ پکڑ لے تو ناخن سے پہاڑ تراشنا اس کو زائل کرنے سے زیادہ آسان ہوتاہے۔ اسی لیے تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے اسے ان تین چیزوں میں شمار کیا ہے جو ہلاک وبرباد کر دیتى ہیں۔

اسی سنگینی کے پیش نظر سلف صالحین ہوائے نفس کا ادنى سا جھونکا بھی نہیں برداشت کرتے تھے اور پہلے ہی مرحلہ میں اس سے چھٹکارا پانے کی بھرپور کوشش کرتے تھے۔ بار ہا یہ خیال ذہن میں آتا ہے کہ امام بخارى رحمہ اللہ نے محض نیت کی وجہ سے اپنا سامان تجارت دگنے دام پر کیوں نہیں بیچا جبکہ کسی سے ابھی سودا بھی نہیں ہوا تھا۔ صرف نیت ہی تو کی تھی کہ فلاں کو اتنے دام میں فروخت کرنا ہے۔ بھلا اس سے کون سى شرعی قباحت لازم آرہی تھی؟ یہ بہت باریک نکتہ ہے۔ در اصل مادی مصالح کے لیے بار بار نیت کو توڑنا عزیمت کی صفت کو کمزور کردیتا ہےاور پھر دھیرے دھیرے ہوائے نفس کے لیے دل کے دونوں پٹ وا ہوجاتے ہیں۔

ویسے تو جہالت عموما ہوائے نفس اور ظلم وزیادتی کے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ تاہم جاہل شخص اگر خواہش نفس کا اسیر ہے تو وہ اس قدر نقصان نہیں پہنچاتا جس طرح پڑھا لکھا شخص گل کھلاتا ہے۔ اگر پڑھا لکھا شخص ہوائے نفس کا شکار ہوجائے اور خواہشات نفس اس پر اپنا پنجہ جمالے تو وہ یہودی صفت ہوجاتا ہے۔ اور اللہ کے غضب کا حق دار ٹھہرتا ہے۔ یہی وہ بنیادی چیز ہے جو یہود ونصارى میں فرق کرتی ہے۔ ہوا پرستی دونوں جگہ ہے، مگر ایک جگہ ہوى پرستی جہالت کی اسیر ہے، جبکہ دوسری جگہ علم خواہشات نفس کا غلام ہے۔ اور یہ زیادہ سنگین ہے۔

اسی لیے بعض سلف صالحین کا کہنا ہے:جو خواہشات نفس کو اپنے قدموں تلے روند لے گیا شیطان اس کے سائے سے بھی ڈرتا ہے۔ اور جس کا علم اس کی ہوا پرستی پر غالب آگیا تو وہی دراصل صبر کا پیکر اور فاتح میدان ہے۔ جبکہ ساری کی ساری مصیبت خواہش نفس کی اتباع میں ہےاور مکمل شفایابی اس کی مخالفت میں ہے۔

پس جہالت، خواہش نفس کی اتباع اور ظلم وزیادتی جیسی مذموم صفات، نفس کی پاگیزگی کی راہ کا پتھر ثابت ہوتی ہیں اور صفاء قلب کی منزل مقصود تک پہنچنے میں دیوار کی طرح حائل ہوجاتی ہیں۔ جہالت اگرچہ عموما اتباع نفس کی قرین اور ظلم وزیادتی کا سبب بنتی ہے، تاہم علم کے باوجود ایک انسان ہوائے نفس کا شکار ہوجاتا ہے اور اس کی سنگینى دو چند ہوجاتی ہے۔ ہوى پرست کا ایک مائنڈ سیٹ بن جاتا ہے۔ پھر وہ اسی ذہنیت کا غلام اور اسى طرز تفکیر کا اسیر بن جاتا ہے۔ جب یہ مائنڈ سیٹ پختہ ہو کر دل ودماغ میں اپنى جگہ اس طرح بنا لیتا ہے کہ نفس لوامہ نفس امارہ کے سامنے شکست خوردہ ہو کر پسپائی اختیار کر لیتی ہے تو اس اسیر نفس کی تفکیر کا دائرہ خواہشات نفس کے اردگرد گھومنے لگتا ہے اور اس کے حصار سے باہر نکلنا مشکل ترین امر ہوجاتا ہے۔ پھر وہ اسی کا عکس قبیح اسی کا ترجمان اور اسی کا سپاہی بن جاتا ہے۔ چنانچہ ایک ہوى پرست صرف اپنی بد عملی اور شر انگیزی پر اکتفا نہیں کرتا۔ بلکہ جب اس کا مائنڈ سیٹ خواہشات نفس کی اسیری میں لذت محسوس کرنے لگتا ہے تو وہ اس کا داعی اور نقیب بن جاتا ہے۔

ہوى پرستی جب دل میں جگہ بنا لیتی ہے تو ہوى پرست کی زندگی کا ہر میدان اس کا مظہر بن جاتا ہے۔ اس کے طبیعت کی جولانی رہ رہ کر اس کے افسوسناک، المناک، مضحکہ خیز اور فساد انگیز نمونے پیش کرتی رہتی ہے۔ اور پھر ہوى پرست ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے جب اس کو اپنى ہر چیز اچھی اور مخالف کی ہر چیز بری لگنے لگتی ہے۔

ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:(والإنسان مجبول على حُبِّ نفسه، فهو لا يرى إلا محاسنَها، ومُبغِض لخصمه، فهو لا يرى إلا مساوئه. بل قد يشتدُّ به حبُّه لنفسه، حتى يرى مساوئها محاسن، كماقالتعالى: ((أَفَمَنْ زُيَّنَ لَهُ سُوءُ عَمَلِهٍ فَرَآهُ حَسَناً)) [فاطر: ٨].ويشتد به بغض خصمه، حتى يرى محاسنه مساويا، كماقيل:

نظَرُوا بِعَيْنِ عَدَاوَةٍ، وَلَوَ أنَّهَا

عَيْنُ الرِّضَا، لاسْتَحْسَنُوا مَا اسْتَقْبَحُوا

وهذا الجهلُ مقرونٌ بالهوى والظلم غالبا؛ فإن الإنسانَ ظلومٌجَهولٌ)۔

یہ در اصل اس مائنڈ سیٹ کا نتیجہ ہوتا ہے جو اس مرحلہ پر پہنچ کر بن جاتا ہے۔ وہ مائنڈ سیٹ جس کا خمیر جہالت، ہوى پرستی، ظلم وزیادتی یابے عملی اور بد عملی کےعناصر سے تیار ہوتا ہے۔ ہوى پرستی ، خواہش نفس اور ذاتی میلان وشخصی رغبت جس کے خمیر کا ترکیبی عناصر ہوتی ہے۔

ہر معاشرے میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کا ایک خاص مائنڈ سیٹ ہوتا ہے۔ سب سے الگ تھلک، بالکل نرالا۔ اس مائند سیٹ کا بھی یہی حال ہے۔ یہ مائنڈ سیٹ عموما جہالت، یا ہوی پرستی (جوکبرو غرور اور عناد و رعونت کو جنم دیتی ہے )یا پھر دونوں کا مشترکہ نتیجہ ہوتا ہے۔

ہر چیز کے تئیں ان کا سوچنے کا ایک الگ انداز ہوتا ہے۔ عام ڈگر سے ہٹ کر، عام سوچ سے دور رہ کر۔ انھیں نہ اس سے فرق پڑتا ہے کہ عام ڈگر کیا ہے؟ نہ اس سے کہ معاشرتی آداب کیا ہیں؟ اور نہ ہی یہ چیز انھیں بے چین کرتی ہے کہ شرعی اصول وضوابط اور دینی حدود وقیود کےتقاضے کیا ہیں؟

ان کی محبت، ان کا اختلاف، ان کی دوستی، ان کی دشمنى، سب کا رنگ ڈھنگ بالکل جداگانہ اور الگ تھلگ ہوتا ہے۔ جو وہ سوچ لیں وہی درست، جسے وہ پسند کرلیں وہی عزیز ونفیس اور جسے وہ حق مان لیں وہی حرف آخر ہوتا ہے۔

اس مائنڈ سیٹ کے افراد ویسے تو ہر چیز میں ایک منفرد، افسوسناک، تکلیف دہ ، مضحکہ خیز رائے اور رویہ رکھتے ہیں، تاہم آداب اختلاف میں ان کے متضاد آراء اور اختلاف کرتے وقت ان کے متناقض رویے اپنی مثال آپ ہوتے ہیں۔

ویسے تو یہ اختلاف میں کشادہ ظرفی کے قائل اور نرمئ گفتارکے قائل ہوتے ہیں، مگر ان کی کشادہ ظرفی محض اپنے ہم خیالوں کے لیے ہوتی ہے اور ان کی وسعت ظرفی محض ان کے ہم فکر افراد تک محدود ہوتی ہے۔ اپنے مخالفین کے لیے ان کا لہجہ شعلہ، ان کا اسلوب انگار اور ان کی زبان تیر وتفنگ ہوتی ہے۔

ان کے اختلاف کا پارہ اور حدت مناظرہ کی ڈگری اپنوں کے لیے تو پندرہ سے بیس ، مگر مخالفین کے لیے ہمیشہ پچاس سیلسیز ڈگری سے اوپر رہتی ہے۔ پھر بھی یہ نہ صرف ادب خلاف کے قائل بلکہ اس کے داعی اور ترجمان ہوتے ہیں۔

وہ اگر سارے عالم کو گالی دیں تو مجرد اختلاف رائے ہوتا ہے اور دوسرا ان سے محض اختلاف رائے کرلے تو ان کے لیے کفر و ایمان کا مسئلہ بن جاتا ہے۔

یہ مخالف کی وہ غلطی ہوتی ہے جو ان کے لیے اس کی عزت وآبرو سب کچھ حلال کردیتی ہے۔

یہ نہ تدلیس ہے، نہ تلبیس، نہ ہی اس میں کوئی چیز حیرت انگیز ہے اور نہ ہی تعجب خیز ۔ یہ سب عین اس مائنڈ سیٹ کے مطابق ہوتا ہے جو انھیں آٹو میٹک ہینڈل کرتا ہے۔

یہ ٹوٹل مائنڈ سیٹ کا کھیل ہوتا ہے جو ایک لمبی مدت تک جہالت کے کنویں اور خواہشات نفس کے سمندر میں غوطہ لگانے کے بعد سیٹ ہوجاتا ہے۔ ایسے افراد کا کسی سے بھی اختلاف ایسے ہی ہوتا ہے، طنز و تشنیع، تحقیر و تذلیل، گالی گلوج، استہزا،تکبر وعناد؛ اسی سے وہ اپنے مخالف کو جواب دیتے اور اسے”شکست فاش“سے دوچار کرتے اور جشن مناتے ہیں۔

ان کے پاس اور کچھ ہوتا بھی نہیں ہے۔ نہ رائے، نہ دلیل، نہ علل نہ اسباب، بس یہی ان کی کل جمع پونجی ہوتی ہے۔ جہالت اپنے انڈوں بچوں کے ساتھ ان کے دماغ میں گھونسلہ بنا چکی ہوتی ہے، چنانچہ وہ اپنے مخالفین سے ہمیشہ انھی بے خطا ہتھیاروں سے نمٹتے ہیں۔

اس مائنڈ سیٹ کے حامل افراد ایک پروگرامنگ سسٹم کی طرح کام کرتے ہیں، جس کے پیچھے وہی مائنڈ سیٹ ہوتا ہے۔ اور یہ مائنڈ سیٹ اس وقت تک نہیں بدل سکتا، جب تک ان کی کھوپڑی میں موجود بھیجاہی نکال کر کوئی اور بھیجا نہ ڈال دیا جائے۔ اور جدید ٹکنالوجی اتنی ترقی کے باوجود ابھی تک اس سے عاجز ہے۔

کسی بھی نوعیت کے اختلاف میں مائنڈ سیٹ کا کردار نہایت ہی اہم ہوتا ہے۔ جس کے یہاں فکری توازن اور علمی تواضع ہوتا ہے، وہ ہمیشہ عدل سے کام لیتا ہے۔ اس کی کوشش رہتی ہے کہ مخالف کے تئیں انصاف کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹنے پائے۔ اس کے برعکس جس کے یہاں ذہنی آوارگی، فکری افراط وتفریط اور علمی تکبر وعناد ہوتا ہے، وہ اپنی جہالت ہی کو علم سمجھ بیٹھتا ہے۔ اپنے کبر و غرور اور رعونت کو تواضع گردانتا ہے اور اپنی ہوى پرستی کو حق کا پرتو اور سچائی کا عکس جمیل ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتا ہے۔ یہ اپنی بد خلقی اور گالی گلوج کو مجرد اختلاف سے تعبیر کرتا ہے، اس کے یہاں مخالف کے تئیں کبھی انصاف نہیں پایاجا سکتا، اور وہ مخالف کی اچھی سے اچھی رائے کو بھی بھلے ہی وہ کتاب وسنت کے موافق ہو مگر اس کی جہالت اور خواہش نفس سے ٹکراتی ہو؛ اپنے لیے کفر وایمان کا مسئلہ بنا لیتا ہے۔

یہ ایک مائنڈ سیٹ ہی ہے کہ آپ مجھ سے مجرد اختلاف کریں گے تو بھی وہ میرے لیے کفر وایمان کا مسئلہ بن جائےگا، جو آپ کی عزت و آبرو سب کچھ میرے لیے حلال کردےگا۔ مگر میں آپ کو کچھ بھی کہوں، آپ کی تحقیر و تذلیل کروں، آپ کے استہزا کو اپنی تحریر و تقریر کا عنوان بناؤں، آپ کو سر محفل گالیاں دوں، آپ کے مقام و مرتبہ عزت و آبرو سے کھلواڑ کروں؛ یہ سب کچھ محض اختلاف رائے ہے، اور میرے اس اختلاف رائے کو میرا جرم نہ بنائیں، بلکہ اسے آپ خوشی خوشی قبول کریں، اور اس پر مجھے دعائیں بھی دیں، ورنہ میں پھر ناراض ہوجاؤں گا اور آپ سے اختلاف کر بیٹھوں گا۔ اور میرا اختلاف تو آپ جانتے ہی ہیں، آپ کے اختلاف سے ذرا الگ سا ہوتا ہے۔

اس مائنڈ سیٹ کی بنیاد عموما جہالت، نفس کی اسیری، کبر و غرور اور عناد ورعونت پر رکھی جاتی ہے، بقیہ سارے حرکات و سکنات اور چھٹک کود اسی کا شاخسانہ ہوتے ہیں اور اس کا سب سے اہم سبب شخصیت کی تکوین میں کارفرما عوامل اور کسی بھی چیز کی صلاحیت کی تاسیس میں شامل عناصر ہوتے ہیں۔

یہ مائنڈ سیٹ تیار ہونے کے بعد حقائق نظر نہیں آتے، بس ہوائے نفس اور جہالت کے مظاہر ہوتے ہیں۔ انسان جس چیز کو حق سمجھ لیتا ہے وہی حرف آخر ہوتا ہے۔ پھر نہ عقلی دلیلیں کام آتی ہیں نہ نقلی، نہ فطرت کے مظاہر کا حوالہ اثر کرتا ہے، نہ خلقت کی عظمت کا، نہ انسانیت کی دہائی کام آتی ہے نہ اخلاق کے حوالے ۔ بلکہ ڈھٹائی اور عناد کی ہرسنت تازہ ہوجاتی ہے۔ گزشتہ امتوں کو جب کہا جاتا تھا کہ حق یہ ہے اس کی پیروی کرو، تو کہتے تھے کہ ہمارے آبا و اجداد تو ایسا کرتے آئے ہیں۔ یہی ان کی قطعی دلیل ہوتی تھی۔ موسى علیہ السلام نے جب بنی اسرائیل کو قتال کی دعوت دی تو ان کی بے ادبی کا دائرہ ذات الہی تک پہنچ گیا، اور پورى بے حیائی سے کہہ دیا کہ تم اور تمھارا رب جاکرلڑلو ہم تو یہاں سے نہیں کھسکیں گے۔ رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی نے تو نفاق اور بے شرمی کی ساری حدیں پار کردیں جب آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:(لئن رجعنا إلى المدینۃ لیخرجن الأعز منہا الأذل)۔ وہ ذات اقدس صلى اللہ علیہ وسلم جس کے پسینے سے خوشبو آتی تھی، جس راہ سے گزر جائے مہک اٹھے، جس گلی میں قدم رکھ دے معطر ہوجائے، اسے پوری خست سے کہہ دیا کہ دور ہٹ جاؤ اور اپنی سوارى کے غبار سے اذیت مت پہنچاؤ۔

کسی بھی چیز کے تئیں جب ایک مائنڈ سیٹ بن جاتا ہے، انسان کا قول وقرار اس کی حرکات وسکنات سب اس کے تابع ہوجاتی ہیں۔ ہوائے نفس کا ایک غلام جب اپنا مائنڈ سیٹ بنا لیتا ہے، اس کى فکر ایک مخصوص راہ کا مسافر بن جاتی ہے۔ جب وہ باطل کا اسیر ہوجاتا ہے تو پھر قبیح سے قبیح بات قبیح نہیں رہ جاتی۔ غلط سے غلط بات غلط نہیں رہ جاتی۔ یہ مائنڈ سیٹ جب پختہ ہوجاتا ہے تو ایک مرحلہ ایسا آتا ہے کہ ایک ہوى پرست انسان اپنی ہوى پرستی کونہ صرف عین حق سمجھتا ہے، بلکہ چہار سو اسے حق باور کرانے کے لیے شرم وحیا کی ساری چادریں اتار پھینکتا ہے، اور بے لباس ہو کر پوری ڈھٹائی سے اپنے اُس موقف کی بھی نمائندگی کرتا ہے جو ساری انسانیت کے لیے ننگ وعار اور کسی بھی امت کے سفر اخلاق میں مرفوض ومردود ہوتا ہے۔

سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ایک مجوسی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ نسلا فارسی تھے۔ اصفہان سے آپ کے خاندان کا تعلق تھا۔

حق کی تلاش میں آپ ہزاروں کیلو میٹر کا فاصلہ طے کرکے مدینہ منورہ پہنچے۔ ایک لمبے انتظار کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی شدید خواہش پوری ہوئی۔ جب مہر نبوت کو دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے لپٹ پڑے۔ حالت یہ تھی کہ روتے جاتے تھے اور مہر نبوت چومتے جاتے تھے۔

آپ کو بلا شرط حق کی تلاش تھی۔ مزاج میں استسلام تھا۔ طبیعت میں توازن تھا۔ ہوائے نفس کا کوئی گزر نہ تھا۔ نبوت کی حقانیت کا علم ہوتے ہی ایمان لے آئے۔ اور پھر ایمان کا ایسا سفر طے کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاص الخاص اور مشیر کا درجہ حاصل کیا۔ غزوہ خندق میں آپ ہی کے مشورے سے خندق کھودی گئی۔ وہ خندق جو پہلے کفار و مشرکین کی ہزیمت کا سبب اور بعد میں بنو قریظہ کا قبرستان ثابت ہوئی۔ وہی بنو قریظہ جس کا حیی بن اخطب ایک معروف اور قابل اعتبار فرد تھا۔

سلمان فارسی رضی اللہ عنہ اپنے ایمان و یقین کے سفر میں یہیں تک نہیں رکے، ان کے ایمان و استسلام اور یقین و اذعان کا یہ سفر اسی طرح جاری رہا یہاں تک کہ وہ اس منزل تک پہنچے جس کا کوئی اور عجمی تو دور عربی بھی تصور نہیں کر سکتا۔ اور پھر ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اعلان کردیا کہ سلمان اب کوئی فارسی نہیں رہے۔ اب وہ عربی بن چکے ہیں۔ عربی بھی کوئی اور نہیں، ہاشمی اور محمدی۔ اب وہ آل بیت کا حصہ ہیں۔ اور پوری صراحت سے کہہ دیا کہ:سلمان منا آل البيت

دوسری طرف حیی بن اخطب ایک یہودی عالم تھا۔ بنو قریظہ کے بڑے علماء اور قائدین میں اس کا شمار ہوتا تھا۔ ظاہر ہے اہل کتاب میں سے تھا۔ اس نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی۔ مہر نبوت کو دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلام کی نبوت کا یقینی علم اسے حاصل ہوگیا۔ مگر اس کا مائنڈ سیٹ کچھ اور تھا۔ مزاج میں تکبر، طبیعت میں عناد تھا۔ ہوائے نفس کا اسیر اور حقد و حسد کا سفیر تھا۔ اس نے دوسرا راستہ چنا اور زندگی بھر کے لیے آپ صلی اللہ علیہ سلم سے بغض و عداوت کی مہلک اور سنگین راہ اپنا لی۔ آخر ذلت و رسوائی ہاتھ آئی۔ اور اللہ تعالی نے اسے اپنے اسی مبارک رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں ذلیل و رسوا کردیا جس سے اس نے زندگی بھر دشمنی کا عہد کیا تھا۔ بلا شبہ ذلت و رسوائی کا یہ آخری مقام ہوتا ہے کہ انسان اپنے اسی دشمن کے ہاتھوں ذلیل و رسوا ہو جس سے اس نے خود اعلان جنگ و عداوت کیا ہو۔

ایک ایسے انسان کی انصاف پسند طبیعت اور مثبت سوچ نے جو در اصل مجوسیت سے نکلا تھا، اسے آل بیت میں شامل کرادیا۔

جبکہ ایک ایسا انسان جو بنی اسرائیل میں سے تھا۔ اہل کتاب میں سے تھا۔ نامور عالم تھا۔ قوم کا راہ نما اور قائد بھی تھا۔ اس کی منفی سوچ اور ہوائے نفس میں غرق اس کے مائنڈ سیٹ نے اسے دونوں جہان میں رسوا کردیا۔

بلا شبہ انسان کے اعمال اس کے مائنڈ سیٹ کے تابع ہوتے ہیں۔ اس کے حرکات و سکنات اس کی ذہنیت کا ایسا ترجمان ہوتے ہیں جس کے بعد کسی ترجمانی کی ضرورت نہیں رہ جاتی:(قُلْ كُلٌّ يَعْمَلُ عَلَىٰ شَاكِلَتِهِ فَرَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَنْ هُوَ أَهْدَىٰ سَبِيلًا)

ولله في خلقه شؤون

وهو الموفِّق والهادي إلى سواء السبيل

آپ کے تبصرے

3000