طبیعت میں لاابالی پن ہو تو بندہ دنیا میں ہر بھلائی سے محروم رہتا ہے، نظم و ضبط اور ترتیب و تنظیم ہر چھوٹے بڑے خیر کے حصول کے لیے ضروری شرائط میں سے ہیں۔ ساری عبادتیں بھی یہی درس دیتی ہیں خواہ وہ نماز ہو یا روزہ، زکوٰۃ ہو یا حج۔
تعلیم و تعلم میں اسی مقصد کو مد نظر رکھ کر درس گاہوں کے نصاب، نظام الاوقات اور کلاس روم وغیرہ جیسے معاملات میں انتہائی سنجیدگی برتی جاتی ہے۔ ایسے انتظامات کے باوجود جو طلبہ بے فیض و مرام گزر جاتے ہیں ان کی طبیعت میں لاابالی پن ہوتا ہے۔ جیسے تیسے وقت کٹتا ہے مقصود حاصل نہیں ہوتا۔
اس کے مظاہر جابجا بکھرے دکھائی دیتے ہیں۔ مدینہ جیسے مبارک شہر میں، جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ جیسی قابل رشک یونیورسٹی میں، قال اللہ و قال الرسول جیسی متبرک و مقدس صداؤں کے بیچ میں ایک عرصہ گزارنے کے بعدبھی کچھ لوگ کہیں کے نہیں رہتے۔
جب کہ کچھ طلبہ اپنے والدین، اساتذہ اور درسگاہوں کے لیے لائق فخر بن جاتے ہیں۔ یہ مقام پانا مسلسل جد و جہد کے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔ اللہ کو بھی وہی کام زیادہ پسند ہیں جو پابندی سے کیے جائیں چاہے کم ہی ہوں۔ اِنَّ اَحَبَّ الْاَعْمَالِ اِلَى اللهِ مَا دَامَ وَاِنْ قَلَّ
ڈاکٹر وسیم المحمدی صاحب نے اپنے اس مضمون میں جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے ایک پی ایچ ڈی اور دو ایم اے ہولڈر کے مناقشے کا آنکھوں دیکھا حال لکھا ہے۔ تیسرے تذکرے میں جو تفصیل ہے اس میں تشویق کا کافی سامان موجودہے۔ جد و جہد کے اسی تسلسل کو بڑی دقت مشاہدہ سے بیان کیا گیا ہے جو قاری کو ایک نئے واتاورن میں لے جاتا ہے۔
ایسی مجلسوں تک، تھیسس لکھنے کے بعد ایسے مناقشوں تک ، مناقشے کے بعد ایسی سرفرازیوں تک پہنچنے میں اللہ رب العالمین کے فضل و کرم اور اس کی خصوصی توفیق کے بعد خود طالب علم کی لگن، یکسوئی اور جہد مسلسل کے ساتھ ساتھ والدین کی نیتیں، دعائیں اور ہر قسم کا تعاون شامل حال ہوتا ہے۔ اساتذہ کی محنتیں، نیک خواہشات اور حوصلہ افزائیاں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ رکاوٹیں ہر گام پر ہوتی ہیں، روڑے ہر راہ میں ہوتے ہیں، ’رہ نورد شوق‘ کا کام ہوتا ہے سفر جاری رکھنا۔ (ایڈیٹر)
مدینہ منورہ سے جو قلبی تعلق ہے اسے الفاظ کا جامہ پہنانا ممکن نہیں ہے۔ ایک محبت ہے جو رگوں میں خون بن کر دوڑتی ہے۔ حرم نبوی کی زیارتیں، جامعہ اسلامیہ جیسی پرشکوہ یونیورسٹی میں حصول علم کی خاطر رہنا،مدینہ منورہ میں گزرے ایام، وہاں کی علمی مجلسیں، کتابوں سے مضبوط رشتہ، لکھنے پڑھنے سے پائیدار تعلق، وہاں کے باوقار اور ماہر اساتذہ سے استفادہ،ذی علم اور ذہین ساتھیوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا، عزیز دوستوں اور ساتھیوں کے ساتھ کبھی علمی بحث ومباحثہ تو کبھی ہنسی مذاق کرنا ،حرم نبوی کے ساتھ ساتھ دیگر مستحب مقامات کی زیارت سے شرف یاب ہونا، گھر سے کالج اور حرم تک دوڑتے بھاگتے رہنا؛ یہ وہ عناصر ہیں جو مدینہ منورہ سے محبت اور رشتہ داری کی تکوین میں روح کی حیثیت رکھتے ہیں۔
مدینہ منورہ میں ایک لمبی مدت گزارنے کے بعد اس سے دور ہونا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ بسا اوقات یہ زندگی کا مشکل ترین امر ثابت ہوتا ہے۔ اس فراق کا الم اور اس فرقت کی شدت صحیح معنوں میں وہی محسوس کر سکتے ہیں جو اس کرب ناک مرحلہ سے گزرے ہیں۔
ایک لمبی مدت گزارنے کے بعد مدینہ چھوٹنے کا احساس ، وقت سے بہت پہلے بے چین کردیتا ہے۔ حزن والم کی ایک کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ بسا اوقات اس کا اثر جسم وجان اور ذہن ودماغ پر پڑنے لگتا ہے۔ ان کیفیات کو تعبیر دینا بہت مشکل ہے۔ تاہم اس تکلیف دہ تجربہ سے گزرنے والے باشعور اور حساس افراد اسے بخوبی محسوس کرتے اور اس سے جوجھتے ہیں۔
فی الحال میرا قیام مدینہ منورہ سے تقریبا چار سو کیلو میٹر دور ہے۔ تاہم جب بھی موقع ملتا ہے اس کی زیارت سے شرف یاب ہونے سے نہیں چوکتا۔ بس بہانہ ہاتھ لگا کہ رخت سفر باندھ لیا۔ وہاں کے چند دنوں کا قیام اور اساتذہ و احباب سے ملاقات روح افزا ثابت ہوتی ہے اور اس کا اثر کئی دنوں تک باقی رہتا ہے۔ طبیعت میں ایک نشاط پیدا ہوجاتی ہے اور تعلیم وتعلم کی طرف میلان بڑھ جاتا ہے۔
تعلیمی زندگی میں مدینہ یونیورسٹی کے وہ تعلیمی مشغولیات جن سے ہم طلبہ فل انجوائے کیا کرتے تھے ان میں ایک اہم چیز ایم اے اور پی ایچ ڈی کے مناقشات میں حاضری ہوتی تھی۔ مشرف اور مناقش اچھے ہوں اور طالب علم لائق تو یہ علمی مناقشات شاندار علمی مجالس میں تبدیل ہوجاتے تھے۔ ان مجالس سے وہ علمی فوائد حاصل ہوتے تھے جنھیں کئی دن کی محنت یا کئی کتابوں کے مطالعےسے حاصل نہیں کیا جا سکتا تھا۔
ایک تو علمی مجلس کی برکتیں، دوسرے مناقشین کی علمی گفتگو ایک علمی سماں پیدا کردیتی تھی۔ او ر جب بھی کسی علمی اور شاندار مناقشہ میں حاضری کے بعد واپسی ہوتی تھی تو طبیعت میں انبساط وانشراح کی ایک کیفیت پیدا ہوجاتی تھی جس کا اثر کئی دنوں تک باقی رہتا تھا۔
ان علمی مناقشات میں بسا اوقات سعودی عرب کے مشاہیر اورکبار علماء شریک ہوتے تھے۔ جب کبھی ایسا ہوتا تھا تو علم دوست طلبہ بنا تخصص کی رعایت کیے حاضر ہوتے اور خوب خوب فائدہ اٹھاتے۔ ایسے مناقشات عموما جامعہ کے سینٹرل ہال میں رکھے جاتے تھے۔ پھر بھی کبھی کبھی اس قدر بھیڑ ہوجاتی تھی کہ مناقشہ ہال بھر جاتا تھا اور جگہ نہیں مل پاتی تھی۔
امسال عید الفطر کے بعد سے کچھ ایسے ظروف بنتے گئے کہ تقریبا ہر ہفتہ مدینہ کے سفر سے شرف یاب ہونے کا موقع ملا۔ یہ سلسلہ مئی کے اواخر تک جاری رہا۔
مئی کے منتصف میں کچھ ایسا اتفاق ہوا کہ تین فاضل ہندوستانی طلبہ کے علمی مناقشات طے پاگئے۔ کچھ نہایت اہم کاز اور ان مناقشات میں حاضری کی خواہش ایک بار پھر مدینہ کھینچ لے گئی۔ ان تینوں مناقشوں میں حاضری کی سعادت حاصل ہوئی اور طالب علمی کا وہ دور یاد آگیا جب اس طرح کے علمی مناقشات میں باقاعدہ پلان کے ساتھ علم دوست احباب کی معیت میں حاضر ہوتے تھے۔
جامعہ سلفیہ کے فاضل فارغ التحصیل امیر الاسلام بحر الحق کا مناقشہ 16/ مئی بروز جمعرات کی صبح کو ہوا۔ آپ ایک شریف اور سنجیدہ طالب علم ہیں۔ کم گوئی آپ کا امتیاز ہے۔ جامعہ اسلامیہ میں آپ کلیۃ الحدیث الشریف کے ممتاز طالب علم ہیں۔ آپ نے پی ایچ ڈی کی ڈگرى کے حصول کے لیے ابن حجر رحمہ اللہ کی مایہ ناز کتاب اور صحیح بخاری کی سب سے مشہور اور مکمل شرح فتح الباری کے ایک جزء کا تحقیق و دراسہ کیا تھا۔ ایک بہترین علمی مناقشہ کے بعد آپ کو ممتاز نمبرات سے پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کی گئی۔
جامعہ سلفیہ ہی کے فارغ التحصیل اسامہ فخر الدین کا مناقشہ 15/مئی بروز بدھ کی شام کو ہوا۔ آپ ایک با وقار، با صلاحیت اور تعلیم کے تئیں نہایت سنجیدہ طالب علم ہیں۔ جامعہ اسلامیہ میں آپ کلیۃ الشریعہ کے ممتاز طالب علم ہیں۔ آپ نے ایم اے کی ڈگری کے حصول کے لیے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کے ان فقہی اختیارات کا دراسہ کیا تھا جو طہارت اور نماز سے متعلق ہیں۔ ایک عمدہ علمی مناقشہ کے بعد آپ کو بھی ممتاز نمبرات سے ایم اے کی ڈگری تفویض کی گئی۔
جامعہ سلفیہ سے فارغ التحصیل یہ دونوں طالب علم نہ صرف علم کے تئیں سنجیدہ ذہن اور اس کے حصول کی خاطر جدو جہد سے بھرپور مزاج رکھتے ہیں بلکہ ان کا شاندار تعلیمی ریکارڈ اور تعلیم وتعلم کے تئیں ان کی مثبت سوچ یہ درشاتی ہے کہ اس میدان میں یہ ایک ویژن اور ہدف رکھتے ہیں۔
ایسے سنجیدہ اور محنتی طلبہ کسی بھی یونیورسٹی کی شان اور کسی بھی کالج کی آن بان ہوتے ہیں۔ یہی طلبہ آگے چل کر اپنے تعلیمی اداروں کے اہداف کو پورا کرنے میں مدد کرتے اور ان کے مقاصد کی تکمیل میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔
ذاتی طور سے میں ان دونوں طلبہ اور تعلیم وتعلم کے تئیں ان کی سنجیدگی کو اچھی طرح جانتا ہوں۔ اللہ تعالى کی توفیق شامل حال رہی، ان کی یہ سنجیدگی اور مثبت فکر برقرار رہی اور حالات وظروف سازگار رہے تو اللہ تعالى کی ذات سے قوی امید ہے کہ آگے چل کر تعلیم وتعلم اور دعوت وتربیت کے میدان میں یہ قابل ذکر کارنامہ انجام دیں گے۔ ولا أزکّی على اللہ أحدا۔
15؍مئی بروز بدھ کی صبح آٹھ بجے عزیزم محمد اسلم کا ایم اے کا مناقشہ ہوا۔ عزیزم ہمارے چھوٹے بھائی ہیں۔ بھائی بہنوں میں سے سب چھوٹے ہونے کی وجہ سے سب کے چہیتے اور لاڈلے بھی ہیں۔
عزیزم کا تعلیمی مرحلہ بہت ہی صبر آزما اور آزمائش سے بھرپور رہا ہے۔ تعلیم کے حصول کے لیے انھوں نے کئی اداروں کی خاک چھانی۔ گاؤں کے مکتب کے بعد، پونہ کے سرکاری اسکول سےلے کر ندوۃ العلماء تک اور جامعہ محمدیہ منصورہ سے لے کرجامعہ رحمانیہ کاندیولی تک کئی اداروں سے رشتہ جوڑا۔
جب انھوں نے جماعت ثالثہ پڑھ لی تو میں نے شعبہ حفظ میں داخلہ لینے کو کہا۔ جب قرآن کریم کا حفظ مکمل ہوگیا تو پھر رابعہ میں آگئے۔ مگر پھر تعلیم کے تئیں ان کی بے دلی اور زہد ہماری پریشانیاں بڑھانے لگیں اور ہم ان کے تعلیمی کیرئر کے تئیں ہم وغم کا شکار ہونے لگے۔
ایک وقت ایسا بھی آیا جب گھر کے لوگ مایوس ہونے لگے کہ شاید ان کی تعلیم مکمل نہ ہوسکے۔ مگر والد صاحب بڑے الگ قسم کے انسان تھے۔ اللہ پر ان کا بھروسہ بہت اعلى قسم کا تھا۔اللہ تعالى پر اس قدر توکل اور اس کی ذات سے اس قدر حسن ظن ہمارے نصیبے میں بالکل نہیں آیا۔ سخت سے سخت مایوسی کےعالم میں بھی وہ پر امید رہتے۔ اس مایوسی کی کیفیت میں بھی وہ ہمیں سمجھاتے۔ ہمت دلاتے اور ہر صورت عزیزم کی تعلیم مکمل کروانے پر زور دیتے۔
ایک وقت ایسا بھی آیا جب عزیزم کے تعلیم کے تئیں ہم اس قدر ٹینشن کے شکار تھے کہ میرا کوئی عمرہ ایسا نہیں جاتا تھا جس کے طواف میں میں خصوصی طور سے عزیزم کی تعلیمی زندگی میں کامیابی کے لیےاللہ تعالى سے دعا نہ کروں۔
واقعی اللہ کا فضل بہت بڑا اور اس کی رحمت وسیع تر ہے۔ جامعہ محمدیہ سے رخصت ہوکر یہ جامعہ رحمانیہ کاندیولی آئے۔ پھر کبھی کوئی شکایت نہیں رہی۔ عزیزم نے وہاں بھرپور محنت کی۔ الحمد للہ ممتاز نمبر اور اول پوزیشن سے وہاں سے فراغت حاصل کرکے نکلے۔
پھر اللہ تعالى کا خصوصی جو فضل شروع ہوا تو کبھی رکا نہیں۔ جامعہ رحمانیہ کاندیولی سے فراغت کے بعد فوراجامعہ اسلامیہ میں داخلہ کا شرف مل گیا جہاں آپ نے کلیہ الدعوہ کا انتخاب کیا۔ فی الحال آپ نے اسی کلیہ کے قسم الدعوۃ والثقافہ الاسلامیہ سے ایم اے مکمل کیا ہے۔
ایک وہ دن تھے جب ہم ہندوستانی مدارس میں عزیزم کے تعلیم کے تئیں اس قدر پریشان تھے۔ ایک یہ دن ہے جب انھوں نے نہ صرف جامعہ اسلامیہ جیسی عظیم درسگاہ سے ایم اے مکمل کر لیا ہے بلکہ اللہ تعالى کے خصوصی فضل سے پی ایچ ڈی میں داخلہ بھی مل گیا ہے۔
والدین کے لیے بھلا اس سے بڑی خوشى اور خوش نصیبی کیا ہو سکتی ہے کہ ان کے دو دو بیٹے قرآن کریم حفظ کریں اورجامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ جیسی عظیم درسگاہ سے پی ایچ ڈی بھی کریں۔ بلا شبہ ان کامیابیوں میں ان کی بے انتہا محنت، انتھک کوشش اور لیل ونہار کی دعائیں شامل ہیں۔
بدقسمتی سے ہمارے والدین آج ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں۔ کورونا کے آخری ایام میں والد صاحب ہمیں داغ مفارقت دے گئے۔ اس جانکاہ حادثہ کے تقریبا ایک ہی سال بعد والدہ بھی ان سے جا ملیں۔ رب ارحمہما کما ربیانی صغیرا۔ اللہ تعالى ان کی قبروں کو نور سے بھر دے۔ ان کی بال بال مغفرت فرمائے اور بلا حساب و بلا عذاب انھیں جنت الفردوس میں جگہ دے۔ آمین
آج وہ زندہ ہوتے تو ان کی خوشی کا کچھ اور ہی عالم ہوتا۔ اللہ کے اس بے پناہ فضل وکرم کو دیکھ کر بلا شبہ وہ سب سے زیادہ خوش ہوتے۔ مگر قدّر اللہ وما شاء فعل۔ اللہم إنا نعوذ بک من زوال نعمتک، وتحوّل عافیتک، وفجاءۃ نقمتک، وجمیع سخطک۔ آمين!
ایم اے کے حصول کے لیے آپ نے ایک الگ قسم کا موضوع منتخب کیا تھا۔ جماعت اہل حدیث ہند کے دعوتی جہود کا تعارف کرانے کے لیے آپ نے جماعت کے چند مشہور مجلات کا دراسہ وتحلیل کیا اور ان مجلات میں شائع ہونے والے مضامین ومقالات کا تحلیلی دراسہ کرکے یہ واضح کیا کہ جماعت کے اہل قلم علماء نے اپنی تحریروں کے ذریعے کس طرح دعوتی معرکے سر کیے ہیں۔ اس کاز کے لیے آپ نے جماعت کے پانچ مشہور مجلات (ترجمان اہل حدیث، صوت الأمۃ، محدث، البلاغ، صوت الحق) کاانتخاب کیا تھا۔
آپ کا علمی مناقشہ کئی اعتبار سے یادگار رہا۔ صبح آٹھ بجے یہ مناقشہ شروع ہوا اور تقریبا دس بجے اپنے اختتام کو پہنچا۔ بحث کے تئیں دونوں مناقشین نے اپنے آراء کا کھل کر اظہار کیا۔ مثبت منفی ہر طرح کی آراء کھل کر سامنے آئیں۔ دو گھنٹے کے نہایت علمی مناقشہ کے بعد آپ کو ممتاز نمبرات سے ایم اے کی ڈگری تفویض کی گئی۔
ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگریوں کے حصول کے لیے جو بحثیں لکھی جاتی ہیں ان کے کچھ نہایت اہم شروط و ضوابط اور طریقہ کار ہوتے ہیں جن کی پابندی ایک ریسرچ اسکالر کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ سعودی جامعات میں یہ شروط و ضوابط کافی سخت، طریقہ کار بہت دقیق اور اس طرح کی اکیڈمک بحثوں کا معیار بہت اعلٰی ہے۔ اس لیے طلبہ کو ان بحثوں کا حق ادا کرنے کے لیے کافی محنت کرنی اور بہت مشقت اٹھانی پڑتی ہے۔ جو طلبہ پوری سنجیدگی اور ذمہ داری کے ساتھ ان مراحل سے گزرتے ہیں وہی اس راہ کی مشقتوں اور اس پرخار راستے کی صعوبتوں کا درک رکھتے ہیں۔ جنھوں نے یہ میدان دیکھا ہی نہیں، یا دیکھا تو بے توفیقی اور محرومی کے چلتے اس کا حق ادا کرنے کے بجائے کسی اور مشغولیت میں وقت گزاری کر لی،وہ کتنا بھی فلسفہ بگھار لیں،کی ا بیے موشاےفاشں کرلں ،نہ اس کی صحیح قدر وقیمت سمجھ سکتے ہیں اور نہ ہی اس مبارک راستے کی صوبتوں کا درست اندازہ کر سکتے ہیں۔
سب سے پہلا مرحلہ بحث کے لیے موضوع کے انتخاب کا ہوتا ہے۔ نہ صرف یہ ضروری ہوتا ہے کہ اس موضوع پر پہلے سے نہ لکھا گیا ہو بلکہ یہ چیز بھی مطمع نظر رہتی ہے کہ وہ موضوع ایک باحث کے لیے کس قدر مفید اور قارى کے لیے کس قدر سود مند ثابت ہوگا، نیز جس موضوع اور تخصص میں وہ بحث لکھی جارہی ہے اس میں اس کی حیثیت کیا بنتی ہے؟ اسے بحث وتحقیق کی اصطلاح میں “حسن اختیار الموضوع” کہا جاتا ہے۔
جس طرح آخرت کی پہلی منزل قبر ہے اور وہاں سے کامیاب نکلنے والا آگے کے منازل بھی کامیابی سے طے کر لے گا۔ کچھ اسی طرح بحث وتحقیق کی دنیا میں موضوع کا اختیار بھی پہلا اور فیصلہ کن مرحلہ ہوتا ہے جہاں کامیاب ہونے والا عموما آگے بھی کامیاب وکامران نکل جاتا ہے۔
دونوں مناقشین نے اس موضوع (الجہود الدعویۃ لعلماء أہل الحدیث بالہند من خلال المجلات – دراسۃ تحلیلیۃ) کو خوب سراہا۔ جہاں پہلے مناقش نے بحث کی پہلی خوبی “حسن اختیار الموضوع” قرار دیا ،وہیں دوسرے مناقش نے اس کو ایک نہایت دلچسپ موضوع قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس بحث کو پڑھ کر میں بہت محظوظ اور مستفید ہوا۔
کسی بھی بحث کو لکھتے وقت ایک نہایت اہم بات یہ ہوتی ہے کہ باحث نے موضوع کو کس قدر سمجھا اور اس کا کس قدر استیعاب واحاطہ کیا ہے۔ کیونکہ جس قدر ایک باحث اپنے موضوع کو سمجھے گا۔ اس کے اطراف وجوانب کا استیعاب واحاطہ کرے گا۔ اسی قدر وہ اس کا حق ادا کرنے پر قادر ہوگا۔ اس کے برعکس جس قدر موضوع کی سمجھ ضعیف اور اس کا احاطہ اس کی قدرت سے باہر ہوگا اسی قدر وہ اپنے بحث کا حق ادا کرنے سے قاصر ہوگا۔
باحث کا یہ پہلو بھی بہت عمدہ تھا۔ چنانچہ پہلے مناقش نے بحث کی عام خوبیوں میں خصوصیت کے ساتھ یہ ذکر کیا کہ باحث نے نہ صرف موضوع کو اچھی طرح سمجھا ہے بلکہ شواہد وادلہ سے اسے سجایا بھی ہے۔مزید فرمایا کہ یہ چیز اب متاخرین طلبہ میں دھیرے دھیرے بہت ہی کم ہوتے جارہی ہے۔ جبکہ دوسرے مناقش نے بحث کے امتیازی صفات میں “استیعاب الباحث لموضوعہ” کا خصوصی ذکر کیا۔
کسی بھی بحث کو لکھتے وقت سب سے اہم اور بنیادی چیز یہ ہوتی ہے کہ موضوع اور اس کے متعلقات وتفریعات نیز اطراف و جوانب کو سپورٹ کرنے والے دلائل وشواہد کو باحث نے کس طرح جمع کیا ہے؟ اور اپنی بحث کو معیاری بنانے کے لیے ان دلائل وشواہد کا کیسا استعمال کیا ہے؟
پہلے مناقش نے اس چیز کو بھی خصوصیت کے ساتھ ذکر کیا اور بتایا کہ طالب علم شواہدو ادلہ کو جمع کرنے اور بحث کی تعمیر وبنا میں ان کا بہترین استعمال کرنے میں موفق اور کامیاب رہے ہیں۔ مزید فرمایا کہ یہ چیز کسی بھی بحث کا ستون ہوتی ہے۔
کسی بھی بحث کو لکھتے وقت جو چیز بحث کے سطور میں جابجا موجود ہوتی اور اس کے مستقبل کا فیصلہ کرتی ہے وہ اس بحث کے تیار کرنے میں کی جانے والی جدو جہد ہوتی ہے۔ ایک طالب علم اپنی بحث میں جس قدر محنت کرتا ہے۔ جس قدر اپنا پسینہ بہاتا اور خون جلاتا ہے۔ اللہ تعالى اسى قدر اس بحث میں برکت دیتا اور اس باحث کو حسن توفیق سے نوازتا ہے۔ چنانچہ کسی بھی بحث کے تئیں ایک باحث کی سنجیدگی اور اس کی کدوکاوش در اصل اس بحث کی روح ہوتى ہے۔ جو اس بحث کے سطر سطر کو زندگی عطا کرتی اور اس کے حرف حرف میں توانائی پیدا کرتى ہے۔
اللہ کے فضل وکرم سے دونوں مناقشین نے طالب علم کی جدو جہد اور بحث لکھنے میں اس کی محنت اور کاوشوں کو کھل کر سراہا۔ چنانچہ پہلے مناقش نے جہاں یہ کہا کہ پوری بحث میں دلائل وشواہد کے جمع کرنے اور انھیں بحث کی تعمیر وبنا میں بحسن وخوبی استعمال کرنے میں باحث کی جدو جہد عیاں وبیاں ہے۔ وہیں دوسرے مناقش نے فرمایا کہ طالب علم نے اس بحث کو تیار کرنے میں کافی محنت کی ہے اور یہ چیز اس بحث میں بہت ہی کھل کر سامنے آئی ہے۔
پہلے مناقش نے بحث کے امتیازات گناتے ہوئے آخرى بات بہت ہی حوصلہ افزا کہی،چنانچہ طالب علم کی تشجیع کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ بحث ان چند گنے چنے عمدہ بحثوں میں سے ایک ہے جن کا میں نے اب تک مناقشہ کیا ہے۔
کسی بھی عمدہ بحث کی ایک خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ اسے تیار کرنے میں بکثرت مصادر ومراجع کی طرف رجوع کیا جائے۔ اور جس قدر ممکن ہو سکے بحث کو تیار کرنے میں ان کا بحسن وخوبی استعمال کیا جائے۔
دوسرے مناقش نے اس چیز کو بھی بخوبی ذکر کیا اور کہا کہ طالب علم نے بکثرت مصادر ومراجع کی طرف رجوع کیا ہے اور تقریبا چار سو صفحات پر مشتمل بحث کو تیار کرنے میں دو سو مصادر ومراجع کی طرف رجوع کیا ہے۔
عام حالات میں دو سو مصادر ومراجع ایم اے اور پی ایچ ڈی کی بحث کے لیے بہت زیادہ نہیں ہوتے۔ مگر بحث کی نوعیت ایسی تھی کہ اس سے بہت کم مصادر ومراجع میں بحث ختم ہو سکتی تھی۔ کیونکہ بحث کا اصل محور پانچ مجلات کا دراسہ اور ان کی تحلیل تھی اور ان کی روشنی میں جماعت اہل حدیث کے دعوتی جہود کو اجاگر کرنا تھا۔ اس کے باوجود تقریبا دو سو مراجع ومصادر کی طرف رجوع کرنا اور اس بحث کو تیار کرنے میں ان کو اساس بنانا اس بحث کی ایک بڑی خوبی بن گئی۔
کسی بھی اچھے بحث کی ایک بڑی خوبی اس کے حوالہ جات میں پائی جانے والی دقت وباریکی اور مسائل کی توثیق میں موجود امانت داری ہوتی ہے۔ یہاں بھی باحث موفَّق رہے۔ مناقش ثانی نے اس کو کھل کر سراہا اور اس خوبی کو بحث کے جملہ امتیازات میں شمار کیا۔
اس بحث میں ایک فصل دعوت اور مدعویین سے متعلق تھی۔ مناقش ثانی نے اس فصل کی خصوصی تعریف کی اور فرمایا کہ اس فصل میں طالب نے کمال کردیا ہے اور اس فصل کا ایسا معالجہ کیا ہے کہ یہ فصل اپنے علمی قدر وقیمت اور تحقیقی مقام ومنزلت میں بالکل الگ اور انوکھی محسوس ہوتی ہے۔
بسا اوقات بحث فی الحقیقت کسی بلیغ وصف کی اس قدر مستحق نہیں ہوتی جس قدر مناقشین کہتے ہیں۔ مگر مناقش کریم النفس ہو تو ایک محنتی طالب کی ہر طرح سے حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ دونوں مناقشین نے اس میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ دوران مناقشہ برابر حوصلہ افزائی کرتے رہے۔ ان کے کلمات اس قدر تکریم وتقدیر اور محبت وشفقت میں ڈوبے ہوئے تھے کہ ان کے بعض تبصروں پر بسا اوقات آنکھوں میں آنسو آگئے۔
مناقش ثانی نے تو مناقشہ کے ابتدائی مرحلہ میں ہی کہا کہ اس بحث کے حجم اور اس میں کی گئی جدو جہد کو دیکھ کر ایسا بالکل نہیں لگتا کہ یہ ایم اے کا رسالہ ہے بلکہ یہ پی ایچ ڈی کا رسالہ محسوس ہوتا ہے۔ یہ بات انھوں نے تاکیدا دوبار کہی۔ ظاہر ہے ان کی یہ بات حوصلہ افزائی اور تشجیع کے لیے تھی۔ تاہم ایک طالب علم کے لیے یہ بہت بڑا تمغہ ہے کہ اس کے ایم اے کی بحث کو پی ایچ ڈی کے برابر قرار دیا جائے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے جب ہم ایم اے (M.A)کے پہلے سال میں تھے تو ہمارے محترم استاذ پروفیسر محمد یعقوب ترکستانی نے مجھے یہ مشورہ دیا کہ تم اپنی فصلی بحث (یہ مختصر بحث عموما دس سے بیس صفحات پر مشتمل ہوتی تھی اور اس پر دس سے پندرہ نمبرات مقرر کیے جاتے تھے ) میں یورپی زبان دانوں کے بعض اعتراضات کا دراسہ کرو۔ اسى طرح یورپ کے بعض لغوی مکاتب فکر کا دراسہ کرکے علماء عرب کے جہود کو درشاؤ۔ اور دلیل سے یہ ثابت کرو کہ ان افکار ونظریات کا ان عربوں نے بہت پہلے ہی کتنى باریکی سے جائزہ لیا ہے؟ آج بعض یورپی محققین جن لغوی افکار ونظریات پر فخر کر رہے ہیں اور دنیا کو بتا رہے ہیں کہ وہ ان کے موجد اول ہیں، تم یہ ثابت کرو کہ کس طرح عرب اہل علم ان پر سبقت لے گئے ہیں؟
چنانچہ میں نے اپنی فصلی بحث (النحو العربي بين التقليد والوصف والتحويل والتجميم والسياق) کے عنوان پر ایک سو بیس صفحات میں مکمل کی۔ تفصیل سے چند یورپی افکار ونظریات اور بعض مکاتب فکر کا تقابلی دراسہ کیا۔ جب بحث پیش کی تو آپ بہت خوش ہوئے۔ فرمایا:اسے بحث کہتے ہیں۔ میں جیسے چاہتا تھا تم نے بالکل ویسے ہی لکھا ہے۔ حوصلہ افزائی کرتے ہوئے مزید فرمایا:میرے نزدیک تم اس بحث پر ایم اے کی ڈگرى کے مستحق ہو۔
در اصل مدینہ منورہ میں اساتذہ عموما بہت وسیع الظرف اور کشادہ دل ہوتے ہیں، دنیا بھر سے آئے ہوئے طلبہ کو وہ اپنی گردن میں امانت سمجھتے ہیں ۔ ان کو مہمان اور غریب الدیار جان کر ان کی ہر طرح سے مدد کرتے ہیں۔ جو طلبہ محنتی اور لائق وفائق نظر آتے ہیں ان سے خصوصی لگاؤ رکھتے ہیں۔ انھیں ہمت وحوصلہ دیتے اور تعلیم وتحصیل کا خوبصورت سفر جاری رکھنے میں ان کا بھرپور تعاون کرتے ہیں۔
اساتذہ کرام کے منہ سے نکلے اس طرح کے تشجیعی کلمات بھی اسی تعاون کا حصہ ہوتے ہیں۔ جبکہ ہماری کم مائیگی اور کم علمی قطعا اس کی مستحق نہیں ہوتی ۔
عموما ایک طالب علم ایک تجربہ کار، با صلاحیت، موقر اور متخصص استاذ کے سامنے کیا حیثیت رکھتا ہے؟ تب بھی وہ ہماری پیٹھ اس طرح تھپتھپاتے تھے جیسے ہم ہی اس میدان کے چمپئن ہوں۔ ہمارى تمام چھوٹی بڑی کامیابیوں پر ہمارے والدین کی طرح خوشى کا مظاہرہ کرکے مزید کے لیے حوصلہ پردان کرتے تھے۔
ہم اچھی طرح سمجھتے تھے کہ اس طرح کی باتیں حقیقی کم مجازی زیادہ ہوتی ہیں ۔ اور ہم طلبہ کی علمی کسمپرسی اس کی بعینہ مستحق نہیں ہوتی ہے۔ مگر یہ وسیع القلب اساتذہ ہماری حوصلہ افزائی کی خاطر ایسے کلمات کہا کرتے تھے۔ جو ہمارے لیے اکسیر کا کام کرتے تھے اور ہمارے قدم تعلیم وتعلم کی راہ سے نہ صرف ہٹنے نہیں دیتے تھے بلکہ ہمیں مزید جدو جہد پر ابھارتے اور آمادہ کرتے تھے۔
اسی طرح پی ایچ ڈی کے لےف لکھے گئے میرےتھیسس (کتاب المغازی فی صحیح البخاری -دراسۃ بلاغیۃ تحلیلیۃ )کا مناقشہ پروفیسر مبارک شتیوی حفظہ اللہ نے یہ کہہ کر شروع کیا کہ یہ پی ایچ ڈی کا ایک رسالہ نہیں، تین رسالے ہیں، جنھیں طالب علم نے ایک ہی رسالہ میں خوبصورتی سے جمع کردیا ہے۔ پھر اس کی تفصیل بھی بتائی کہ یہ تین رسالہ کیسے ہے؟ اور کہا کہ ایسا کام وسیم جیسا فاضل طالب علم ہی کر سکتا ہے۔ پھر مناقشہ کے بعد مجھے خصوصی طور سے اس کی طرف توجہ دلائی اور اس کے ایک جزء کو مستقل طور سے شائع کرنے کا مشورہ دیا۔
اس طرح کی باتیں کریم النفس اساتذہ عموما طلبہ کی حوصلہ افزائی کے لیے کہتے ہیں تاکہ طالب کو اعتماد کی قوت حاصل ہو۔ وہ اپنی قدر وقیمت کو سمجھے اور حصول علم کے لیے مزید محنت کرے۔
کوئی طالب علم کتنی بھی محنت کرلے، کتنی ہی بیدار مغزی کے ساتھ اپنی بحث لکھے۔ کتنا ہی اس کے اصول وضوابط کی پاسداری کرے۔ تاہم اس کا عمل غلطیوں سے بالکل پاک نہیں ہو سکتا۔ کمال صرف اللہ کی ذات کو ہے۔
دونوں مناقشین نے اس قیمتی بحث میں چند غلطیوں کی بھی نشاندہی کی اور انھیں دور کرنے پر زور دیا تاکہ جس قدر ممکن ہو رسالہ کا معیار اچھے سے اچھا ہو جائے۔
درست کتابت اور الفاظ وتراکیب کی عام غلطیوں سے پاک تحریریں نہ صرف پڑھنے میں لطف دیتی ہیں بلکہ قاری کو غیر محسوس طریقہ سے متاثر بھی کرتی ہیں۔ اس کے برعکس املا وطباعت کی غلطیاں نہ صرف بحث کے حسن کو متاثر کرتی ہیں بلکہ اچھے سے اچھی تحریرمیں بھی اگر وہ عیب ہوتو قاری اس سے بیزار ہونے لگتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ کسی بھی تحریر کو نشر کرنے سے پہلےاسے بار بار پڑھا جائے اور حتى الامکان اس کی لغوی املائی اور طباعتی غلطیوں کو قاری تک پہنچنے سے پہلے درست کردیا جائے۔
اس بحث میں بھی املاء و طباعت کی کچھ غلطیاں تھیں دونوں مناقشین نے ان غلطیوں کی نشاندہی کی اور انھیں درست کرنے کی تلقین کی۔
بحث میں ایک اہم مسئلہ متعدد شکلوں میں اضطراب کا ہوتا ہے۔ یہ اضطراب چاہے بحث کی بنا وتعمیر میں مستعمل اسلوب میں ہو یا دلائل و شواہد کی توظیف واستخدام میں یا پھر باحث کے طریقہ استدلال اور طرز تحلیل وتعلیل میں؛ بحث کے لیے بہت مضر ہوتا ہے اور بسا اوقات باحث کی شخصیت پر کاری ضرب لگاتا ہے۔
اس باب میں اصل یہ ہے کہ باحث ایک طریقہ اور ایک منہج بنا کر چلے ۔ پوری بحث میں یہ منہج کہیں بھی اضطراب و تناقض یا اختلاف وانتشار کا شکار نہ ہو۔بصورت دیگر بحث ایک بڑے خلل کا شکار ہو جاتی ہے۔
اس بحث میں کسی قسم کا کلیدی اضطراب تو نہیں تھا تاہم فصول ومباحث کی تمہید اس سے سلامت نہیں رہ سکی تھی۔ چنانچہ بعض تمہیدیں قدرے طویل تھیں جبکہ بعض بہت ہی مختصر۔ اگرچہ یہ تمہیدیں آنے والے موضوع کے اعتبار سے باندھی جاتی ہیں اور ان کا طول وقصر بہت حد تک ان موضوعات پر منحصرہوتا ہے پھر بھی ان کی ایک حد ہوتی ہے اور جملہ تمہیدوں میں باعتبار حجم ایک تناسب ہوتا ہے۔ اس بحث میں یہ خامی رہ گئی تھی۔ جس کے دور کرنے پر مناقش ثانی نے زرو دیا۔
تالیف وتصنیف کی دنیا میں ایک بڑا عیب احکام میں تعمیم کا اسلوب ہوتا ہے۔ عموما یہ یا اس طرح کی غلطیاں تعلیم وتعلم کے ابتدائی مرحلہ میں، یا پھر کم علمی اوربےجا ادعا علم کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ اس لیے کسی بھی چیز پر حکم لگاتے وقت ایک سنجیدہ باحث اور ذی علم محقق بہت ہی چوکنا رہتا ہے اور احتراز واحتراس کے وہ تمام اسالیب اس کے مد نظر رہتے ہیں جن کی بنا پر وہ تعمیمِ حکم کی آفت سے بچتا اور اس کے شر سے دور رہتا ہے۔
اس بحث میں دو سے تین جگہوں پر باحث سے اس سلسلے میں چوک ہوئی تھی۔ اگرچہ باحث کا کہنا تھا کہ اس نے جو بات لکھی ہے وہی درست ہے اور جہاں اس نے عمومی حکم لگایا ہے وہ واقعتا ویسے ہی ہے جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے۔ تاہم مناقش ثانی نے اس عموم کو حذف کرنے پر زور دیا اور اس سے بچنے کی تلقین کی۔
اسی ضمن ایک اہم چیز جس کی طرف مناقش ثانی نے ضمنا اشارہ کیا وہ تھا حکم لگانے اور کسی بھی اختلافی مسئلہ کا معالجہ کرنے، یا مخالف پر تنقید کرنے میں حتى الامکان نرم اسلوب کا استعمال۔ ان کا کہنا تھا کہ جس قدر ممکن ہو ایک باحث کو اپنا اسلوب انتہائی نرم اور شفقت ومحبت سے پر رکھنا چاہیے اور جب تک ضروری نہ ہو سختی سے گریز کرنا چاہیے۔
منہج سلف سے بیزار اور بھٹکے ہوئے افراد کی کتابوں سے فائدہ اٹھانا چاہیے یا نہیں؟ ان کی کتابوں سے کب فائدہ اٹھانا چاہیے کب نہیں؟ اور کسے اٹھانا چاہیے کسے نہیں؟ یہ ایک تفصیل طلب مسئلہ ہے۔ اس پر عموما بحث ہوتی رہتی ہے۔
سلف صالحین کی تعلیمات سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ گمراہ افراد کے لٹریچر سے جس قدر ممکن ہو دوری ہی میں عافیت ہے۔ ان کی تحریریں کب دل ودماغ میں جگہ بنالیں اور بندہ شکوک و شبہات کا شکار ہوجائے یا گمراہی کے راستہ پر چل پڑے بسا اوقات احساس تک نہیں ہوتا۔
موجود دور میں یہ ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ آج جس طرح بہت سارے عقلانیوں کو شرعی مسائل میں موشگافیاں کرتے اور اپنی آراء کو نصوص کی طرح پیش کرتے ہوئے ہم دیکھ رہے ہیں بلا شبہ اس کا ایک بڑا سبب جادہ حق سے بھٹکے ہوئے افراد کی کتابوں کو پڑھنا، ان کی باتوں کو سننا اور ان کی مجالس میں شریک ہونا ہے۔
باحث نے اپنی اس بحث میں بعض ایسے افراد کی بعض کتابوں کا بھی حوالہ دیا تھا جو عقیدہ ومنہج کے باب میں جادہ حق پر نہیں ہیں۔ منہج سلف سے انھیں بیزاری ہے یا پھرمنہجی انحراف کا شکار ہیں۔ مناقش اول نے ایسے تمام احالات کو حذف کرنے کا سختی سے حکم دیا اور اس بات کی تاکید کی کہ اس طرح کی بحثوں میں حتى الامکان ایسے افراد کی کتابوں کو مرجع نہ بنایا جائے۔
علم ادب سے خالی ہو تو محض بحث و مباحثہ،بےجا جدال، لا یینا مناظرہ، بڑ بولا پن، ضد اور ہٹ دھرمی، حقد و حسد، خود نمائی اور ہوی پرستی کا ذریعہ نز نفس امارہ کا خدمت گزار بن کر رہ جاتا ہے۔
ایسا علم صاحب علم سے صرف انا انا کی گردان کرواتا اور مخالف کے لے ہر اسلوب و انداز کو حلال بلکہ مستحب و واجب ٹھہرا دیتا ہے۔ایسے علم کا حامل حقیقی معنوں میں عالم نہیں ہوتا بلکہ اس کا شمار علماء سوء مں کا، جاتا ہے۔
یی علم جب کردار و عمل سے مزیّن، ادب و اخلاق سے مدبّج، تواضع و انکساری سے محبّر اور حکمت و دانائی سے مہذّب و منوّر ہوجاتا ہے تو اس کا حامل حقیے معنوں مںی عالم کہلاتا ہے۔
علم سے نسبت رکھنے والا کوئی بھی شخص علم کے کسی بھی مقام پر پہنچ جائے۔ تعلیم وتعلم کے کتنے بھی منازل وہ طے کرلے۔ فکر وفن کے کتنے ہی معرکے وہ سر کر لے۔ اگر علم کے ساتھ ساتھ حسن خلق اور حسن ادب سے اس کی آشنائی نہیں ہے تو وہ علم نہ صرف اپنی قدر و قیمت ، مقام ومنزلت اور خیر و برکت سب کچھ کھو دیتا ہے بلکہ وہی علم ایسے عالم کے لیے ایک طرح کا عیب اور اس کے دامن پر نہ مٹنے والا دھبہ بن جاتا ہے۔
اس پورے مناقشے میں جس بات پر مجھے سب سے زیادہ خوشى ہوئی اور فرحت و مسرت کا ایک عجیب سا احساس ہوا وہ مناقش ثانی کی آخری بات تھی جو انھوں نے اپنے مناقشہ کے بالکل آخر میں مسک الختام کے طور پر کہی۔
انھوں نے عزیزم کے حسن اخلاق، حسن ادب اور اساتذہ وطلبہ کے ساتھ تعامل میں تواضع وانکساری کی کھل کر تعریف کی اور اسے خصوصیت کے ساتھ ذکر کیا۔
اللہ کا فضل ہے کہ یہ پہلا موقع نہیں تھا جب ان کے اساتذہ نے اس طرح کی شہادت دی ہو۔ گزشتہ اور پیوستہ مہینے عزیزم کے کالج میں بکثرت میرا جانا ہوا۔ ان کے ڈیپارٹمنٹ کے سینئر اساتذہ سے جب بھی ان کا ذکر چھڑا انھوں نے ان کے حسن اخلاق اور حسن ادب کا خصوصی ذکر کیا۔
میرے لیے سب سے زیادہ خوشی کی بات یہی تھی۔ مناقس ثانی کے اس تبصرہ نے مجھے جو مسرت عطا کی اسے میں الفاظ میں نہیں بیان کر سکتا۔ بلا شبہ یہ پورے مناقشہ کا مسک الختام تھا۔ اسی پر مناقشہ ختم ہوگیا۔ پھر کچھ دیر بعد نتیجہ سنایا گیا جس میں انھیں ممتاز نمبرات سے ایم اے کی ڈگرى حاصل کرنے کی نوید سنائی گئی۔
اس شاندار مناقشے سے جو خوشی ہوئی ہوئی ہی۔ حسن اتفاق اگلے ہی دن عزیزم کے پی ایچ ڈی میں فائنل داخلہ کی نوید بھی مل گئی۔ طبیعت میں سرشاری کی ایک عجیب کیفیت تھی۔ بہت دنوں کے بعد تعلیم وتعلم کے میدان سے جڑی اس طرح کی خوشیاں بیک وقت میسر آئی تھیں۔ سرور وانبساط سے طبیعت لرزاں تھی۔ خوشی کے اس مبارک موقع پراسی شام احباب کے لیے وادی عقیق کے کنارے ایک شاندار عشائیہ کا اہتمام کیا گیا۔ اور دوسرے دن ہم خوشیوں سے لدے پھندے مدینہ منورہ سے اپنے جائے سکونت حائل کی طرف روانہ ہوگئے۔
اللہ تعالى عزیزم کی زندگی میں برکت عطا فرمائے۔ انھیں سعادت سے بھرپور زندگی عطا کرے۔ان کے والدین، اساتذہ اور گھر والوں کے لیے انھیں بہترین صدقہ جاریہ بنائے۔ ہم سب کو ہر طرح کے سوء ومکروہ اور شر وحسد سے محفوظ رکھے۔ علم وعمل اور اخلاق وادب کی دولت سے مزین و مالا مال کرے۔ آمین!
بہترین تحریر ہے
خصوصاً طلبہ کے لئے کہ ہر محاذ پر حسن اخلاق کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دے ۔
علم و ادب سے مزین رہنا دنیا کی سب سے قیمتی دولت ہے علم اسے رب سے آشنا کرتا ہے اور ادب تواضع وانکساری کے میلان سے نوازتا ہے
اللہ رب العالمین آپ کے علم میں برکت عطا فرمائے آمین