وَيلٌ لِلْمُطَفِّفِين

وسیم المحمدی سیاسیات

دین کی سمجھ نہ ہو تو دنیا میں بندہ اندھوں سے بھی گیا گزرا ہے۔
آنکھوں سے جسے دکھائی نہیں دیتا وہ اپنے کان، ناک، ہاتھ اور پاؤں کی مدد سے کئی فائدے حاصل کرسکتا ہے اور متعدد نقصانات سے بچ سکتا ہے۔
فقہ فی الدین سے عاری انسان اپنی کھلی آنکھوں سے دنیا کے سارے رنگ دیکھنے کے باوجود حرکتیں الٹی کرتا ہے، سودے میں خسارہ اٹھاتا ہے، پیروں میں لگی ہوئی گندگی کو ہاتھوں سے اٹھاکر ناک میں لگا دیتا ہے، سیدھے راستے کو چھوڑ کر پگڈنڈی کی راہ پکڑ لیتا ہے اور بہک جاتا ہے۔ سارے وسائل کے باوجود فتنے، اندیشے، گمان اور بے یقینی کے جنگلوں میں بھٹک جاتا ہے اور شکار ہوجاتا ہے۔
دین کی سمجھ ہو تو اپنے رسولوں کو اللہ رب العالمین نے جو بینات، کتابیں اور میزان عنایت کیں بندہ ان سے محروم نہیں ہوتا۔ اصولوں اور دلیلوں کی مدد سے عدل و انصاف کا معاملہ کرتا ہے۔ لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ
اللہ کے نازل کردہ احکام و دلائل سے محرومی، کان ہونے کے باوجود بہروں اور آنکھ ہونے کے باوجود اندھوں جیسی ہے۔
وَمِنْهُم مَّن يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ ۚ أَفَأَنتَ تُسْمِعُ الصُّمَّ وَلَوْ كَانُوا لَا يَعْقِلُونَ۔ عقل نہ ہو تو قوت سماعت کے باوجود بندہ بہرا ہوتا ہے۔ وَمِنْهُم مَّن يَنظُرُ إِلَيْكَ ۚ أَفَأَنتَ تَهْدِي الْعُمْيَ وَلَوْ كَانُوا لَا يُبْصِرُونَ۔ بصیرت نہ ہو تو نظر ہونے کے باوجود بندہ اندھا ہوتا ہے۔
عقل و بصیرت سے عاری انسان ظالم ہوتا ہے۔ إِنَّ اللَّهَ لَا يَظْلِمُ النَّاسَ شَيْئًا وَلَٰكِنَّ النَّاسَ أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ۔ دنیا میں سارے فساد کی جڑ ظلم ہی ہے۔ ظلم جور و جفا کا راستہ ہے۔ اس راستے پر صرف وہی نہیں ہیں جنھوں نے اپنے انبیاء کرام کو قتل کیا، ان قاتلوں کی اندھی پیروی کرنے والے روافض نے بھی نفوس عظام کو قتل کرکے اپنی سرشت اجاگر کی ہے۔ یہود و روافض کی پوری تاریخ صالحین کے خون سے لال ہے۔ قبیلے کی سرداری اور منڈی پر اجارہ داری کی لڑائی میں ان کی دشمنی عدل و انصاف کی ہر کوشش سے ہے۔ دنیا میں اللہ نے تکریم کا جو معیار طے کیا ہے اسے تسلیم کرنے سے ہے۔ نَحْنُ أَبْنَاءُ اللَّهِ وَأَحِبَّاؤُهُ ۚ
یہی وہ لوگ ہیں جو رائی کو پہاڑ بنانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ انھوں نے ایسے ایسے میگنفائنگ گلاس ایجاد کرلیے ہیں جو دنیا کی ساری مکھیوں کو ایک معمولی سے زخم پر جمع کردیتے ہیں۔
ڈاکٹر وسیم المحمدی صاحب نے زیر نظر مضمون میں ایسے ہی ایک زخم پر لذت کام و دہن میں مصروف مکھیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے آس پاس کے صحت مند اعضاء کی تصویریں کھینچی ہیں۔ یہ تصویریں دیکھنا بہت ضروری ہے۔ مکھیوں کی جماعت میں شامل ہونے سے بچنے کا اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ یہی راستہ عقل و بصیرت سے مالا‌مال کرتا ہے۔ اسی راستے پر بینات و کتب (احکام و دلائل) کے لیمپ لگے ہیں۔ ہر قسم کے اندھیروں (ظلمات) اور ہر طرح کے ٹھوکروں (ضلال) سے بچاؤ کا یہی راستہ ہے، عدل و انصاف (میزان) کا یہی طریقہ ہے۔ (ایڈیٹر)


انسان کا عمل اس کی امیج کریٹ کرتا ہے۔
حسن عمل اس کی شخصیت کو نگاہوں میں چمکاتا، آنکھوں میں بیٹھاتا اور دلوں میں بڑا کرتا ہے تو سوء عمل اس کو بد صورت بناتا اور اسے لوگوں کی نظروں سے گراتا ہے۔
انسان جلد باز ہے۔ کمزوری اس کی سرشت میں داخل ہے۔ عموما وہ انصاف کے بجائے اپنی طبیعت کے بنائے ٹریک پر ہی چلتا ہے۔ لاکھ عدل و انصاف کی دہائی دی جائے۔ عقل و شرع کا حوالہ دیا جائے اکثر اوقات اس کی طبیعت ہی غالب آتی ہے۔
اسی لیے تقییم و تقویم اور پیمائش و فہمائش کے لیے قضا و حکم کی خصوصی مجلس لگانی پڑتی ہے۔ جب قاضی سارے حواس اکٹھا کرکے، کاغذ قلملے کر الگ سے اسی لیے بیٹھتا ہے تب سرزد عمل کا آپریشن یا اس کا پوسٹ مارٹم ہوتا ہے۔ ظاہر ہے اگر مجرد علم سے یہ کام ہوجاتا تو ایسے قضا کی ضرورت بالکل نہ پڑتی یا بہت کم پڑتی۔
حسن عمل صرف انسان کی شخصیت کو نہیں سنوارتا، اسے محض لوگوں میں محبوب نہیں بناتا بلکہ اس کے اردگرد ایک اندیکھی مگر مضبوط سیکورٹی کا حصار کھینچ دیتا ہے۔
کسی بھی انسان کے لیے یہ سیکورٹی بہت ہی اہم ہوتی ہے۔ یہ اگرچہ نظر نہیں آتی مگر اسے معاشرہ کے بہت سارے چھوٹے بڑے آفات و مصائب اور ظلم و تعدی سے محفوظ رکھتی ہے۔
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو مکی زندگی میں بھی یہ سیکورٹی اتم درجہ میں حاصل تھی جو ان کے خوبصورت اعمال کے نتیجے میں کریٹ ہونے والی ان کی محبوب شخصیت کے سبب تھی۔
مکی زندگی میں ہی اسی طرح کی ایک سیکورٹی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو بھی حاصل تھی۔ تاہم عمل کی نوعیت کے اختلاف کی وجہ سے سیکورٹی کی نوعیت بھی الگ تھی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارک: (نُصِرتُ بالرُّعبِ مسيرةَ شَهرٍ) در اصل اسی نوعیت کی ایک غیر مرئی سیکورٹی کی طرف اشارہ کرتی ہے جس کے وسیع تر ابعاد و حدود ہیں۔

بعینہ اسی طرح ایک انسان کی بدعملی اس کی شخصیت کو مجروح کرتی، اسے بے وزن بناتی اور اس کے لیے استہزا وتحقیر کا راستہ کھولتی ہے۔
یہ بے وزنی، یہ استہزا وتحقیر، دھیرے دھیرے اسے معاشرہ میں ان سیکور کرتی اور پھر اس کے فطری سیکورٹی سسٹم کو کمزور کر دیتی ہے۔
بے وزنی سے شروع ہو کر سیکورٹی نظام کی کمزوری تک اس کی بدعملی اور بد کرداری کے نتیجے میں پیدا ہونے والے یہ متسلسل حالات ظلم پر منتج ہوتے ہیں، اور ہوان کے راستے در آنے والے استہزا و تحقیر کے مختلف اسالیب و انداز محض اس کے سیکورٹی نظام کو درہم برہم نہیں کرتے، بلکہ اس پر تعدی و طغیان کی راہ کو آسان بناکر ظلم وستم کا دروازہ اس پر کھول دیتے ہیں۔
کسی بھی معاشرہ میں موجود بد عملوں، بے عملوں، بد کرداروں اور ان کی بے وزن نیز ظلم و تعدی سے جوجھتی زندگی پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے یہ نکتہ آسانی سے سمجھ میں آجائے گا۔
در اصل یہ ایک طبعی اور معاشرتی سفر ہوتا ہے جو ہر معاشرہ اور ہر قوم میں سنت کونیہ کے مطابق جاری رہتا ہے۔
پھر جب ظلم و عدوان نا قابل برداشت یا قابل چیلنج بن جاتا ہے تو قاضی اپنی عدالت لگاتا، مالہ اور ما علیہ سنتا، دلائل و براہین کو دیکھتا پھر فیصلہ کرتا ہے کہ اس عمل اور رد عمل کی شرعی اور قانونی حیثیت کیا ہے۔
قضا کا ایک وقت متعین ہوتا ہے۔ کسی کے لیے نہ روز عدالتیں لگتی ہیں نہ ہی اس کی خاطر قاضی یومیہ جلوہ افروز ہوتا ہے۔ ہر عمل اور ہر سسٹم اپنے اپنے حساب سے چلتا رہتا ہے۔
اکثر اوقات جب تک فیصلہ آتا ہے تب تک ظلم کا دریا کافی بہہ چکا ہوتا ہے۔ سیلاب سیکڑوں فصلیں تباہ کر چکا ہوتا ہے۔ متعدد دفعہ یا اکثر اوقات اس تباہی میں کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ اس کسان کی بھی لاپرواہی یا غلطی ہوتی ہے جس کی آنکھیں سیلاب کے بعد کھلتی ہیں۔
اس اہم ترین نکتے کو مد نظر رکھتے ہوئے شریعت نے نہ صرف (ولا تُلقُوا بأيدِيكم إلى التَّهلُكَةِ) کا صریح حکم دیا ہے بلکہ بہت ساری مباح اور حلال چیزوں کو بھی صرف سد ذریعہ کی وجہ سے حرام کردیا ہے تاکہ ان کی وجہ سے کسی ممنوعہ چیز کا ارتکاب نہ ہو جائے اور کسی تعدی و طغیان کا دروازہ نہ کھل جائے، جبکہ اصلا یہ چیزیں مباح اور حلال ہوتی ہیں۔
سیکورٹی کا یہ مضبوط سسٹم جو اعمال و کردار کے نتیجے میں کریٹ ہوتا ہے دنیا کے ہر معاشرہ میں باختلاف ادیان و مذاہب اور بانواع ملل و نحل پوری قوت سے موجود ہوتا ہے۔ یہ سسٹم اساسا سنت کونیہ کے تابع ہوتا ہے تاہم سنت شرعیہ کا اس میں ایک خاص دخل ہوتا ہے۔
قرآن کریم کی متعدد آیات سیکورٹی کی ان دونوں قسموں کی طرف اشارہ کرتی اور احادیث مبارکہ کی ایک اچھی تعداد ان کی شرح و تفسیر کرتی ہے۔
آج کل ایک فلم (The Goat Life) کا بڑا شور ہے۔ جتنی تشہیر اس فلم کو بنانے والے کر رہے ہیں اس سے کہیں زیادہ سوشل میڈیا پر عالم عرب کا لبرل، رافضی و اخوانی طبقہ اور برصغیر کا کربلائی و تحریکی میڈیا کر رہا ہے۔ بر صغیر میں اس پروپیگنڈائی نشر واشاعت اور تشہیر میں پڑوس کے رافضیوں ، ملحدوں اور لا خیروں کا بڑا کلیدی کردار ہے۔
گزشتہ کچھ سالوں سے پڑوس کے لبرل اور رافضی طبقہ نے جھوٹ کی نشر واشاعت میں بے نظیر ترقی کی ہے۔ سوشل میڈیا پر یہ طبقہ جھوٹی باتوں کی تشہیر میں اس وقت بلا مبالغہ یہود ونصارى سے کسی طرح کم نہیں ہے۔ تحریکی اور مردودی میڈیا کے علم بردار ان کے پیچھے پیچھے چلتے ہیں۔ کلیدی فرق یہ ہے کہ آخر الذکر کا میدان محدود جبکہ اول الذکر کا لا محدود ہے۔ جب میدان یکساں ہوتا ہے تب اصل مقابلہ آرائی ہوتی ہے۔
پڑوس کا یہ لبرل اور رافضی طبقہ محض انجوائے منٹ اور مجرد تفریح کے لیے ایسے ایسے جھوٹ گڑھتا اور وضع واختلاق کی چوٹی سر کرتا ہے کہ الأمان والحفیظ۔ جب اس میں خبث مقصد اور سوء ہدف کا تڑکا لگ جاتا ہے تو پھر ان کی منزل غیر معین اور ہدف لا محدود ہو جاتا ہے۔ ان دونوں کے علاوہ بے دینوں اور لا خیروں کا ایک گروہ ہے جو کذب واختلاق میں فل انجوائے فیل کرتا اور کراتا ہے۔
عالم عرب سے لے کر بر صغیر تک اس تشہیر ی مہم کے براہ راست دو اہم نتیجے نکلے ہیں: پہلی تو فلم کی آمدنی میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے جس میں پروپیگنڈہ مشنرى کے یہ لبرل، رافضی، کربلائی اور اخوانی وتحریکی طبقےنے براہ راست کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ دوسرے عربوں اور خصوصی طور سے سعودی عرب کی نہایت منفی تصویر سامنے آئی ہے۔ یہ منفی تصویر اس فلم کے اہم مقاصد میں سے ہے۔
ہندی فلموں میں جو مبالغہ آرائی کی جاتی ہے وہ معروف ہے۔کہانی قصے تو عموما جھوٹے ہوتے ہی ہیں مگر جس بیس پر انھیں کھڑا کیا جاتا ہے اس میں بھی نظریہ ضرورت کے تحت اس قدر تحریف کر دی جاتی ہے کہ دخان کا صرف “دخ” اور بسا اوقات بس “د” ہی بچتا ہے۔ عالم عرب میں تو “فلم ہندی” مبالغہ اور جھوٹ کا استعارہ اور کذب واختلاق کی مثال بن چکا ہے۔ جب کوئی غیر معقول اور مبالغہ سے لبریز سین کریٹ ہوتا ہے تو وہ اسے “فلم ہندی” سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہ عام ہندی فلموں کی بات ہے۔ ساؤتھ انڈین فلموں کے رواج پانےکے بعد تو بیچارہ عربی دان خود پریشان ہے کہ مبالغہ کے کون سے معیار پر انھیں فٹ کیا جائے اور ان کے لیے کذب واختلاق اور مبالغہ آمیزی کا کون سا اسٹیج بطور میزان طے کیا جائے۔
تاہم ہمارے ایمان کا جنازہ اس قدر نکل چکا ہے کہ ہمیں فلمیں زیادہ اپیل کرتی اور قصے کہانیاں ہمارے شعور وانفعال کو زیادہ ٹچ کرتی ہیں۔ پورے قرآن کریم کی ہم تلاوت کر جائیں تو عین ممکن ہے کہ ہماری آنکھوں سے آنسو نہ ٹپکے مگر جھوٹ اورفراڈ پر مبنی فلم میں کوئی ظلم وزیادتی سے پر، کوئی دردناک حادثہ یا کوئی جذبات سے لبریز سین آجائے تو ہم چاہتے ہوئے بھی آنسو نہیں روک پاتے۔ اس کا تعلق در اصل ہمارے ایمان ویقین سے ہے۔ وہ ایمان ویقین جو ہمارے خیالات سے لے کر تصرفات تک کو کنٹرول اور ہینڈل کرتا ہے۔
فلم بنانے والوں کو اچھى طرح پتہ ہوتا ہے کہ پیسہ کس طرح نکلے گا؟ اہداف ومقاصد کیسے پورے ہوں گے؟ سو نظریہ ضرورت پر عمل کرتے ہوئے اس فلم کو بھی فلمایا گیا ہے۔ مبالغہ آرائی میں ہندی فلموں کی جو ایک شیڈولڈ میتھوڈولوجی ہے عین اس کے بموجب انتہائی مبالغہ آمیز انداز میں احداث ووقائع کی تصویر کشی کرنے کے ساتھ ساتھ ، نہ صرف حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہےبلکہ واقعہ میں موجود وہ کلیدی احداث تک حذف کردیے گئے ہیں جن کی موجودگی سے فلم کے مقاصد بری طرح متاثر ہو سکتے تھے۔
اس فلم کی تشہیر کے ساتھ ہی جن موضوعات پر بحث چھڑی اور پھر چھڑتی چلی گئی وہ ہےسعودی عرب کا کفالہ سسٹم، سعودیوں کا اخلاق اور عمال کے ساتھ ان کا رویہ ۔ عالم عرب کے ملحد، لبرل، رافضی اور اخوانی مافیا کے ساتھ ساتھ برصغیر کے مزدکی، کربلائی ، تحریکی اور مردودی میڈیا نے بھی بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھویا ۔ وہ افراد جو علم وعمل اور اخلاق ومروت میں خود اپنے جنازہ کو کندھا دے چکے ہیں وہ بھی عربوں سے عموما اور سعودیوں سے خصوصا حساب کتاب کرنے لگے اور سوشل میڈیا کے ہر پلیٹ فارم پر بحث ومباحثہ اور جدل ومناقشہ کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔
اب سعودیوں کے مظالم کی کہانیاں ذوق وشوق سے سنی سنائی جا رہی ہیں مگر کیا کبھی ہم نے یہ بھی سوچا کہ تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ لیں؟ اس جدل ومناقشہ کے دوران انصاف کے ساتھ اس نقطہ پر بھی غور کرلیں کہ ہم نے خود اپنا کون سا امیج اپنے اعمال کے ہاتھوں بنا کر ان کے سامنے پیش کیا ہے؟
کسی بھی معاشرہ میں اکثریت انصاف کے کسی بھی درجہ پر فائز ہو ظلم کے وقوع سے نہ توانکار کیا جا سکتا ہے نہ ہی اس کا دفاع کیا جاسکتا ہے۔ خاص طور سے سوسائٹی کی اس قسم میں جہاں معاملہ آقا وخادم، نوکر ومالک اور سید وسیدی والا ہو۔ تاہم جب ایسے موضوعات پر گفتگو کی جاتی ہے تو یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ حتى الامکان انصاف کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے اور شدت مناقسشہ وحدت جدل میں تصویر کا دوسرا رخ آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے پائے۔
ریاض کی انڈین ایمبیسی میں ایک خصوصی شعبہ سعودی عرب میں موجود بھارتیوں کے مسائل نمٹانےاور کفیلوں سے قائم نزاعات حل کروانے کے لیے بھی قائم ہے۔ اس شعبہ میں کام کرنے والے بعض احباب کی رپورٹ کے مطابق مزدوروں اور کفیلوں کے نزاعات اور مسائل و مشاکل میں تقریبا اسی فیصد غلطی مزدوروں کی جبکہ بیس فیصد غلطی کفیلوں کی نکلتی ہے۔
گزشتہ تقریبا چوبیس سالوں میں میرے اپنے جو مشاہدات و تجربات ہیں میں ان کی بنا پر کہہ سکتا ہوں کہ بر صغیر کے عمال کا ایک بڑا طبقہ چوری اور بے ایمانی میں طاق ہوتا ہے۔ باقاعدہ حلال کی طرح غیر قانونی، ناجائز اور حرام کام کرتا ہے۔
ایسے کتنے عمال اور کام کرنے والے ہوتے ہیں جن کی تنخواہیں تو آٹھ سو، ہزار، پندرہ سو، دو ہزار ریال ہوتی ہیں مگر وہ ہر سال دو سال میں اپنے ملک میں جو پراپرٹیاں بناتے ہیں وہ پانچ دس ہزار والے بھی حلال طریقہ سے نہیں بنا پائیں گے۔
ایسے لوگوں کی اکثریت ناجائز اور غیر قانونی طریقے اختیار کرکے ایسا کر پاتی ہے۔ ان طریقوں میں ایک معروف طریقہ چوری اور بے ایمانی کا ہوتا ہے۔
اگر کوئی صرف اس پہلو پر دھیان دے کہ جو بالکل جاہل اور کسی پیشہ اور ہنر سے آشنا تک نہیں ہوتے، بر صغیر میں جلدی انھیں کوئی دو چار ہزار کی نوکری نہ دے۔ خلیج میں آکر نہ صرف بیس تیس ہزار کی نوکری پا جاتے ہیں بلکہ ان کا گھر سنبھل اور چمک جاتا ہے۔ بچے پڑھ لکھ لے جاتے ہیں۔ معاشرہ میں ایک مقام مل جاتا ہے۔ غرضیکہ خلیجی زندگی سے متعدد ایسے فوائد کشید کرتے ہیں جو اپنے ملک میں ممکن نہ تھے۔
بلا شبہ اگر خلیجی ممالک کے عموما اور سعودی عرب کے خصوصا بر صغیر کی مسلم دنیا پر پڑنے والے دینی، دعوتی، اقتصادی ،تعلیمی اور سیاسی وسماجی اثرات کا سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے اور اس کا صحیح معنوں میں انصاف سے دراسہ کیا جائے تو پی ایچ ڈی کے کئی تھیسس تیار ہوجائیں۔ یہ اثرات اور فوائد اس قدر گوناگوں اور ہمت جہت ہیں کہ ریسرچ کے کئی نئے زاویے کھلتے چلے جائیں گے۔ خاص طور سے ایسی صورت میں جب ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ کہیں بھی جب مالی اثرات مرتب ہوتے ہیں تو دیگر کئی مجالات کا راستہ وہ خود بخود ہموار کرتے چلے چاتے ہیں۔
تاہم ان سب کے باوجود ہماری ایک بڑی تعداد نا شکری کرتی اور دن رات بس گالیاں بکتی ہے۔
آخر ایسا غیر معقول اور ناقابل فہم رویہ کیوں ہوتا ہے؟ اس کی متعدد وجوہات ہوتی ہیں۔ ناشکری کا ہماری طبیعت میں راسخ رویہ۔ نقد کرنے کی بے جا عادت۔ گھریلو فرسٹریشن۔ مجبوری کی زندگی۔ جہالت، ناخواندگی اور بدتہذیبی سے خود کا دامن تار تار ہونے کے باوجود عربوں کو بدو اور گیا گزرا سمجھنا ۔ ایک خیالی برتری سے دل ودماغ کا پراگندہ رہنا ۔ عرب اور عربوں سے ہر حال میں چڑھ اور نفرت وغیرہ۔
عمال کا ایک بڑا طبقہ مجبوری میں کام کرتا ہے۔ گھر کے حالات اور اہل خانہ کے مطالبات اسے پریشان کیے رہتے ہیں۔ خوش دلی اس کو چھو کر نہیں گزر پاتی۔ چنانچہ ہمیشہ تھکا تھکا اور شکوہ کناں رہتا ہے۔ ایک طرف وہ شکر کے بجائے کفران نعمت میں مبتلا اور ہمیشہ گالی گلوج اور نفرت آمیز بات کرے گا دوسری طرف کسی صورت کام چھوڑ کر اپنے ملک نہیں جانا چاہے گا۔ اسے اچھی طرح پتہ ہے کہ یہ امن وسکون اور یہ کمائی اسے اپنے ملک میں نصیب نہیں ہوگی۔ چنانچہ مجبوری اور چاہت کے برزخ میں وہ اپنا فرسٹریشن اسی طرح نکالتا اور مظلومیت کا رونا روتا رہتا ہے۔
ان نام نہاد مظلوموں کی بڑی عجیب عجیب کہانیاں اور قصے ہیں۔ اگر ہم صرف اپنے مشاہدات جمع کر دیں تو ایک ضخیم اور دلچسپ کتاب تیار ہوجائے۔ ہر قسم کے واقعات نہ شیئر کیے جا سکتے ہیں نہ انھیں پبلک کیا جا سکتا ہے۔ تاہم کچھ گفتنی واقعات پیش ہیں تاکہ نہ صرف تصویر کا دوسرا رخ واضح ہوجائے بلکہ یہ بھی پتہ چل جائے کہ خود اس طبقہ نے اپنے لیے کون سا مقام چنا ہے؟ اپنی بد اعمالیوں کے ہاتھوں اسکیچ کرکے اپنا کون سا امیج خود اس گروہ نے عربوں کے سامنے پیش کیا ہے؟ مکہ اور مدینہ جیسی مقدس سرزمین پراس جماعت نے اپنے کرموں سے اپنی کون سى چَھوی بنا ئی ہے جو بدلے نہیں بدلتی؟
جب تصویر کے دونوں رخ پر ہماری نگاہ ہوگی تو اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ نماز اور تلاوت جیسے مبارک اور دل پذیر اعمال پر بمشکل ٹپکنے والے ہمارے آنسو کسی فلمی سین پر ضائع نہیں ہوں گے۔ نہ ہی صہیونی، مزدکی، کربلائی ، اخوانی اور تحریکی ومردودی میڈیا اور افواہوں کے پیچھے ہم سیل رواں بن کر اپنی انرجی ضائع کریں گے۔
مدینہ منورہ میں ہمارے ایک سعودی دوست تھے۔ انھوں نے اپنے فون کی دکان پر ایک عامل رکھا۔ اس وقت آئی فون نیا نیا آیا تھا۔ اس عامل نے دو آئی فون چرا لیے۔ سعودی بڑا پڑھا لکھا اور قابل بندہ تھا۔ عامل نے جیسے ہی ایک فون سم لگا کر چالو کیا اس نے لوکیشن ٹریس کرکے پکڑ لیا۔ مجھے بلایا۔ کہنے لگا واللہ اس نے آئی فون چوری کیا ہے۔ مجھے اچھی طرح پتہ چل گیا ہے۔ مگر میں روز قیامت کے لیے اسے چھوڑ رہا ہوں۔ اسے سمجھا دو۔
دوکانوں سے پیسے چرانا، حسب منشا سامان غائب کرنا یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ بر صغیر کا عمال طبقہ اس میں طاق ہے۔ ایک بڑی تعداد زمانے سے اس میں ملوث ہے۔بسا اوقات ایسا کرنے والے اس قبیح عمل کو حرام بھی نہیں سمجھتے۔
مدینہ ہی میں ایک اور صاحب تھے۔ ہمارے ایک سعودی دوست کے گھر میں ڈرائیوری کرتے اور شام میں ایک جگہ ڈرائیوروں کا جماوڑا لگتا تو اسے گندی گندی گالیاں بکتے۔ مجھے بہت تکلیف ہوتی۔ سمجھاتا مگر کوئی فائدہ نہیں۔
جبکہ ان کی حالت یہ تھی کہ بارہ سو پر آئے تھے۔ ایک دن اپنے گھر کی بپتا اور اپنی مظلومیت سنائی تو میرے کہنے پر اس نے کچھ ہی دنوں بعد پندرہ سو کر دیا۔ کہنے لگا یہ میری طرف سے اس کے گھر کی مدد ہے۔
جب ان کی گندی حرکتیں بڑھ گئیں تو میں نے ایک دن کہا کہ بھائی آپ گالیاں کیوں دیتے ہیں۔ وہ شریف آدمی ہے۔ نہیں جمتا ہے تو چلے جاؤ۔ کہنے لگے مجھے بھیج دے تو میں ابھی چلا جاؤں گا۔
آخر ایک دن میں نے اپنے اس دوست سے بات گھما کر پوچھا کہ اس عامل سے آپ کو کوئی شکایت ہے؟ کہنے لگا کہ اس کی حرکتیں میں آپ کو کیا بتاؤں؟ میری بوڑھی ماں کو لے جائےگا تو اسپیڈ بریکر پر گاڑی تیز رکھے گا جس سے اس کا سر چھت میں لڑ جاتا ہے۔ بار بار سمجھانے کے باوجود نہیں مانتا ہے۔ اب میری ماں اس کے ساتھ جانے سے ڈرنے لگی ہے۔
سعودی اپنے ماں باپ کا جو احترام کرتے ہیں بر صغیر میں اس کا تصور بھی نہیں ہے۔ مجھے اس دن اس پر بہت حیرت ہوئی کہ اس ڈرائیور کی اس حرکت کو اس نے کیسے اگنور کیا ہوگا۔
کہنے لگا ہر ماہ ایک دو مخالفہ ضرور لائےگا۔ میں نے حال ہی میں نئی جیمس خریدی ہے۔ دو بار لڑا چکا ہے۔ کچھ نہیں پاتا ہے تو گاڑی فٹ پاتھ میں رگڑ دیتا ہے۔
میری غلطی یہ ہے کہ جب صبر نہیں ہو پاتا تو ڈانٹ دیتا ہوں اور کبھی کبھی تنخواہ کاٹنے کی دھمکی دیتا ہوں مگر کاٹا کبھی نہیں، نہ ہی ایسا ارادہ ہے۔
جب اس کی حرکتیں ناقابل برداشت ہوگئیں تو میں نے اپنے اس دوست سے کہا کہ اسے خروج نہائی دےدو۔ وہ شاید آپ کے پاس نہیں رہنا چاہتا۔ وہ کہنے لگا واللہ میں اس کی روزی روٹی نہیں کاٹنا چاہتا۔ اس کے گھر کے حالات اچھے نہیں ہیں۔ گھر والے بہت پریشان ہوں گے۔
میں نے اس سے کہا کہ پھر یہ ایسے نہیں سدھرے گا۔ آپ اس کو بھیجو مت۔ بس خروج لگا کر اسے دکھا دو اور کہو کہ تم کو گھر بھیجوں گا۔ پھر خروج کینسل کردینا۔ اس نے کہا نہیں۔ بےچارہ بہت پریشان ہو جائےگا۔
اس بندہ کی خست وکمینگی اتنی تھی کہ کفیل کو بتایا نہیں جا سکتا تھا۔ اور اس کے ایسے سدھرنے کا امکان بھی نہیں تھا۔
میرے بہت اصرار پر ايك دن اس نے کہا کہ ٹھیک ہے میں اس کا انڈیا کا فرضی ٹکٹ بنا کر اسے دے دیتا ہوں ۔ باقی تم سمجھ لینا۔ دوسرے دن اس نے فرضی ٹکٹ بنا کر ان سے کہا کہ تم گھر جانے کی تیاری کرلو۔ اب تمھاری ہمیشہ کے لیے چھٹی کر رہا ہوں۔ رات سے میرے پاس ان صاحب کا جو کال آنا شروع ہوا تو صبح تک آتا رہا۔ میں تو معاملہ سمجھ ہی رہا تھا۔ فون ریسیو نہیں کیا۔ دوسرے دن فون لگایا تو رونے لگے: بھائی صاحب میرا کفیل مجھے گھر بھیج رہا ہے۔ آپ کسی طرح بچا لیں۔ میں نے کہا آپ تو خود جانے کہہ رہے تھے۔ اب کیا مسئلہ ہے چلے جائیں۔ پھر رونے لگے۔ میرے گھر کے بہت مسائل ہیں۔ بہت پریشانی ہو جائے گی۔ میں نے کہا تم نے کچھ کیا ہوگا تب تو خروج لگایا ہے۔ جاؤ اس سے سمجھو۔
جب بہت گڑگڑانے لگے تو میں نے کہا تم جس بے شرمی سے اسے گالیاں دیتے ہو اگر وہ جان گیا تو کیا کرےگا جانتے ہو؟ جب تمھیں اس سے اتنی نفرت ہے تو گھر چلےجاؤ۔ میں کیوں تمھاری سفارش کروں۔ بہر حال وہ بہت روئے دھوئے تو میں نے کہا ٹھیک ہے میں کہہ دوں گا مگر آئندہ اچھے ڈھنگ سے رہنا۔ کوئی شکایت نہ آئے۔ نہ ہی گالیاں بکنا۔ پھر اس دن سے وہ بالکل سدھر گئے۔
فیملی ڈرائیوروں کے ایک بڑی تعداد کی یہی کہانی ہے۔ ناشکری ان کی گٹھی میں پڑی ہوتی ہے۔ کفیل کے گھر میں رہیں گے۔ اسی کا کھائیں گے۔ اس سے صدقہ وخیرات وصول کریں گے۔ پھر اسی کو گالیاں بھی دیں گے۔ اس کے گھر کی طرح طرح کی خامیاں گنائیں گے۔ اس کی فیملی کے بارے میں ناقابل برداشت باتیں کریں گے۔ جب بھی دو چار ڈرائیوروں کی مجلس لگے گی کفیلوں کی برائی سے ہی آباد ہوگی۔
ہمارے کالج میں ایک سینئر مسؤول ہیں۔ ایک دن انھوں نے مجھ سے کہا کہ کلاس کے بعد میرے آفس آجائیں کچھ کام ہے۔ میں وہاں گیا تو کچھ ہی دیر بعد انھوں نے اپنے ڈرائیور کو بلایا۔ پھر ایک لمبی کہانی سامنے آئی۔
یہ ڈرائیور اس مسؤول کے کفالہ پر تھا۔ تاہم کچھ سالوں سے انھوں نے اسے بالکل فری کر دیا تھا اور وہ اپنی مرضی سے ٹھیک ٹھاک کما کھا رہا تھا۔ فری کرنے کے باوجود کفیل نے اپنے بنگلے میں موجود ڈرائیور کا روم اسے دے رکھا تھا۔ کوئی معاوضہ اس سے نہیں لیتے تھے۔ ہاں بدلے میں یہ کبھی کبھار ان کا کچھ کام کردیا کرتا تھا۔ کفیل ہی کے نام پر اس ڈرائیور نے ایک گاڑی لے رکھی تھی جس سے اپنی روزی روٹی کما رہا تھا۔کفیل کے پاس ایک انڈونیشین خادمہ تھی۔ موصوف نے اس سے تعلق بنالیا۔ کفیل کو جب پتہ چلا تو اس نے انھیں سمجھایا۔ مگر عشق کا بھوت ان کے سر سے نہیں اترا۔ ایک دن خادمہ کے کمرے میں جاتے ہوئے پکڑے گئے۔ پھر اس نے سمجھا بجھا کر چھوڑ دیا۔ مگر سدھرنے کے بجائے ان صاحب نے کچھ اور ہی پلان بنالیا۔
چھٹیوں میں جب وہ خادمہ اپنے ملک چلی گئی تو اس نے وہاں سے کفیل کو میسیج بھیجا کہ ہم دونوں نے شادی کرلی ہے۔ ثبوت کے طور پر باقاعدہ کچھ نقلی پیپر بھی بھیجے اور کہا کہ اگر ہم دونوں کو ساتھ رہنے دوگے تو میں آؤں گی ورنہ نہیں۔
میسیج پاتے ہی کفیل ساری کہانی سمجھ گیا اور اس کا پارہ ہائی ہوگیا۔
مجھے بتانے لگا کہ خادمہ کے (چھٹی) جانے سے پہلے اس کا اقامہ تجدید کرایا ہے۔ اس کے لیے دیگر کئی انتظامات کیے ہیں۔ اچھا خاصہ خرچہ کیا ہے۔ اگر اسے یہی سب کرنا تھا تو جانے سے پہلے بتاتی۔ یہ تو سیدھا سیدھا مجھے بلیک میل کر رہی ہے۔ اس کو بعد میں دیکھتا ہوں۔ فی الحال اس ڈرائیور کو سزا دینا ضروری ہو گیا ہے۔
بہر حال آفس میں بیٹھے بیٹھے اس نے پہلے ڈرائیور سے گاڑی کی چابھی لی اوردھمکی دیتے ہوئے کہا کہ تمھارا ایسا خروج لگاؤں گا کہ کبھی سعودیہ کا منہ نہیں دیکھ پاؤ گے اور شادی تو دور کی بات ہے یہ جو سکون سے کما کھا رہے ہو سب دھرا کا دھرا رہ جائے گا۔ جب اپنے ملک پہنچ جاؤ گے تب تمھیں اس نعمت کی قدر سمجھ میں آئےگی۔ پھر سیکورٹی والوں کو بلا کر کہا کہ اسے کالج کے باہر پھینک کر آؤ اور کبھی ادھر آنا چاہے تو آنے مت دینا اور ہاں تم اب کبھی میرے گھر کی طرف رخ بھی مت کرنا ورنہ پولیس کے حوالہ کردوں گا۔ یہیں سے ہمارا تمھارا تعلق ختم سمجھو۔
اب یہ صاحب رونے گڑگڑانے لگے اور مجھ سے کہنے لگے کہ کسی طرح اس کو سمجھائیں۔ اس وقت وہ اس قدر غصہ میں تھے کہ میں بھی خاموش ہوگیا۔
مجھے گاڑی کی چابھی دی اور کہا کہ تم یہ گاڑی لے لو اور میں اپنی گاڑی سے چلتا ہوں۔ چونکہ یہ میرے نام سے ہے اس لیے اسے گھر پر کھڑی کردیتا ہوں۔ اسے اس کا پیسہ دے دوں گا۔
گھر پہنچ کر ہم نے گاڑی کھڑی کی۔ پھر وہ مجھے کالج چھوڑنے آئے تاکہ میں اپنی گاڑی لے لوں۔ راستے میں مجھ سے کہا کہ اس نے تو میری شرافت کا بہت غلط فائدہ اٹھا لیا۔ واللہ میں اس کا رزق نہیں کاٹنا چاہتا۔ مگر اب اس کا کیا کرنا ہے؟ مجھے مشورہ دو۔
میں نے کہا ابھی آپ بہت غصہ میں ہیں۔ کوئی فیصلہ نہ کریں۔ تین دن انتظار کر لیں۔ سوچ لیں۔ تین دن بعد جو آپ کا دل کہے گا کر لیجیے گا۔
مجھے یقین تھا کہ تین دن بعد جب یہ شانت ہوں گے تو سب کچھ بدل جائےگا۔
تین دن بعد میں نے فون کرکے ہنستے ہوئے پوچھا: كيف حال فلان؟ کہنے لگے: انت الذي كنت تقول: سامحه سامحه، أعطه فرصة أخيرة. خلاص سامحناه.
اس طرح انھوں نے اسے پھر معاف کردیا۔
مگر مجھ سے کہا کہ اسے دو باتیں اچھی طرح سمجھا دو۔
پہلی بات اپنا سامان وغیرہ میرے گھر سے اٹھا لے اور اپنا کہیں اور انتظام کرلے۔ اب اس کا یہاں رہنا کسی طرح مناسب نہیں ہے۔
دوسری بات آپ اسے سمجھائیں کہ یہ اس بوڑھی خادمہ سے شادی کرکے کیا پائے گا؟ یہ ابھی جوان ہے۔ اس کے ماں باپ زندہ ہیں۔ جاکر اپنے ملک میں اپنے ہم وطن سے ان کے سامنے شادی کرے۔ انھیں خوشیوں میں شریک کرے۔ یہ شادی ہے۔ کوئی کھیل نہیں ہے۔ اس خادمہ سے اگر شادی کرلیا تو بہت پچھتائے گا۔
یہ کوئی اکلوتا واقعہ نہیں ہے۔ کفیلوں کی خادماؤں سے چکر چلانا، انھیں بھگا لے جانا، ان کا کام چھڑا کر کہیں اور سیٹ کرادینا، ان سے حتى المقدور ناجائز اور غیر قانونی استفادہ کرنا ، عمال طبقہ کی کہانیوں میں ایک عام کہانی ہے۔ بس موقع مل جائے ۔ وقت ساتھ دے دے اور فائدہ مل رہا ہو تو پھر آگے کیا ہوگا پرواہ نہیں۔
مدینہ منورہ میں ہمارے ایک نہایت موقر اور مقتدر استاذ تھے۔ ایک دن ڈیپارٹمنٹ میں کچھ غمگین بیٹھے تھے۔ میں نے کریدا تو یہ افسوس ناك کہانی سامنے آئی۔
انھوں نے حال فی الحال میں اپنا شاندار بنگلہ بلکہ قصر بنوایا تھا۔
ہوا یوں کہ جب انھوں نے اپنا یہ شاندار بنگلہ بنوایا تو اس کی دیواروں پر پانی مارنے کے لیے ایک عامل سے بات کی جو ٹینکر چلاتا تھا۔ بڑے ہی کریم اور خوش خلق آدمی تھے۔ اس سے کہا دیکھو اس کی دیواروں پر اتنے دنوں تک روز میٹھا پانی مارتے رہو۔ فیاض انسان تھے۔ جتنے پیسے کا وہ مستحق تھا اس سے زیادہ اسے پیشگی ادا کر ديا۔
کچھ دنوں بعد دیواروں کا اوپری حصہ پھٹنے لگا تو انھیں بہت تشویش ہوئی۔ کسی تجربہ کار سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ اس کی دیواروں پر کھارا پانی مارا گیا ہے۔
اس عامل کو بلایا۔ تفتیش کی تو اس نے اعتراف کیا کہ پیسہ بچانے کے لیے اس نے کھارا پانی مار دیا تھا۔
استحقاق سے زیادہ پیسہ پانے کے باوجود اس نے یہ حرکت کی تھی۔ استاذ محترم کا بہت بھاری نقصان ہوا تھا۔ نئے نئے بنگلے کی دیواروں کا اوپری حصہ جگہ جگہ سے پھٹ گيا تھا۔
مگر جوابا انھوں نے کیا کیا؟
یہ بھی سن لیں۔
میں کہا: شیخ پھر آپ نے کچھ کیا نہیں؟
کہنے لگے: واللہ مسکین ایش أسوی؟ (واللہ یہ بیچارہ غریب آدمی ہے اس کے ساتھ کیا کروں؟)چنانچہ آپ نے اسے معاف کردیا۔
شاید ایسے ہی معاملات کی وجہ سے بعض سعودیوں کے یہاں مشہور ہے کہ ان عمال سے اچھا سلوک کروگے تو چالاکی دکھائیں گے۔ اچھے سے کام نہیں کریں گے۔ سختی سے پیش آؤ گے تو ڈھنگ سے کام کریں گے اور نقصان کرنے سے ڈریں گے۔ اس لیے انھیں منہ مت لگاؤ۔ کام لو اور چلتا کرو۔
ایک دن ہم ایک فارم ہاؤس گئے۔ کفیل نے وہاں بہترین بیٹھک بنانے کے ساتھ ساتھ کثیر تعداد میں بکریاں اور کچھ دیگر جانور بھی پال رکھے تھے۔ وہاں پر کام کرنے والا عامل شکایتیں کرنے لگا۔ کہنے لگا کفیل مجھے تنخواہ نہیں دیتا ہے۔ ہم نے استفسار کیا: تو پھر آپ کا کام کیسے چلتا ہے؟حکیم عامل کہنے لگا : جب پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے ایک بکر ی بیچ لیتا ہوں۔ ہم نے پوچھا کفیل کو پتہ نہیں چلتا؟ اسے کیا جواب دیتے ہو؟ کہنے لگا اگر جان گیا اور پوچھ لیا تو کبھی کہہ دیتا ہوں مرگئی۔ کبھی کہہ دیتا ہوں بھیڑیا اٹھا لے گیا۔
ایک طرف بندہ اس کی بکریاں بھی چوری چوری بیچ رہا ہے۔ دوسری طرف تنخواہ نہ ملنے کی شکایت بھی کر رہا ہے۔ عدل وانصاف کا خوگر یہ حکیم عامل پتہ نہیں بکریوں اور تنخواہ میں بیلینس بنا کر چل رہا تھا یا موقع محل کے حساب سے کام چلا رہا تھا۔
مدینہ منورہ میں ہم جس بلڈنگ میں رہتے تھے اس کے گراؤنڈ فلور پر ایک لانڈری کھلی۔ اس میں کام کرنے والا ایک اتّر بھارتی تھا۔ اس کی تنخواہ غالبا آٹھ سو یا ہزار ریال تھی۔ اسی میں اس کا کھانا پینا بھی تھا۔ وہ پابندی سے ہر ماہ دو ماہ پر اپنی تنخواہ سے زیادہ رقم بھیجتا۔ پیسہ بھیجنے میں اسے کسی وجہ سے پریشانی ہوتی تھی اس لیے ہمارے ایک دوست کے ذریعہ بھجواتا تھا۔ جب بار بار انھوں نے محسوس کیا کہ یہ پیسہ اپنی آمدنی سے زیادہ بھیجتا ہے جبکہ لانڈری میں کام کرنے کی وجہ سے یہ کہیں باہر بھی کام نہیں کر سکتا تو ایک دن انھوں نے اس سے پوچھ ہی لیا کہ تم اتنے پیسے کہاں سے لاتے ہو؟ جواب تو نہیں دے سکا مگر اسی دن سے اس نے ان کو پیسے دینا بند کردیا۔
ہم لوگوں کے لیے بھی آسانی تھی تو کبھی کبھار کپڑے دھلوا لیے۔ کبھی رومال پریس کروالیے۔ مجھے بارہا محسوس ہوتا کہ یہ ہم سے متعدد دفعہ ڈبل ڈبل پیسے وصول کرلیتا ہے۔ کبھی بچے کپڑے لے جاتے تو کہتا پیسہ دےکر نہیں گئے ہیں۔ جبکہ وہ کہتے کہ پیسے دے آئے ہیں۔ کبھی ہمی سے کہہ دیتا کہ اس دن آپ پیسہ دینا بھول گئے تھے۔ کئی بار شک ہوا۔ ٹوکتے تو کہتا آپ بھول گئے ہیں۔ یہ سوچ کر کہ ممکن ہے بھول ہی گئے ہوں بحث نہیں کرتے۔ پھردو چار دس ریال کے لیے جھنجھٹ کون کرے لہذا جتنا بتاتا ادا کردیتے۔
جب میرا پی ایچ ڈی کا مرحلہ مکمل ہوگیا اور میں وطن واپسی کرنے لگا تو ساتھیوں اور دوستوں کے ساتھ ساتھ محلے میں کام کرنے والے عمال سے بھی خصوصی ملاقات کی اور معافی تلافی کی کہ مبادا ان کے حق میں کوئی غلطی ہوگئی ہو۔ اس بندہ سے بھی ملا اور کہا کہ کوئی غلطی وغیرہ ہوئی ہوگی تو معاف کیجیے گا۔ جوابا اس مہا پروش نے عرض کیا: بھائی صاحب میں نے آپ سے بہت ناجائز پیسے وصول کیے ہیں۔ کئی بار میں آپ سے ڈبل ڈبل پیسے لے لیتا تھا۔ معاف کردیجیے گا۔ غور کریں اس نے کتنوں کے ساتھ ایسا کیا ہوگا؟ اور کتنوں سے اسے معافی مانگنے کا موقع ملا ہوگا؟
گلّہ سے چوری کا یہ مسئلہ کوئی نادر اور اچھوتا مسئلہ نہیں ہے۔ لانڈری دوکان بقالہ قرطاسیہ جہاں بھی اس طرح کی چھوٹی بڑی تجارتی جگہیں ہوتی ہیں جن کے کیشیئر عمال کا یہ طبقہ ہوتا ہے اور وہاں نگرانی کا کوئی سٹیک نظام نہیں ہوتا ،ان کی ایک بڑی تعداد دھڑلے سے چوریاں کرتی ہے۔ بلکہ بسا اوقات اسے حلال یا بالکل مباح سمجھ کر کرتی ہے۔ ان کی تنخواہیں عموما ہزار سے دو ہزار ریال کے درمیان ہوتی ہیں مگر آمدنی دوکان کے اعتبار سے ہزاروں ریال ہوتی ہے۔ ایسے عمال اپنے ملکوں میں بھاری بھرکم حرام کی پراپرٹیاں بناتے ،قیامت تک کے لیے اپنی آل وادلاد کے لیے حرام کا انتظام کرتے اور اپنے لیے بد ترین صدقہ جاریہ کا انتظام کرتے ہیں۔ ہم ذاتی طور سے ایسے کئی افراد کو جانتے ہیں جو اگر اپنی حلال تنخواہ پر اکتفا کرتے تو بمشکل اپنا گھر چلا پاتے۔ اپنے اہل وعیال کی بمشکل ضرورتیں پوری کر پاتے۔ مگر وہ ہر سال دو سال پر لاکھوں کی پراپرٹیاں خریدتے اور اسے فخر سے بیان کرتے تھے۔
پھر ایسے افراد کو یہ شکایت بھی ہوتی ہے کہ بچے برباد ہورہے ہیں۔ بیوی بے راہ روی کا شکار ہے۔ پیسہ سب گھر والے بے رحمی سے اڑا رہے ہیں۔ برکت نہیں ہو رہی ہے۔ جبکہ یہ عموما حرام مال کی فسوں کاری ہوتی ہے جسے حلال سمجھ کر خوب دھڑلے سے جمع کیا جاتا ہے۔
مدینہ منورہ سے بوجوہ ایک قلبی لگاؤ ہے۔ عمر کا کریم مرحلہ وہاں گزارنے کی وجہ سے ایک عجیب سی انسیت ہے۔ جب بھی موقع ملتا ہے زیارت سے شرف یاب ہو لیتے ہیں۔ طالب علمی کے زمانے میں ہم اور ہمارے کئی احباب قبلتین میں موجود جامعہ کی طرف سے متوفر بلڈنگ میں رہتے تھے۔ ہماری فراغت کے بعد اتفاق سے ہمارے برادر نسبتی کو بھی اس بلڈنگ میں گھر ملا تھا جو پی ایچ ڈی کر رہے تھے۔ جب مدینہ جاتے تو عموما انھی کے یہاں ٹھہرتے۔ بڑی انسیت کا احساس ہوتا۔
اس بلڈنگ کے گراؤنڈ فلور پر ایک اے سی ٹیکنیشین کی دوکان ہے۔ اس نے اپنی سہولت کے لیے دوکان کے سامنے ایک پارکنگ قبضہ کر رکھی ہے۔ ایک رات میں تاخیر سے واپس آیا تو یہ بندہ دوکان بند کرکے جا رہا تھا۔ میں انتظار کرنے لگا کہ وہ گاڑی نکالے تو میں اپنی گاڑی لگادوں۔ اس نے جب دیکھا کہ میں انتظار کر رہا ہوں تو آکر مجھ سے کہنے لگا کہ یہ میری پارکنگ ہے آپ کہیں اور گاڑی لگادیں۔ میں نے کہا ساری پارکنگ فل ہے۔ آپ ویسے بھی دوکان بند کرکے جا رہے ہیں۔ کل دس بجے تک آپ آئیں گے تب تک میں گاڑی یہاں سے ہٹا لوں گا۔ پڑوسی ملک کا بندہ تھا۔ وہ بھی پنجابی۔ اتنی آسانی سے کہاں مانتا۔ جب میں نے اس کی ضد دیکھی تو ذرا سنجیدگی سے سمجھایا کہ بھائی صاحب اس بلڈنگ میں ایک سو دس فلیٹ ہیں۔ جبکہ اس کے ارد گرد بمشکل پچاس گاڑیوں کی پارکنگ ہے۔ اگر ہر طالب علم ایک ایک پارکنگ قبضہ کرنے لگے تو کیا حالت بنے گی۔ طلبہ تو بہر حال آپ سے زیادہ قبضہ کے مستحق ہیں۔ مگر وہ تو ایسا نہیں کرتے۔ کہنے لگا میں نے بلڈنگ کے سپر وائزر سے اجازت لے رکھی ہے۔ بلڈنگ کے سپر وائزر کے انڈر میں ہم دس سال سے زیادہ اسی بلڈنگ میں رہ چکے تھے۔ اسے اچھی طرح جانتے تھے۔ وہ کسی کو اس طرح کی اجازت نہیں دے سکتے تھے۔ اور بہت سے دوکان والے تھے۔ کسی نے اس طرح پارکنگ پر قبضہ نہیں کر رکھا تھا۔ میں نے تھک ہار کر کہا: میں گاڑی یہیں لگاؤں گا۔ آپ کا دل کہے تو سپروائزر سے شکایت کردیں۔ البتہ کل صبح آپ کی دوکان کھلنے سے پہلے میں گاڑی یہاں سے نکال لوں گا۔ جب اس نے میرى سنجیدگی دیکھی تو چپ چاپ وہاں سے چلا گیا۔ میں نے گاڑی پارک کردی اور حسب وعدہ صبح دوکان کھلنے سے پہلے ہی گاڑی ہٹا لیا۔ دوسری رات میں جب واپس آیا تو اس کی دوکان کھلی ہوئی تھی۔ سامنے کی پارکنگ میں اس کی گاڑی کھڑی تھی اور ٹھیک اس کے بائیں طرف کی پارکنگ خالی تھی۔ میں نے اس سے کہا: بھائی صاحب اس بغل والی پارکنگ میں گاڑی لگانے سے آپ کو کوئی تکلیف تو نہیں ہوگی؟ کہا نہیں۔ میں نے گاڑی لگا دی۔ دوسرے دن ظہر سے قبل جب میں کہیں جانے کے لیے نیچے اترا تو کیا دیکھتا ہوں گاڑی کا دایاں سائڈ سفید پینٹ سے اسپرے کردیا گیا ہے اور سامنے کا نمبر پلیٹ بالکل مٹا دیا گیا ہے۔
کچھ دنوں قبل میں کسی کام سے ایک دوکان پر گیا۔ دوکان کے پاس گاڑی کھڑی کرنے لگا تو بغل کی دوکان میں کام کرنے والا عامل کہنے لگا یہاں گاڑی مت لگائیں کہیں اور لگالیں۔ میں نے کہا دو منٹ کا کام ہے۔ جس دوکان میں کام ہے اسی کی حد میں گاڑی لگا رہا ہوں۔ آپ کو کیا پریشانی ہے؟ کہنے لگا نہیں دوسری طرف لگالیں۔ میرا کفیل ناراض ہوتا ہے۔ میں نے گاڑی روکی۔ اس کے ساتھ ایک سعودی بھی کھڑا تھا۔ پاس جاکر میں نے کہا کہ اگر یہی گاڑی یہ بھائی صاحب پارک کرتے تو تم منع کرپاتے؟ میں عربی میں بات کر رہا تھا۔ وہ سعودی ہنسنے لگا۔ پھر میں نے ان حضرت سے اردو میں کہا کہ یہ بہت گندی حرکت ہے۔ تم لوگ اپنے ہم وطنوں اور ہم زبانوں کے ساتھ بد تمیزیاں کرتے ہو۔ انھیں فضول قسم کا قاعدہ قانون سکھاتے ہو۔ جبکہ یہی حرکت تم سعودیوں کے ساتھ نہیں کرسکتے۔
یہ بہت کڑوی حقیقت ہے۔ یہ طبقہ سعودیوں کا جوتا اٹھا لے گا مگر اپنے ہم وطنوں کی ٹوپی اٹھانے میں عار محسوس کرے گا۔ ایسے لوگ در اصل اخلاق سے عاری ہوتے ہیں۔ چاہے جوتا اٹھائیں یا ٹوپی سب خوش اخلاقی کے بجائے مجبوری میں کرتے ہیں۔ اسی لیے موقع ملنے پر طرح طرح سے اپنا فرسٹریشن نکالتے ہیں۔
دور طالب علمی ہی میں مدینہ میں ہمارا ایک نائیجیرین ساتھی ایک بار ایک بقالہ والے کی کہانی سنانے لگا کہ اسے کفیل بہت گالیاں دیتا تھا۔ مگر جوابا وہ کبھی کچھ نہیں کہتا۔ بالکل چپ رہتا۔
ایک دن ایک گراہک نے جو یہ سب کبھی کبھی دیکھتا تھا اس حلم کا راز یہ کہہ کر پوچھ ہی لیا کہ میں دیکھتا ہوں تمھارا کفیل تمھیں اتنی گالیاں دیتا ہے مگر تم کچھ نہیں بولتے۔ آخر تم جواب کیوں نہیں دیتے؟ اس پر اس فقیہ عامل نے جواب دیا: خل کفيل سبّ۔ انا ما فی سبّ۔ كلّ سب انا شيل خمسة ريال(کفیل کو گالی دینے دو۔ میں گالی نہیں دوں گا۔ میں بس ہر گالی کے بدلے پانچ ریال گلے سے نکال لیتا ہوں)
یہ وہ چھوٹے چھوٹے واقعات اور جرائم ہیں جن میں سے بعض روزانہ سیکڑوں کی تعداد میں پیش آتے ہوں گے۔ وہ حوادث و واقعات جو ان سے بھی سنگین ہیں یا جو باوجوہ لکھے نہیں جا سکتے وہ ان کے علاوہ ہیں۔
قتل وخونریزی، فساد فی الارض، فحاشی ، شراب کی سپلائی ، بھکاریوں کی ریکٹنگ اور منی لانڈرنگ وغیرہ ایسی بد اعمالیاں ہیں جن میں عمال کا یہ طبقہ آپ کو ایک بڑی تعداد میں ملوث ملے گا۔ یہی وہ طبقہ ہے جو اپنے بھائیوں کو کتے اور بلی تک کا گوشت بیچتے ہوئے پکڑا جاتا ہے۔
وہ افراد جو غیر قانونی طور سے نوکری یا کاروبار کرکے پیسہ کماتے اور ملک کے اقتصاد پر منفی اثر ڈالتے ہیں وہ اس پر مستزاد ہیں۔ ایسے افراد ہزاروں کی تعداد میں آپ کو مل جائیں گے جو آئے تو کسی اور کام سے ہیں مگر کر کچھ اور رہے ہیں۔
اگر ان میں ایسے افراد کو بھی شامل کر لیا جائے جو اپنے قانونی عمل کے ساتھ ساتھ کچھ نہ کچھ دیگر کمائی کا وہ ذریعہ بھی اختیار کیے ہوئے ہیں جو غیر قانونی اور غیر آئینی ہے تو ان کی اجمالی تعداد لاکھوں تک پہنچے گی۔ اس پوری تعداد میں عمال کا یہ طبقہ ایک محتاط اندازے کے مطابق پچاس فیصد سے زائد ملوث ملے گا۔
وہ افراد جو غیر قانونی طور سے کاروبار کرکے لاکھوں کروڑوں کما رہے ہیں۔ جو نظام کی باقاعدہ مخالفت کرکے بھاری بھرکم آمدنی کے حصہ دار بنتے پھر اسے غیر قانونی طور سے اپنے ملکوں میں منتقل کرتے ہیں ان کی تعداد الگ ہے۔
وہ عمال جو زیادہ پیسہ کمانے یا کسی اور سبب سے کفیلوں سے بھاگ کر دوسری جگہ کام کرتے ہیں ان کی تعداد الگ ہے۔ ایسے ایسے عمال ہیں جو باقاعدہ اپنے ملک ہی سے پلان بنا کر آتے ہیں۔ پہلے کفیل کے پاس کام اور زبان سیکھتے ہیں۔ کفیل کے خرچے پر اقامہ بنواتے ہیں۔ پھر سیٹنگ کرکے خاموشی سے کہیں اور نکل جاتے ہیں۔
ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ سب کے سب گورنمنٹ کی نگاہوں سے بالکل اوجھل ہوتے ہیں۔ اصلاح کا عمل جاری رہتا ہے۔ گورنمنٹ حتى الامکان انھیں چھوٹ دیتی یا اپنے اولیات کے اعتبار سے صبر کرتی ہے۔ اصلاح کی خاطر باقاعدہ عفو عام کا اعلان کیا جاتا ہے۔ مواقع دیے جاتے ہیں۔ تاہم ایک بڑی تعداد توبہ وانابت یا رجوع کرنے کے بجائے اپنی روش پر قائم رہتی ہے۔
آپ ان کے محلوں میں چلے جائیں۔ دیکھتے ہی اندازہ ہوجائے گا کہ یہ برصغیر کے عمال کا ٹھکانہ ہے۔ وہی گندگی، وہی طرز سکونت، وہی کھانے پینے کاطریقہ، وہی ممنوع و مکروہ چیزوں کی بیع وشراء اور استعمال۔ لگے گا یہ کوئی خلیجی ملک نہیں برصغیر کا کوئی پسماندہ علاقہ ہے۔ ہر بڑے شہر میں ایسے دو چار علاقے آپ کو بآسانی مل جائیں گے۔
کہتے ہیں:کلّ ُّغریبٍ للغریبِ نسیبُ( ایک اجنبی دوسرے اجنبی کا دوست اورقریبی ہوتا ہے) دو ہم وطن کسی دوسرے ملک میں مل جائیں تو ایسا محسوس ہوگا کہ وہ قرابت دار ہیں۔ بھلے ہی اپنے ملک میں ان کے درمیان کا فاصلہ سیکڑوں کیلو میٹر پر محیط ہو۔ آپس میں کوئی سابقہ تعلق اور کسی قسم کی رشتہ داری نہ ہو۔
مگر اس طبقے کی خست اور کم ظرفی کا ایک اور پہلو جو بہت واضح طور سے محسوس کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ اگر کسی دوکان، شاپنگ سینٹر، تجارتی محل پر یہ طبقہ گراہک ڈیل کر رہا ہو اور اس کے سامنے سعودی اور اس کا کوئی ہم وطن دونوں ہوں تو یہ اپنے ہم وطن کی طرف جلدی دیکھے گا بھی نہیں بھلے ہی وہ اولویت کا مستحق ہو۔ اگرچہ سب ایسا نہیں کرتے مگر ایک بڑا طبقہ ایسا ہی کرتا ہے اور یہ چیز اس پیمانے پر ہوتی ہے کہ محسوس کی جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب مرعوبیت کے اس درجے پر آپ نے خود اپنی ذات کو فائز کر دیا ہے تو پھر دونی تعامل سے اس قدر شکوہ کیوں؟ جب آپ نے خود سامنے والے کی نگاہ میں اپنا ایک مقام طے کردیا ہے تو پھر منفی رد عمل پر اس قدر واویلا کیوں؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت سارے اچھے ، ايماندار اور بااخلاق و باكردار عمال بھی ہوتے ہیں جو اپنے خون پسینہ سے رزق حلال کماتے ہیں۔ حرام سے بچتے اور بد خلقى سے گریز کرتے ہیں۔ انھیں دیکھ کر خوشی کا احساس ہوتا ہے۔ ان کے صبر وشکر کا جذبہ دیکھ کر رشک آتا ہے۔ ان کے چہروں کی چمک ان کے حسن عمل اور حسن کردار کی غماز ہوتی ہے۔ صبر وشکر کے یہ خوگر ہر عمل میں ایک اچھی تعداد میں پائے جاتے ہیں جو اپنے ہم وطنوں کی نیک نامی اور ان کے تئیں حسن ظن کا سبب بنتے ہیں۔ ان کے گھروں میں برکت ہوتی ہے۔ بچے کامیاب ہوجاتے ہیں۔ آزمائشوں کے باوجود ان کی زندگی سعادت سے معمور ہوتی ہے۔ ایسے بھی نیک بخت بہت ہیں۔ مگرتصویر کا وه رخ جاننا بھی کبھی کبھی ضروری ہوجاتا ہے جسے جانے بغیر کسی کے تئیں حتمی رائے قائم کرنا اور درست فیصلہ سنانا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔
خود ان کے اپنے ملکوں میں ان عمال کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے اور بدلہ میں کیا ملتا ہے؟ ہم سب جانتے ہیں۔ جس ہنر اور پیشہ سے یہ خلیجی ممالک میں ماہانہ بیس تیس ہزار بآسانی کما لیتے ہیں اپنے ملک میں بسا اوقات کھانے کو ترس جائیں۔
دوسری طرف سعودیوں کے ان عمال پر ناقابل یقین حد تک احسانات بھی ہیں جن کا ایسے مواقع پر ذکر تک نہیں کیا جاتا اور ان سے مکمل چشم پوشی کی جاتی ہے۔ کتنے ایسے سعودی ہیں جو اپنے عاملوں اور ان کے گھروں میں موجود افراد کی شادیوں تک میں مدد کرتے ہیں۔ گھر جاتے وقت ان کے گھر والوں کے لیے بھاری بھرکم تحائف تک خرید کر دیتے ہیں۔ اپنے ساتھ بٹھا کر کھلاتے ہیں۔ ان کی گھریلو پریشانیوں پر دلاسہ دیتے اور بھرپور مدد کرتے ہیں۔ بسا اوقات گھر تک خریدنے اور بنانے میں مدد کرتے ہیں۔ ان کے بچوں کی تعلیم میں خاطر خواه تعاون کرتے ہیں۔
ان کو دین سکھلاتے اور دین کا پابند بناتے ہیں۔ ان کی دینی رہنمائی کے لیے ان کی مادری زبان میں کتابیں مہیا کراتے ہیں۔
مسلسل ہم سے رابطہ کرکے اپنے عمال کے لیے اس طرح کی کتابیں طلب کی جاتی ہیں۔ ایک بار ایک سعودی نے مجھ سے رابطہ کرکے کہا کہ میرے عامل کے لیے ایک داعی تلاش دو جو اسے دین کی بنیادی باتیں سکھلادے۔ میں اسے باقاعدہ اس کی اجرت دوں گا۔ یہ بے چارہ دین سے بالکل نابلد ہے جس پر بہت افسوس ہوتا ہے۔ بھلا کسی کے ساتھ اس سے بڑی خیر خواہی کیا ہو سکتی ہے کہ آدمی اس کے آخرت کی فکر کرے؟
جب میں مدینہ منورہ میں تھا ایک سے زائد بار کسی سعودی کا فون آیا کہ میرے عامل کا لڑکا اپنے وطن میں پڑھ رہا ہے۔ اس سے بات کرکے اس کی رہنمائی کردو۔ اس کے بچے کا جامعہ اسلامیہ میں داخلہ کرانا ہے۔ غرضیکہ ان کے تعاون کی ایسی بے شمار شکلیں ہیں جو وہ للہ فی اللہ کرتے ہیں۔
اپنے کالج میں اکثر دیکھتا ہوں کہ کوئی طالب علم پانی خرید رہا ہے۔ بغل میں کوئی عامل کھڑا ہے تو اسے بھی خرید کر دے دیا۔ سینڈوچ کھا رہا ہے کوئی عامل سامنے آگیا تو اسے پکڑا دیا ۔
گرمیوں میں بکثرت دیکھا جاتا ہے سعودی اپنی گاڑیوں میں پانی کی بوتلیں لے کر نکلتے ہیں۔ راستے میں ملنے والے عاملوں کو بانٹتے جاتے ہیں۔ بھیڑ کی جگہوں پر ٹھنڈے پانی کے کارٹون رکھ دیتے ہیں تاکہ لوگ پیاسے نہ رہیں۔ مسجدوں میں تو یہ چیز بالکل عام ہے۔
سعودی پانی پلانا بڑے ہی ثواب کا کام سمجھتے اور اسے مختلف انداز میں بڑے ہی اہتمام سے کرتے ہیں۔ مساجد اس کام کے لیے اہم مراکز ہیں۔ اس لیے بھی کہ یہ خصوصی طور سے نمازیوں کے لیے ہوتا ہے۔ چنانچہ ادھر گرمی کا موسم شروع ہوا ادھر مسجدوں میں پانی کے باکس اترنا شروع ہوگئے۔
الشیء بالشیء یُذکر! مساجد میں رکھے پانی کے یہ بوتل عموما نصف ریال یا اس سے بھی کم کے ہوتے ہیں۔ جس نمازی کو پیاس کی شدت محسوس ہوئی فریج سے ایک بوتل نکال کر پی لیتا ہے۔ یا بسا اوقات ہاتھ میں لے لیتا ہے اور باہر جاکر پی لیتا ہے۔ مگر ہمارے برصغیر کے عمال کا ایک طبقہ ذرا الگ ہے۔ اس کا رویہ وہی برصغیر والا ہوتا ہے۔ یہ ہر جگہ اپنا ماحول بڑی آسانی ، بڑی ڈھٹائی یا بڑی بے شرمی سے بنا لیتا ہے۔ اسے ضرورت ہو نہ ہو کم از کم دو بوتل ہاتھ میں لے کر چل دے گا۔ یقینا سب ایسا نہیں کرتے مگر جو ایسا کرتے ہیں ان کا اکثر نمازوں میں یہی معمول ہوتا ہے۔ یہ پانی لے جاکراپنے روم پر جمع کرتے ہیں اور وہاں حسب ضرورت استعمال کرتے ہیں۔نصف ریال یا اس سے بھی کم کا پانی اگر انسان خریدنا چاہے تو کتنے پیسے درکار ہوں گے؟ مگر پھر وہ بر صغیر والى فیلنگ اور مفت میں ملنے والى چیزوں کا خصوصی فلیور کہاں مل پائے گا؟ ممکن ہے بہت سارے لوگوں کو یہ کوئی معمولی اور بالکل نارمل حرکت لگے۔ مگر حقیت یہ ہے کہ یہ کہیں نہ کہیں ہمارا امیج بگاڑتی ہے۔ جب ہمیں یہ چیز ناگوار لگتی اور ایسی حرکتوں پر شرمندگی محسوس ہوتی ہے تو دیگر لوگوں خاص طور سے سعودیوں کو بھی یقینا لگتی ہوگی۔ ان ناروا حرکتوں کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ میں نے بعض مساجد میں دیکھا باقاعدہ لکھ کر ہدایت کر دی گئی ہے کہ آپ صرف ایک بوتل پانی لیں اور اپنے دیگر بھائیوں کا بھی خیال رکھیں۔ کتنے افسوس کا مقام ہے کہ جہاں اس طرح کے اعلانات کا تصور تک نہیں تھا اب وہاں بھی ہمارے ان بھائیوں کی وجہ سے ایسے اعلانات لگائے جاتے ہیں۔
اس طرح کے نیک اعمال ان کے لیے بہت سادھارن اور فطری اعمال ہیں جو ان کی عام زندگی میں ایسے داخل ہیں جیسے زندگی سے جڑا کوئی لازمی کام۔ ہم نے متعدد بار دیکھا کسی ملک میں کوئی پریشانی پیش آئی۔ حکومت نے تعاون کا اعلان کیا۔ ہفتہ بھر میں کروڑوں جمع ہوگئے۔ ترکی میں زلزلہ آیا۔ جمعہ کے خطبوں میں انفاق پر ابھارا گیا۔ چند ہی دنوں میں لاکھوں کروڑوں جمع ہوگئے۔ فلسطین کے لیے مدد کا اعلان ہوا ۔ ہفتہ بھر میں اربوں جمع ہوگئے۔ بسا اوقات کسی مد میں تعاون کا اعلان ہوتا ہے۔ عوام اس قدر حصہ لیتی ہے کہ پھر دوبارہ اعلان کرنا پڑتا ہے کہ مطلوبہ رقم پوری ہوگئی ہے۔ لہذا تعاون روک دیا جائے۔
چونکہ گفتگو کا محور سعودی عوام ہیں اس لیے انھی عوام کی بات ہو رہی ہے۔ ورنہ حکومت کی تو بات ہی الگ ہے۔ سعودی حکومت نے عالمی سطح پر اسلام اور مسلمانوں کی جو بے نظیر خدمات کی ہیں ان کا پوری اسلامی تاریخ میں ایک الگ ہی مقام ہے۔
توحید کی نشر واشاعت، قرآن کریم، اس کے معانی کے ترجمے اور تفاسیر کی طباعت واشاعت،حرمین شریفین کی خدمات، حجاج ومعتمرین کے لیے سہولیات، پوری دنیا کے ہزاروں مسلمان طلبہ کو فری تعلیم، عمال اور دیگر وافدین کی مفت تعلیم وتربیت، پوری دنیا میں مساجد، مراکز اور دعوتی سینٹروں کی تعمیر، دنیا بھر میں دعاۃ کی تعیین اور کفالت، صحیح عقیدہ کا دفاع اور اعدائے اسلام کی سرکوبی، عالم اسلام میں موجود بڑے بڑے مسائل کے حل میں کلیدی اور مخلصانہ کردار، آفات ومصائب میں اسلامی دنیا کی بھرپور مدد؛ جس اعلى ترین پیمانے پر یہ سارے عظیم کارنامے انجام دیے گئے ہیں ،عثمانی تو کیا، عباسی، مملکوکی اور اندلسی سطنتوں میں بھی ان کی نظیر نہیں ملتی۔
اس مبارک ملک اور توحید کے قلعے میں نیکی کرنے اور صدقہ وخیرات میں دلچسپی کا رواج عام ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچے بچیاں صدقہ وخیرات کرتے اور نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اپنے والدین کی طرف سے صدقہ جاریہ کا اہتمام کرتے ہیں۔ اگر یہ سب نہ ہوتا۔ ان کی طبیعت ایسی نہ ہوتی، تو بر صغیر میں مدارس، مراکز اور مساجد کا جو سیلاب آیا ہے وہ کیسے ممکن ہوتا؟ آخر کچھ تو ہے کہ اللہ تعالى نے دور دراز بسے اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کے لیے انھیں خصوصی طور سے منتخب کیا ہے۔
سعودی سعودی ہیں۔ ان کی عبادات، نیکیاں، خدا ترسی، فضل واحسان، حسن سلوک اور خیر خواہی بیان کرنے کے لیے مجلدات درکار ہیں۔ جن نيك اعمال کو ہم سوچ سوچ کر بڑے اہتمام سے کرتے ہیں وہ ان کی عام زندگی میں ایسے شامل ہیں کہ وہ انھیں بلا تکلف اور ارتجالا انجام دیتے رہتے ہیں۔
اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ وہ معصوم ہیں۔ ان سے بھی غلطیاں ہوتی ہیں۔ ہر معاشرہ کی طرح ان میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جن کے تعامل سے تکلیف ہوتی ہے۔ انا کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ دل کو چوٹ لگتی ہے۔ خودداری کو زخم لگتا ہے۔ اجنبیت کا احساس شدید تر ہو جاتا ہے۔
اجنبی انسان کہیں بھی ہو وہ بے وزن سا ہوتا ہے۔ ایک باشعور اور حساس انسان غربت میں ہو تو اس کا ایک احساس ہمیشہ اس کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس پر مزید کوئی ناروا سلوک اس کے ساتھ ہوجائے تو مار دوہری لگتی ہے اور جس بات سے اپنے وطن میں اس کے احساس کو خراش بھی نہ لگے وہ اس کے دل کو چیر دیتی ہے۔
کیا ہمارے ملک میں یہ سب نہیں ہوتا؟حکومت سے لے کر عوام تک عمال اور مزدوروں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں؟ ابھی چند سالوں پیشتر کورونا کے موقع پر کیا ہوا؟ ساری دنیا نے حیوانیت کا ایک الگ ہی معیار کا ننگا ناچ دیکھا۔ بھارت کی زمین مزدوروں کی کوہ پیمائی سے شرمندہ شرمندہ تھی۔ ان کا خون اور پسینہ دونوں مسلسل بہہ رہا تھا۔ بھوک اور پیاس سے نڈھال بے چارے لٹے پٹے بچوں سمیت اپنے بوجھ سروں پر لادے سیکڑوں کلو میٹر کا سفر پیدل طے کر رہے تھے۔ ان کا علاج ومعالجہ اور حفاظت تو درکنار ان کے گھر وں تک پہنچنے کا کوئی قابل قدر انتظام نہیں تھا۔ ایک عالم تھا جو بے بسی کی تصویر بنا ہوا تھا۔ بھارت کی ایسی دلخراش تصویر جو کورونا نے دکھائی تھی شاید ہی دنیا نے اور کبھی دیکھی ہو۔
دوسری طرف اس کے بالکل برعکس سعودی عرب میں شاہی فرمان جاری ہوا کہ اس سرزمین پر موجود سب کا علاج مفت کیا جائے گا۔ سب کو فری ٹیکے لگائے جائیں گے۔ شاہی فرمان میں اس بات کی خصوصی صراحت کی گئی کہ جو افراد بنا پرمیشن کے غیر قانونی طریقہ سے رہ رہے ہیں مصیبت کی اس گھڑی میں انھیں گھبرانے کی بالکل ضرورت نہیں ہے۔ سب کی طرح ان کا بھی علاج بالکل فری کیا جائے گا۔
ہمارے یہاں ایک ہی مذہب کے ماننے اور ایک ہی وطن میں رہنے والوں کے یہاں جو اونچ نیچ ، سوء تعامل اور ظلم وزیادتی کی مختلف انواع واقسام موجود ہیں، بلا مبالغہ اس کا عشر عشیر بھی یہاں نہیں ملے گا۔
پھر یہ کیسی عقلمندی ہوگی اور کہاں کا انصاف ہوگا کہ ان کی غلطیاں بیان کرتے وقت ہم ان کے ہمالیائی احسانات، ناقابل فراموش اوربے مثال خیر خواہیوں کو نظر انداز کرکے کفار ومشرکین کے جھانسوں اور صیہونی، کربلائی ، اخوانی، تحریکی اور مردودی میڈیا کی زد میں آجائیں؟
بڑا سیدھا سا سوال ہے: اگر ظلم وزیادتی کا وہی ریشو یہاں موجود ہے جو سوشل میڈیا پر موجود مافیا ہمیں دکھانا چاہتا ہے تو پھر برصغیر کے لاکھوں افراد یہاں کیسے موجود ہیں؟ ایک تسلسل کے ساتھ لوگ یہاں آنے اور کمانے کے لیے کیوں پریشان رہتے ہیں؟ یہاں صفائی ستھرائی اور چھاڑو پوچھا تک کرنے والوں پر بھی وہاں کے لوگ رشک وحسد کے ملے جلے جذبات سے کیوں نظر ڈالتے اور رسپانس دیتے ہیں؟ اگر یہ ملک مختلف طریقوں سے برصغیر کے عمال کی تعداد کم کرنے اور ان کی بڑھتی آبادی کو بیلنس کرنے کی مسلسل کاوشیں نہ کرے تو اللہ جانے کیا عالم ہو۔ یہ زمینی حقیقت ہے۔ مگر گینگ آف سوشل میڈیا کچھ اور ہی ثابت کرنے پر تلا رہتا ہے۔
بلا شبہ ظلم ظلمات ہے۔ کوئی بھی کرے اس کی کسی طرح تائید نہیں کی جا سکتی۔ اس کا کسی بھی طور سے دفاع نہیں کیا جاسکتا۔ مگر سکے کا دوسرا رخ جانے بغیر اس کے کھرا کھوٹا ہونے کا درست فیصلہ بھی نہیں کیا جا سکتا ، نہ ہی یکطرفہ گفتگو کبھی بھی نتیجہ خیز ہوسکتی ہے۔ ہاں اس سے دلوں کی گندگی ضرور باہر نکالی جا سکتی ہے۔
ان بے ضمیروں اور کم ظرفوں کا مسئلہ یہ ہے کہ بات ان کی مرضی کے خلاف ہو تو یہ جلدی کتاب و سنت کو بھی قبول نہیں کرتے۔ کوئی نہ کوئی بہانہ اور تاویل تلاش لیتے ہیں۔ تاہم بات اگر من کے موافق ہو تو کفار و مشرکین اور اسلام دشمن عناصر کی بنائی ہوئی فلمیں اور پھیلائی ہوئی افواہیں بھی نص کا درجہ پا جاتی ہیں۔ در اصل یہ پستی کی علامت ، فکرو شعور کے زوال کی دلیل اور سطحیت پر برہان اعظم ہے۔
ہماری دینی آوارگی اور اخلاقی بے راہ روی کا عالم یہ ہے کہ جب ہم اپنے لیے تولتے ہیں تو پیمانہ کچھ اور ہوتا ہے۔ مگر جب دوسروں کا حق ادا کرنے کے لیے وزن کرتے ہیں تو معیار کچھ اور ہو جاتا ہے۔ حق ادا کرنے اور حق طلب کرنے میں ہمارا معیار بالکل یکساں نہیں رہتا۔ اونچ نیچ اور کمی بیشی کا مسلسل شکار رہتا ہے۔
ناپ تول میں یہ کمی زیادتی، حق وصولنے اور حق ادا کرنے میں یہ عدم توازن درحقیقت مریض نفوس اور بیمار قوموں کا خاصہ ہے جو اب ہماری بھی پہچان بن چکا ہے۔
قرآن نے اس بشری کمزوری اور فکری مرض کی طرف نہ صرف اشارہ کیا ہے بلکہ اس پر شدید وعید بھی سنائی ہے اور بروز قیامت رونگٹے کھڑے کردینے والے اس موقف کا حوالہ دیا ہے جب لوگ اللہ رب العزت کے روبرو کھڑے ہوں گے: (ويل للمطففين* الذين إذا اكتالوا على الناس يستوفون٭ وإذا كالوهم أو وزنوهم يخسرون٭ ألا يظن أولئك أنهم مبعوثون* ليوم عظيم* يوم يقوم الناس لرب العالمين)
اللہ تعالیٰ ہمیں گفتگو میں عدل و انصاف کا خوگر بنائے، سچ کو سچ کی طرح کہنےاور حق کو حق کی طرح بیان کرنے کی توفیق دے ۔ آمین

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
Naeem Azhar

ماشاء اللہ بہت خوب