یادوں کی برات: ایک تعارف

حمود حسن فضل حق مبارکپوری تعارف و تبصرہ

’یادوں کی برات‘جوش ملیح آبادی کی نثری کاوشوں کا ثمرہ ہے ۔ یہ ایک عظیم شاعر انقلاب و فطرت کی خودنوشت ہے ۔ یہ آپ بیتی ایک تاریخ ساز عہد کی تہذیبی و تمدنی زندگی کا دلکش مرقع ہے ۔ اس میں وادی گنگ و جمن کے اور سرزمین دکن کے قدیم معاشرے کی خوشنما جھلکیاں نظر آتی ہیں ۔ مصنف نے اپنے ایام طفلی و جوانی کے خوش حال طبقوں کی سماجی قدروں پر، ان کے سوچنے اور محسوس کرنے کے انداز پر ، ان کے عقیدے اور توہمات پر ، ان کے شوق اور مشغلوں پر ، ان کے تہواروں اور تقریبوں پر، ان کے رہن سہن اور رسومات پر بڑے دلچسپ تبصرے کیے ہیں۔ چنانچہ قاری اس کتاب کا مطالعہ کرتے وقت اس عہد کی سیر کرتا نظر آتا ہے جس میں یہ کتاب لکھی گئی۔ اسے جوش ملیح آبادی کی متنازعہ تخلیق بھی سمجھا جاتا ہے۔ اس کتاب میں جوش کے لاتعداد معاشقوں کی وجہ سے اسے تنقید کا سامنا رہا۔ زبان پر عبور کی وجہ سے مشہور جوش نے یقینی طور پر خوبصورت اور منفرد خود نوشت سوانح عمری لکھی کہ پڑھنے والا ان کی ابتدائی زندگی کے واقعات اور ماحول کی منظر کشی میں ڈوب جاتا ہے۔

’یادوں کی برات‘جوش ملیح آبادی کے ستر سال کے تجربوں اور مشاہدوں کی برات ہے۔ جوش ملیح آ بادی نے کتاب کا انتساب اپنے دوست روشن علی بھیم جی کے نام کیا ہے ۔یہ کتاب 1970 میں پہلی بار شائع ہوئی تھی جسے کراچی سے جوش اکیڈمی نے چھاپا تھا۔

جوش اپنے تعارفی مضمون ’چند ابتدائی باتیں‘میں اس کتاب کی اشاعت کے تعلق سے لکھتے ہیں:

’’میں نے اپنے حالات زندگی قلم بند کرنے کے سلسلے میں کامل چھ برس تک، زیادہ تر مسلسل اور گاہ گاہ غیر مسلسل عرق ریزی کی ہے۔ ڈیڑھ برس کی محنت کے بعد پہلا مسودہ تیار کیا۔ اسے ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا۔ پھر ڈیڑھ برس میں دوسرا مسودہ مکمل کیا، اس پر بھی تنسیخ خط کھینچ دیا۔ پھر ڈیڑھ پونے دو برس صرف کرکے نو سو صفحوں کا تیسرا مسودہ تحریر کیا اور تین ہزار میں اس کی کتابت بھی مکمل کرالی۔ مگر جب اس پر غائر نظر ڈالی تو پتا چلا کہ اس مسودے کو بھی میں نے ایک ایسے گھبرائے ہوئے آدمی کی طرح لکھا ہے، جو صبح کو بیدار ہو کر رات کے خواب کو، اس خوف سے جلدی جلدی الٹا سیدھا لکھ مارتا ہے کہ کہیں وہ اس کے ذہن کی گرفت سے نہ نکل جائے اور خدا خدا کرکے اب یہ چوتھا مسودہ شائع کیا جا رہا ہے۔اور میرے دل کی بات آپ پوچھیں تو یہ بھی کہہ دوں کہ میں اس چوتھے مسودے سے بھی مطمئن نہیں ہوں۔ لیکن کیا کروں اب مجھ میں دم باقی نہیں رہا کہ مزید عرق ریزی کرکے پانچواں مسودہ لکھوں اور اسے بھی قلم زد کر دوں۔اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی سوچتا ہوں کہ اب میرے چل چلاو کا وقت سر پر آن پہنچا ہے۔ اور ’جرس فریادمی دارد کہ بربندید محمل ہا‘ کی آوازیں برابر کانوں میں چلی آ رہی ہیں۔ اور یہ مصرع کہ’نسیم جاگو، کمر کو باندھو، اٹھاو بستر کہ رات کم ہے‘دل میں گونجتا رہتا ہے۔ اور دل میں ڈرتا ہوں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ تحریر ہی میں خدا کے فضل سے موت آ جائے اور مسودہ ناتمام پڑا رہے ہیں۔ اس لیے اب جیسا بھی ہے۔ یہ چوتھا مسودہ پیش کر رہا ہوں۔‘‘

رشید حسن خان نے بجا طور پر کہا ہے کہ:

’’یادوں کی بارات کو خود نوشت سوانح عمری کے لحاظ سے خواہ اعلیٰ درجے کی کتاب نہ کہا جا سکے، لیکن یہ واقعہ ہے کہ دل چسپی کے لحاظ سے اردو کی بہت کم کتابیں اِس کے برابر رکھی جا سکتی ہیں…‘‘

روزِ اول سے یہ ایک دل چسپ لیکن متنازعہ کتاب رہی ہے۔ اِس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے پروفیسر سحر انصاری لکھتے ہیں:

’’نہ اِس کتاب میں کسی عظیم مصنف کے بارے میں کوئی صائب رائے ملتی ہے اور نہ ہی کسی اہم یا غیر اہم کتاب یا فلسفہ یا نظامِ خیال کا کوئی تذکرہ شامل ہے۔ اِس کتاب میں اگر کوئی یہ تلاش کرے کہ جوشؔ صاحب کِس حد تک مفکر ہیں، کِس حد تک انقلابی ہیں اور اُن کے ذہن کی تعمیر و تشکیل میں کِن کِن عوامل کا ہاتھ رہا ہے، تو اُسے سخت مایوسی ہو گی۔‘‘

مشتاق احمد یوسفی صاحب ’یادوں کی بارات‘کو سوانح عمری کے بجائے ’شہوانی عمری‘قرار دیتے ہیں۔

جوش ملیح آبادی کی خود نوشت ’یادوں کی بارات‘ایک ایسی کتاب ہے جس میں انھوں نے کئی دیوقامت ہستیوں کے نجی باب کھول دیے جو عوام الناس کی نگاہوں سے پوشیدہ تھے۔مثلا گاندھی جی پر انھوں نے شراب بندی پر لعن طعن کی تو رابندر ناتھ ٹیگور کی اداکاری اور دوغلی زندگی، جوش نے نہ صرف خود اپنے بارے میں کھل کر لکھا بلکہ کئی دوسرے اہم لوگوں کی نجی زندگیوں سے بھی پردے اٹھائے۔جس کے بعد جوش پر ہر طرف سے نکتہ چینی شروع ہوگئی۔

جوش نے اپنی خوبیوں کے ساتھ ساتھ اپنی کمزوریوں،کوتاہیوں، گمراہیوں، آوارگیوں، سرکشیوں، معاشقوں اور گناہوں پر سیر بحث حاصل کی ہے۔ کتاب کا حُسن اس بات میں بھی پوشیدہ ہے کہ مصنف اپنے زوال آمادہ خاندان اور معاشرے پر سے پردہ اُٹھانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے ہیں ۔ کتاب کے جس پہلو پر لوگ زیادہ زور یا ترجیح دیتے ہیں وہ مصنف کے معاشقے یا ہجرت پاکستان کی ستم ظریفی ہے۔ لیکن ایک اور موضوع بھی ہے جس سے یہ کتاب بھری پڑی ہے اور جس سے یہ کتاب زیادہ جاذب نظر بنتی ہے وہ ہے مصنف کے خواب۔

یادوں کی برات کتاب میں مصنف بار بار خوابوں کی دنیا کی سیر کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ اور یہ خواب جوش کی زندگی میں مختلف مشکلوں اورمراحل میں رہنمائی کا کام انجام دیتے ہیں ۔ یوں تو خواب دیکھنا انسان کی جبلت ہے۔ لیکن کتاب میں مصنف تب خواب دیکھتا نظر آتا ہے جب اُسے کوئی بڑا مسئلہ درپیش آتا ہے۔ جس کی وجہ سے کتاب میں زبردست کشمکش پیدا ہوتی ہے۔

جوش ملیح آبادی بچپن میں سُنی تھے اور اُن کا خاندان بھی کٹر سُنی تھا۔ اس خاندان میں جوش کی دادی کے بغیر کوئی ایسا فرد نہ تھا جو مسلکی طور پر سُنی نہ تھا۔ جوان ہو کر جوش شیعہ مسلک کے پیروکار بن جاتے ہیں ۔ جوش اس مسلک کے لیے دل و جان دینے کے لیے آمادہ ہوئے۔ اس رئیس خاندان میں اس کی اس سرکشی کو سب سے بڑا گناہ تصور کیا جانے لگا۔ اور حسب توقع مصنف کو اپنے گھر والوں کے ساتھ ٹکراو کا سامنا ہوتا ہے۔ بات یہاں تک پہنچتی ہے کہ مصنف کو تمام جائیداد سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔ جوش ملیح آبادی اپنے آپ کو ایک خواب کے ذریعے سے اس مسلک پرستی کے جھنجھٹ سے دامن چُھڑا دیتے ہیں۔ مذہب جیسے ٹھوس، نازک اور حساس امور پربھی جوش اپنے دلائل کے توسط سے اپنے نظریات قائم کرلیتے ہیں۔ مصنف مذکورہ کتاب میں جھوٹ اور زنا جیس بدعتوں پراپنی رائے زنی کرکے بہت حد تک چھوٹ دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

جوشؔ 1894 ء میں ملیح آباد میں پیدا ہوئے۔ شبیر حسن خاں نام، پہلے شبیرؔ تخلص کرتے تھے پھر جوش۔

ان کے والد بشیر احمد خاں بشیرؔ، دادا محمد احمد خاں احمدؔ اور پردادا فقیر محمد خاں گویاؔ معروف شاعر تھے۔ اس طرح شاعری انھیں وراثت میں ملی تھی۔ ان کا گھرانہ جاگیرداروں کا گھرانہ تھا۔ ہر طرح کا عیش و آرام میسر تھا لیکن اعلیٰ تعلیم نہ پاسکے۔ آخرکار مطالعے کا شوق ہوا اور زبان پر عبور حاصل کرلیا۔ شعر کہنے لگے تو عزیزؔ لکھنوی سے اصلاح لی۔ ملازمت کی تلاش ہوئی تو طرح طرح کی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ آخر کار دارالترجمہ عثمانیہ میں ملازمت مل گئی۔ کچھ مدت وہاں گزارنے کے بعد دہلی آئے اور رسالہ ’کلیم‘جاری کیا۔ آل انڈیا ریڈیو سے بھی تعلق رہا۔ سرکاری رسالہ ’آج کل‘ کے مدیر مقرر ہوئے۔ اسی رسالہ سے وابستہ تھے کہ پاکستان چلے گئے۔ وہاں لغت سازی میں مصروف رہے۔ وہیں 1982ء میں وفات پائی۔

جوشؔ نے کچھ غزلیں بھی کہیں لیکن ان کی شہرت کا دارومدار نظموں پر ہے۔ انھوں نے تحریک آزادی کی حمایت میں نظمیں کہیں تو انھیں ملک گیر شہرت حاصل ہوگئی اور انھیں شاعرانقلاب کے لقب سے یاد کیا جانے لگا۔ ان کی سیاسی نظموں پر طرح طرح کے اعتراضات کیے گئے۔ خاص طور پر یہ بات کہی گئی کہ وہ سیاسی شعور سے محروم اور انقلاب کے مفہوم سے ناآشنا ہیں۔ ان نظموں میں خطابت کے جوش کے سوا اور کچھ نہیں لیکن اس حقیقت سے انکار مشکل ہے کہ ملک میں سیاسی بیداری پیدا کرنے اور تحریک آزادی کو فروغ دینے میں جوشؔ کی نظموں کا بڑا حصہ ہے۔

آپ کے تبصرے

3000