بر صغیر کے مشاہیر علماء میں ہمارے شیخ عطاء الرحمن مدنی حفظہ اللہ کا شمار ہوتا ہے۔جامعہ فیض عام مئو اور جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے اوائل فارغین اور مستفیدین میں آپ کا شمار ہوتا ہے۔بر صغیر کے مدنی علماء میں آپ تنہا ایسے عالم دین ہیں جو جان کی پروا کیے بغیر سمندر میں چھلانگ لگا کر سعودی عرب تعلیم حاصل کرنے پہنچے۔خود داری اور غیرت مندی آپ کی شخصیت کو دوسرے علماء وفضلاء سے ممتاز بناتی ہے۔آپ ایک اصول پسند عالم دین ہیں۔خود داری اور اصول پسندی کی وجہ سے آپ اپنی زندگی میں مختلف مشکلات اور آزمائش سے بھی دوچار ہوئے مگر اپنے اصول اور خود داری پر کبھی آنچ آنے نہ دی۔
آپ ایک زمیندار گھرانے کے چشم وچراغ تھےمگر گھر کے بیشتر افراد آپ کی تعلیم کے حق میں نہ تھے۔حصول تعلیم کے لیے آپ کو بڑی جانفشانی کرنی پڑی۔تعلیم کا آغاز پرائمری اسکول سے کیا اس کے بعد مدرسہ اصلاحیہ سیما پور ضلع کٹیہار بہار میں داخلہ لیا۔پھر جامعہ مظہر العلوم ضلع مالدہ مغربی بنگال میں داخل ہوئے اور مولانا مسلم رحمانی، مولانا عبد الحکیم، مولانا جمال الدین رحمانی اور مولانا محمد اکمل جیراج پوری وغیرہ سے کسب فیض کیا۔
چند ساتھیوں کے ہمراہ 1953ء میں جامعہ فیض عام مئو میں داخلہ لیا اور اساطین علم وفن سے شرف تلمذ حاصل کیا۔آپ کے یہاں کے اساتذہ میں ناظم مدرسہ محمد احمد، مولانا حبیب الرحمن فیضی، مولانا مصلح الدین جیراج پوری ،مولانا عبد الغفور بسکوہری اور مولانا عبد الرحمن نحوی وغیرہ کے اسماء قابل ذکر ہیں۔
حکومت کی تعلیمی پالیسی کی مخالفت میں ایک تحریر لکھنے کی وجہ سے جامعہ فیض عام میں آپ کا تعلیمی سلسلہ برقرار نہ رہ سکا لیکن انھی دنوں سعودی عرب کی راجدھانی ریاض میں “المعہد العالی” کے قیام کی خبر شائع ہوئی تھی، آپ کو اس معہد میں داخلہ کا شوق پیدا ہوا اور پھر وہاں جانے کی ترکیب سوچنے لگے۔فیض عام سے سیدھے بنارس گئے، وہاں سے مشہور ادیب مولانا عبد المجید حریری سے سفارشی خط لکھوایا تاکہ سعودی عرب کے سفر میں کام آئے۔ واضح رہے کہ مولانا حریری سعودی عرب میں ہندوستان کے سفیر رہ چکے تھے، سعودی عرب میں ان کی خاص پہچان تھی۔شیخ وہاں سے ممبئی کے لیے عازم سفر ہوگئے۔زاد سفر برائے نام تھا راستہ میں نوع بہ نوع کی دقتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ سفر کی تمام صعوبتوں کو برداشت کرکے ممبئی پہنچے۔چند دن وہاں قیام کرنے کے بعد بندرگاہ جانے، جہاز میں سوار ہونے اور جدہ پہنچنے کی تدابیر پر غور کیا تو اس نتیجہ پر پہنچے کہ کسی طرح جہاز کے ملازمین سے جہاز تک جانے کا پاس حاصل کیا جائے۔ اس زمانے میں حجاج کے متعلقین کے نام پاس جاری ہوتے تھے تاکہ وہ اپنے رشتہ داروں کو جہاز تک چھوڑ سکیں۔شیخ پاس حاصل کرنے میں کامیاب رہے اور جو اندر گئے باہر نہیں آئے یہاں تک کہ جدہ پہنچ گئے۔جہاز سے اترنے سے قبل مسافرین کی تفتیش ہوئی آپ پکڑے گئے،کئی روز تک جہاز ہی میں آپ کو روک کر رکھا گیا۔جہاز عملہ آپ کو ہندوستان بھیجنے پر غور کررہا تھا اسی دوران آپ نے جہاز سے بھاگنے کا پلان تیار کیا۔رسی کے سہارے سمندر میں اتر گئے اور تیر کر سمندر کا کچھ حصہ پار کر لیا۔ اس طرح جہاز عملہ کے دسترس سے آپ باہر ہوگئے۔
جدہ سے آپ مکہ مکرمہ پہنچے، مدرسہ خیریہ عارفیہ میں داخلہ لیا۔ اس کے بعد مکہ ہی میں دار الحدیث میں داخلہ ہوگیا۔ پھر المعہد العالی ریاض گئے اور دو سال گزارنے کے بعد خبر لگی کہ مدینہ منورہ میں جامعہ اسلامیہ کا قیام عمل میں آیا ہے المعہد العالی کے طلبہ کو اختیار ہے جو جامعہ اسلامیہ جانا چاہتے ہیں جا سکتے ہیں ۔اس طرح آپ جامعہ اسلامیہ منتقل ہوگئے اور گریجویشن تک کی تعلیم آپ نے جامعہ اسلامیہ میں پوری کی۔یہاں پر اس بات کا اضافہ فائدہ سے خالی نہیں ہوگا کہ شیخ نے بتلایا کہ بغرض تعلیم سعودی عرب میں سب سے پہلے گیا مگر جامعہ اسلامیہ سے دوسرے نمبر پر فارغ ہوا اس لیے کہ مجھ سے قبل جامعہ اسلامیہ میں شیخ عبد الرحمن مبارک پوری ابن شیخ الحدیث عبید اللہ مبارک پوری داخلہ حاصل کرچکے تھے۔
آپ نے ہندوستان سے سعودی عرب تک کے اپنے تعلیمی سفر کو”سمندر میں چھلانگ” نامی اپنی کتاب میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔اہل علم کے درمیان یہ کتاب مشہور ہے۔مدارس وجامعات کے طلبہ کو اس کتاب کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔ اس کے مطالعے سے تعلیم کا شوق پروان چڑھے گا۔میری خوش قسمتی رہی کہ ہم نے شیخ کی زبانی یہ پورا واقعہ کلاس میں سنا ہے۔شیخ کے بیان کرنے کا انداز ہی نرالا تھا،بڑا مزہ لے کر سناتے اور ہم بصد شوق سنتے تھے۔
جامعہ اسلامیہ مدینہ سے فراغت کے بعد دار الافتاء ریاض کے داعی کے طور پر آپ کی تقرری ہوئی اور آپ افریقہ کے ملک نائیجریا دعوت کے غرض سے روانہ ہوگئے۔مسیحیت،قادیانیت اور صوفیت سے آپ وہاں نبرد آزما رہے۔ تحریری اور تقریری دونوں طرح سے آپ نے توحید کا جھنڈا نائجیریا میں بلند کیا۔کئی ایک کتابیں لکھیں۔آپ کی دعوت سے توحید وسنت کو بڑا فائدہ پہنچا۔ اس طرح تقریبا ایک دہائی افریقہ میں گزارنے کے بعد اپنے ملک ہندوستان دار الافتاء کے داعی کی حیثیت سے لوٹ آئے۔مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے شعبہ دعوت وارشاد سے وابستہ ہو کر دعوتی کاز کو فروغ دیا۔مجلس تحقیق علمی کی تاسیس کے بعد اس مجلس کو علمی وقار بخشا۔ اہم موضوعات پر آپ کے مضامین اور فتاوے اخبارات ورسائل میں شائع ہوتے رہے۔
1979ء میں مرکزی جمعیت کی ایڈھاک کمیٹی کے آپ ناظم اور مولانا عبد الوحید سلفی رحمہ اللہ اس کمیٹی کے امیر منتخب ہوئے۔مرکزی جمعیت کے چناؤ میں بھی آپ کو ناظم عمومی کے عہدہ پر برقرار رکھا گیا مگر بوجوہ تین سال کے بعدآپ اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے۔مگر جب تک دلی میں رہے مرکزی جمعیت کی مجلس عاملہ اور مجلس شوری کے رکن اور مفتی رہے۔بڑی تحقیق اور جستجو کے بعد زیرنظر مسئلہ پر فتوی لکھتے تھے۔دلائل کی رو سے جو مسئلہ آپ کو راجح معلوم ہوتا تھا اس پر ڈٹ جاتے تھے۔آپ رویت ہلال کے معاملے میں وحدت کے قائل ہیں۔پوری دنیا میں ایک ہی دن عید اور بقرعید کی نماز پڑھی جائے آپ اس موقف کے قائل ہیں۔اس موضوع پر آپ نے رسالہ بھی تحریر کیا ہے ۔
مولانا عبد الحمید رحمانی رحمہ اللہ نے 1980ء میں دہلی کے شاہین باغ میں مرکز ابو الکلام آزاد اویکننگ سنٹر کی بنیاد رکھی۔اس مرکز کے تحت جامعہ اسلامیہ سنابل کا قیام عمل میں آیا۔شیخ عطاء الرحمن مدنی اس مرکز کے تاسیسی ممبر اور خازن رہے۔بزرگوں کے اخلاص اور سعی پیہم سے مرکز نے بڑی مختصر مدت میں ترقی کی۔شیخ عطاء الرحمن مدنی نے جامعہ اسلامیہ سنابل میں تدریس کا فریضہ بھی انجام دیا۔ایک مدت تک میراث پر مشتمل آپ کی کتاب یہاں شامل نصاب رہی۔
جامعہ امام ابن تیمیہ سے فراغت کے بعد 2005ء میں مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے زیر اہتمام قائم المعہد العالی للتخصص فی الدراسات الاسلامیہ میں میں نے داخلہ لیا۔ایک سال قبل یعنی 2004ء میں ہی المعہد العالی کا قیام عمل میں آیا تھا۔میرے داخلہ کے سال المعہد العالی میں شیخ عبد المعید مدنی علی گڑھی، مولانا مفتی جمیل احمد سلفی مدنی، مولانا رفیق احمد سلفی(باحث دار الدعوہ دہلی) مولانا ریاض احمد سلفی(باحث دار الدعوہ دہلی) اور شیخ عطاء الرحمن مدنی حفظہم اللہ وہاں استاد مقرر تھے۔شیخ عطاء الرحمن مدنی بالکل وقت پر اپنی پرانی اور تاریخی گاڑی سے اہل حدیث کمپلیکس پہنچ جاتے اور ہمیں میراث پڑھایا کرتے تھے۔دو سال ہم شیخ سے ان کی کتاب تیسیر الفرائض پڑھتے رہے۔خود مؤلف تھے مگر دوران تدریس جیسے کوئی اہم مسئلہ درپیش ہوتا اور کتاب میں میراث کا کوئی حساب محل نظر سمجھ میں آتا فورا تصحیح فرماتے تھے۔تصحیح اور رجوع میں کوئی تامل نہیں کرتے تھے ایک ایک مسئلہ کو کئی کئی بار دہراتے تھے۔بولتے بولتے جب سانس پھولنے لگتی تو فورا جیب سے دوا نکالتے اور استعمال کرتے تھے۔
طلبہ کو تزکیہ کی ضرورت ہوتی تو جوگابائی میں واقع اپنے گھر کلاس کے بعد وقت دیتے۔ اگر طالب عالم وقت پر پہنچتا تو تزکیہ دیتے ورنہ واپس کردیتے۔ ایک مرتبہ میں معمولی تاخیر سے شیخ کے گھر پہنچا تو شیخ نے مجھے بھی واپس کردیا اور فرمایا کہ اس سے آپ کو وقت کی اہمیت معلوم ہوگی۔الفاظ اور جملے کی صحت ادائیگی پر بھی شیخ نگاہ رکھتے تھے۔ ایک دفعہ میں نے بے ساختہ شھادہ عالمیہ کو لام کے فتحہ کے ساتھ بول دیا، آپ نے گرفت کرلیا سخت برہم ہوگئے اور ہماری اصلاح کی۔
پیری اور جسم میں نقاہت کی وجہ سے آپ نے بعد میں دہلی کو خیر باد کہہ دیا۔اپنے آبائی وطن بہار لوٹ گئے۔اپنے داماد شیخ عبد المتین سلفی مدنی رحمہ اللہ کے ادارہ جامعہ امام بخاری کشن گنج اور جامعہ عائشہ صدیقہ للبنات کشن گنج کی آپ سرپرستی کرتے رہے۔جامعہ امام بخاری سے شائع ہونے والے ماہنامہ پیام توحید کے آپ ایڈیٹر بھی رہے،آپ کے توسط سے میرے کئی مضامین اس ماہنامے میں شائع ہوئے۔
شیخ کو اللہ نے غیر معمولی علمی صلاحیت دی ہے۔اردو ہندی انگریزی عربی اور بنگالی زبان میں یکساں طور پر آپ لکھ اور بول سکتے ہیں۔ ان تمام زبانوں میں پچاس سے زائد آپ کی تصنیفات ہیں۔عبادت اور اخلاق میں آپ سلف صالحین کی یاد گار ہیں۔
شیخ سے میری آخری ملاقات چند ماہ قبل جامعہ امام بخاری کشن گنج میں سعودی فارغین کے اجلاس میں ہوئی۔ اس وقت بھی آپ بیمار تھے کئی لوگوں کے سہارے اجلاس میں لائے گئے تھے۔ آپ کو اعزاز سے نوازا گیا۔تمام عرب وعجم علماء نے آپ کے سر کا بوسہ لیا۔آپ کی آنکھوں سے آنسو ٹپک رہے تھے۔کئی سالوں بعد شیخ سے ملاقات ہوئی تھی لیکن شیخ اس پوزیشن میں نہیں تھے کہ ان سے بہت زیادہ بات کی جاتی، صرف علیک سلیک پر اکتفا کیا اور پھر شیخ کو اجلاس گاہ سے لے جایا گیا۔
شیخ کی عمر اس وقت نوے سے متجاوز ہے، دہلی میں زیر علاج ہیں۔میری دعا ہے کہ اللہ شیخ محترم کو شفائے عاجل وکامل عطا فرمائے۔ آمین
آپ کے تبصرے