مبصر: سہیل انجم
کتاب: مولانا ابوالکلام آزاد
مصنف: مولانا محمد اسحق بھٹی
صفحات: 175
قیمت: 275 روپے
ناشر: دانشکدہ پبلی کیشنز، مؤناتھ بھنجن، یوپی
مولانا ابوالکلام آزاد کے عاشقوں، مداحوں اور عقیدت مندوں کی بہت بڑی تعداد ہے جو دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہے۔ ان میں ہر قسم کے لوگ شامل ہیں۔ تعلیم یافتہ بھی، ناخواندہ بھی اور کم خواندہ بھی۔ شعرا بھی ادبا بھی، صحافی بھی، قلمکار بھی، فنکار بھی اور سیاست داں بھی۔ ان میں سے بیشتر نے مولانا آزاد پر مضامین تحریر کیے ہیں اور بیشتر نے کتابیں تصنیف کی ہیں۔ ان کی سوانح بھی لکھی گئی اور ان کی ذات و خدمات پرالگ الگ پہلووؤں سے روشنی بھی ڈالی گئی ہے۔ ان عاشقانِ آزاد میں ایک نام مولانا محمد اسحق بھٹی کا بھی ہے۔ مولانا مرحوم صاحب طرز ادیب، مؤرخ، صحافی، قلمکار، سوانح نگار اور تذکرہ نگار تھے۔ میں نے ان کی متعدد کتب کا مطالعہ کیا ہے جن میں ایک کتاب ’’بزم ارجمنداں‘‘ ہے۔ اس کتاب میں اپنے عہد کی بڑی شخصیات پر تفصیلی مضامین یا خاکے شامل ہیں۔ ان کی ایک لاجواب کتاب مولانا ابوالکلام آزاد پر بھی ہے۔ جو ایک طرح سے مولانا آزاد کی سوانح حیات ہے۔ اس کو مکتبہ الفہیم مئو ناتھ بھنجن یوپی نے شائع کیا ہے۔ اس کتاب میں مولانا سے مصنف کے اشتیاقِ ملاقات اور ایک عرصے کے بعد ملاقات کے لمحات کا دلنشین بیان بھی ہے۔
اس کتاب کا مقدمہ معروف صاحب قلم و مصنف مولانا رفیق احمد رئیس سلفی نے تحریر کیا ہے۔ انھوں نے مولانا پر کیے جانے والے متعدد اعتراضات کا مسکت جواب دیا ہے اور اس دور کے حالات کے تناظر میں اپنی بات رکھی ہے۔ ان کے بقول اس کتاب میں مولانا آزاد چلتے پھرتے نظر آئیں گے۔ یہ کتاب قارئین کو مولانا کے ڈرائینگ روم تک لے جائے گی جہاں وہ دیکھیں گے کہ کس وقار، متانت اور دردمندی سے مولانا متحدہ پنجاب کے ایک مسلم وفد سے محو گفتگو ہیں۔ کتاب کے مصنف وفد کی ترجمانی فرما رہے ہیں۔ کاش ہم بھی ان آنکھوں کو دیکھ پاتے جن کو مولانا آزاد کو دیکھنے کا شرف حاصل ہوا۔
مولانا رفیق احمد رئیس سلفی نے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ شماریات کے ایک پروفیسر کی کتاب کا (جن کا نام نہیں لکھا گیا ہے) ذکر کیا ہے۔ کتاب کا نام ہے ’’مسیحا کون سرسید یا آزاد‘‘۔ اس کتاب میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ مسلمانوں کی مسیحائی سرسید نے کی آزاد نے نہیں۔ مولانا سلفی نے بھرپور انداز میں ان کے افکار کا محاکمہ و محاسبہ کیا اور ان کا رد کیا ہے۔ انھوں نے بجا طور پر لکھا ہے کہ دونوں نے اپنے اپنے دور کے لحاظ سے ملت کے حق میں کام کیا۔ ان کے بقول:
’’آزادی کی تحریک چل رہی تھی۔ انگریز ملک سے جانے کے لیے تیار تھا۔ ایسے حالات میں کیا یہ ممکن تھا کہ مولانا آزاد کسی مسلم یونیورسٹی کی بنیاد رکھتے اور مسلمان بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے مواقع فراہم کرتے۔ اسی طرح جب انگریز کی مخالفت میں ایک لفظ بولنا خود کو تختۂ دار پر لٹکانے کے مترادف تھا کیا یہ ممکن تھا کہ سرسید آزادی کی تحریک چلاتے اور ہندوستانی عوام کو انگریزوں سے عدم تعاون کے لیے آمادہ کرتے۔ یہ تقابلی مطالعہ نا مناسب اور غیر منطقی ہے۔ کتاب میں مولانا آزاد کے تعلق سے جو کچھ لکھا گیا ہے وہ غلط ہے، حقیقت بیانی سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ منجدھار میں طوفانوں سے نبردآزما مجاہد کی کارکردگی پر سوالیہ نشان اگر وہ شخص کھڑا کرے جو ساحل پر کھڑا تماشہ دیکھ رہا ہو تو اس کے تبصرے و تجزیے کو وہی شخص اہمیت دے گا جو خود اپنی سوجھ بوجھ سے ہاتھ دھو بیٹھا ہو۔‘‘
مولانا سلفی نے مولانا آزاد کے سیاسی افکار پر بھی روشنی ڈالی ہے اور مذہبی فکر پر بھی۔ انھوں نے مولانا کی بعض تصانیف پر بھی اشاروں میں گفتگو کی ہے۔ بہرحال مقدمہ بہت بھرپور اور مبسوط ہے جو ان کے مطالعۂ آزاد کی گہرائی کا ثبوت دیتا ہے۔
کتاب کے مصنف مولانا محمد اسحق بھٹی 1939 میں فیروزپور پنجاب میں مولانا عطاء اللہ حنیف سے علوم عربیہ کی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ انھی دنوں انھیں معلوم ہوا کہ مولانا آزاد بمبئی ایکسپریس سے وہاں سے گزریں گے۔ وہ لاہور جا رہے ہیں۔ انھوں نے لکھا ہے کہ ہم بھاگم بھاگ اسٹیشن پہنچے، پلیٹ فارم ٹکٹ لیا اور مولانا کی زیارت کے لیے پہنچ گئے۔ ٹرین آئی تو مولانا آزاد زندہ باد کے خوب نعرے لگے۔ لیکن مولانا اس ٹرین میں نہیں تھے۔ لیکن بھٹی صاحب مایوس نہیں ہوئے۔ ان کے دل میں مولانا کے دیدار اور ملاقات کی خواہش انگڑائیاں لیتی رہی۔ بالآخر ایک سال بعد 1940 میں انھیں لاہور کے علاقہ گول باغ میں مولانا کے پہلے دیدار کا موقع مل گیا۔ اب اس واقعہ کی منظر کشی ملاحظہ فرمائیں:
’’ہم گول باغ پہنچے تو بے شمار آدمی جمع تھے۔ لوگ کاروں اور تانگوں سے آتے اور اتر کر قناطوں میں داخل ہو جاتے تھے۔ ہماری طرح بہت سے لوگ وہاں کھڑے بھی تھے جو مولانا کو دیکھنا چاہتے تھے۔ اتنے میں شور ہوا مولانا ابوالکلام آزاد آگئے۔ ساتھ ہی نعرے گونجنے لگے۔ ہم دوڑ کر ہجوم کی طرف گئے تو دیکھا کہ سڑک کے عین وسط میں سیاہ رنگ کی ایک کار ہے جو نہایت دھیمی رفتار سے چل رہی ہے۔ اس کے دائیں بائیں اور آگے پیچھے چاروں طرف بہت سے نوجوان لمبے لمبے بانسوں کی دیواریں سی بنائے کار کے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں تاکہ لوگ مولانا کو دیکھنے کے بے تابانہ جوش میں یوں آگے نہ بڑھ جائیں کہ گاڑی کا چلنا مشکل ہو جائے۔ اس طرح آگے جانے کا راستہ بنتا جاتا تھا۔ مولانا دونوں طرف کھڑے ہوئے لوگوں کو ہاتھ کے اشارے سے خیرمقدمی سلام کا جواب دیتے جاتے تھے۔ ہم ایک دوسرے کا (مولانا عبید اللہ احرار) ہاتھ پکڑ کر کہ بچھڑ نہ جائیں ہجوم میں گھسے اور مولانا کے بالکل قریب پہنچ گئے۔ انھوں نے کندھوں پر گرم چادر اوڑھ رکھی تھی۔ اس کے بعد زور کا دھکہ لگا اور لوگ دور تک پیچھے کو چلے گئے۔ یہ مولانا کا پہلا دیدار تھا جو میں نے کیا۔‘‘
اب ایک اور منظر ملاحظہ فرمائیں:
’’دوسرے دن اخبار کے صفحہ اول پر نمایاں طور پر یہ خبر دی گئی تھی کہ آج موچی دروازے کے باہر مولانا اابوالکلام آزا دجلسۂ عام میں تقریر کریں گے۔ میری جیب میں دو روپے تھے۔ بس اسٹینڈ پر آیا، پانچ آنے کا ٹکٹ لیا،بس میں بیٹھا اور پچاس میل کا سفر طے کرکے لاہور آاترا۔ اب موچی دروازے جانا کوئی مشکل کام نہ تھا۔ کل اسے اچھی طرح دیکھ لیا تھا۔ جس طرف سے مولانا کو جلسہ گاہ میں داخل ہونا تھا وہاں دونوں طرف آمنے سامنے پہلے تو احرار رضاکار سرخ قمیصیں پہنے، ہاتھوں میں کلہاڑیاں اٹھائے اور کلہاڑیوں کو ایک دوسری سے ملائے کھڑے ہیں۔ خاکسار بیلچے سے بیلچہ ملائے اور پھر ہندو نوجوان لاٹھی سے لاٹھی کا سرا جوڑے ہوئے ہیں۔ یہ ایک محراب سی تھی جس کے بیچ سے مولانا کو گزرنا تھا۔ دروازے پر ایک بڑا سا کپڑا آویزاں تھا جس پر موٹے موٹے سنہری حروف میں مرقوم تھا ’ہندوستان کا بے تاج بادشاہ مولانا ابوالکلام آزاد زندہ باد‘۔ بے شمار لوگ جلسہ گاہ میں موجود تھے۔ دور تک انسانوں کے سر ہی سر نظر آتے تھے۔ میں ہجوم میں گھس گھسا کر اسٹیج کے قریب جا پہنچا۔ اسٹیج پر کئی رہنما بیٹھے تھے۔ مرد بھی عورتیں بھی۔ جلسہ گاہ کے ارد گرد کے مکانوں کی چھتیں لوگوں سے بھری ہوئی تھیں۔ درختوں پر بھی لوگ چڑھے ہوئے تھے۔ میں نے وہاں نصب لاؤڈاسپیکر گنے چودہ تھے۔‘‘
اس کے بعد بھٹی صاحب نے جلسہ کی کارروائی کا ذکر تفصیل سے کیا ہے۔
کتاب کا بہت اہم حصہ وہ ہے جس میں مولانا آزاد اور علامہ اقبال کے باہمی تعلقات کا ذکر ہے۔ انھوں نے اس تعلق کے حوالے سے جو تفصیلات پیش کی ہیں وہ 22 صفحات پر پھیلی ہوئی ہیں۔ بھٹی صاحب لکھتے ہیں کہ بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ ابوالکلام آزاد اور علامہ اقبال کی کبھی باہم ملاقات نہیں ہوئی۔ وہ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ مولانا بے شمار شعرا کے اشعار اپنی مختلف کتابوں میں درج کرتے ہیں لیکن اقبال کا کوئی شعر درج نہیں فرماتے۔ اس کے بعد بھٹی صاحب نے تقریباً دو درجن واقعات کا ذکر کرکے دونوں کے باہمی رشتوں اور ان کی ملاقاتوں پر روشنی ڈالی ہے۔ مولانا آزاد کے اقبال کے اشعار درج نہ کرنے کے واقعے کی تردید کرتے ہوئے مولانا بھٹی لکھتے ہیں کہ غبار خاطر کے مکتوب نمبر 20 میں جو 18 مارچ 1943 کا تحریر فرمودہ ہے مولانا نے اقبال کا ایک شعر درج کیا ہے جو یہ ہے:
تا تو بیداری شوی، نالہ کشیدم، ورنہ
عشق کاریست کہ بے آہ و فغاں نیز کنند
(یہ شعر زبور عجم (طبع دوم اپریل 1944 ) کے صفحہ 101 پر مرقوم ہے)
بھٹی صاحب مولانا آزاد اور علامہ اقبال کے باہمی مراسم و علائق کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ کوئی اہم مسئلہ درپیش ہو تو علامہ خود بھی مولانا سے دریافت کرتے ہیں اور لوگوں کو بھی ان کے علم و فضل سے مستفید ہونے کا مشورہ دیتے ہیں۔ ان کی تصانیف کا مطالعہ کرتے ہیں اور اپنی تصانیف ان کو بھجواتے ہیں۔ ان کے اخبار الہلال کے لیے خریدار مہیا کرتے ہیں۔ مولانا بھی ان کے فکر و فن، شاعرانہ کمالات اور فلسفہ و حکمت کے قدردان ہیں اور برملا اس کا اظہار فرماتے ہیں بلکہ ان کو ملک الشعرا کا خطاب دینے کی تجویز پیش کرتے ہیں۔ ان کے اردو کلام کو عربی کا جامہ پہناتے ہیں۔ اپنے اخبار البلاغ کے صفحۂ اول پر ان کا کلام شائع کرتے ہیں جبکہ ان کے علاوہ اس سے قبل یا بعد کسی بڑے سے بڑے شاعر کا کلام الہلال یا البلاغ کے پہلے صفحے پر چھپنے کا اعزاز حاصل نہیں کر پایا۔ غبار خاطر میں ان کا شعر درج کرتے ہیں حالانکہ اس کتاب میں ان کے کسی معاصر شاعر کا کوئی شعر درج نہیں ہوا۔ ان کی وفات پر بیان دیتے ہیں جس میں گہرے حزن و ملال کا اظہار کیا جاتا ہے۔ پھر وہ ان تمام باتوں کی تائید میں بے شمار واقعات پیش کرتے ہیں۔
اقبال کی وفات کا حادثہ 21 اپریل 1938 کو پیش آیا۔ اس کے چار دن بعد 25 اپریل 1938 کو مولانا آزاد نے مولانا محی الدین احمد قصوری کے نام کلکتے سے خط لکھا جو ’تبرکات آزاد‘ کے صفحہ 74 پر درج ہے۔ خط کا نمبر 16 ہے۔ مولانا تحریر فرماتے ہیں کہ اقبال کی موت سے نہایت قلق ہوا۔ بہت آگے گئے باقی جو ہیں طیار بیٹھے ہیں۔ (مولانا طیار ایسے ہی لکھتے تھے)۔ مولانا کا ایک تعزیتی بیان افضل حق قریشی نے عبد اللہ انور بیگ کی کتاب ’دی پوائنٹ آف دی ایسٹ‘ (انگریزی) کے صفحہ نمبر 56 سے ’اقبال کے ممدوح علما‘ میں نقل کیا ہے۔ اس کے مطابق مولانا نے لکھا کہ یہ تصور کس قدر المناک ہے کہ اقبال ہم میں نہیں۔ جدید ہندوستان اردو کا اس سے بڑا شاعر پیدا نہیں کر سکا۔ ان کی فارسی شاعری کا بھی جدید فارسی ادب میں اپنا ایک مقام ہے۔ یہ تنہا ہندوستان ہی کا نہیں بلکہ پورے مشرق کا نقصان ہے۔ ذاتی طور پر میں ایک پرانے دوست سے محروم ہو گیا ہوں۔
جہاں تک علامہ اقبال کو ملک الشعرا کا خطاب دینے کا معاملہ ہے تو اس واقعے کا ذکر مولانا عبد الرزاق ملیح آباد نے اپنی کتاب ’ذکر آزاد‘ میں کیا ہے۔ مولانا آزاد نے 1925 کے آس پاس ’پیام‘ نامی اخبار جاری کیا تھا جس کے ایڈیٹر مولانا ملیح آبادی تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ مصری شاعر احمد شوقی باشا کو عرب ملکوں نے امیر الشعراء کا خطاب دیا تھا۔ اس پر مولانا آزاد کو خیال ہوا کہ ہندوستان میں ڈاکٹر اقبال کو ملک الشعراء بنا دیا جائے۔ وہ صبح ہی صبح ہاتھ میں کاغذ لے کر ملیح آبادی کے کمرے میں پہنچ گئے اور اپنی اس خواہش کا اظہار کیا۔ ملیح آبادی نے بعض وجوہ سے سخت مخالفت کی اور کہا کہ اخبار کے مالک آپ ہیں او رجو تجویز چاہیں پیش کر سکتے ہیں لیکن جب تک میں ایڈیٹر ہوں اپنے ضمیر کے خلاف کسی تجویز کی حمایت نہیں کر سکتا۔ میرا نام ایڈیٹری سے الگ کر دیا جائے۔ اس کے بعد بھی اخبار کی خدمت جاری رکھوں گا۔ اس طرح کتاب کے اس حصے میں کافی تفصیل کے ساتھ مولانا آزاد اور علامہ اقبال کے باہمی رشتوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ کتاب کا بہت اہم حصہ ہے اور اسے ان تمام لوگوں کو ضرور پڑھنا چاہیے جو ان دونوں اکابر کے تعلقات پر سوالیہ نشان لگاتے ہیں۔
کتاب میں بعض اکابر کے بیانات اور قلمکاروں کی آراء کی روشنی میں بہت سے نتائج اخذ کیے گئے ہیں۔ مولانا بھٹی نے مولانا آزاد سے اپنی ملاقات کا بھی دلچسپ انداز میں ذکر کیا ہے۔ مولانا کی تفسیر پر بھی گفتگو ہے اور ان کی سیاسی سرگرمیوں پر بھی۔ اس میں وہ حصہ بھی بہت اہم ہے جو اس بزرگ کے حوالے سے ہے جن کے نام مولانا نے اپنی تفسیر معنون کی ہے۔ مولانا بھٹی جماعت اہل حدیث کے ایک رسالے ’الاعتصام‘ کے ایڈیٹر تھے۔ اس میں انھوں نے اکتوبر 1960 میں ایک بزرگ مولانا حکیم عزیز الرحمن عمری (جامعہ دار السلام عمر آباد، مدراس) کا ایک طویل مضمون شائع کیا تھا جس کا عنوان تھا ’تفسیر ترجمان القرآن کا انتساب‘۔ اس طویل مضمون میں اس بزرگ کے حالات زندگی نقل کیے گئے ہیں۔ پہلے وہ انتساب ملاحظہ فرمائیں جو مولانا آزاد نے اس بزرگ کے نام لکھا تھا۔ انھوں نے ترجمان القرآن کی پہلی جلد 1931 میں شائع کی تھی۔ اسے ایک ایسے شخص کی طرف منسوب کیا جو کچھ دن مولانا کی خدمت میں رہا، ان سے فیض حاصل کرتا رہا اور پھر کچھ کہے بغیر چلا گیا۔ مولانا کو اس کا نام بھی یاد نہیں رہا۔ اب انتساب کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں:
’’غالباً دسمبر 1918 کا واقعہ ہے کہ میں رانچی میں نظربند تھا۔ عشاء کی نماز سے فارغ ہو کر مسجد سے نکلا تو محسوس ہوا کہ کوئی شخص پیچھے آرہا ہے۔ مڑ کے دیکھا تو ایک شخص کمبل اوڑھے کھڑا تھا۔
آپ مجھ سے کچھ کہنا چاہتے ہیں؟
ہاں جناب میں بہت دور سے آیا ہوں۔
کہاں سے؟
سرحد پار سے…
یہاں کب پہنچے؟
آج شام کو۔ میں بہت غریب آدمی ہوں۔ قندھار سے پیدل چل کر کوئٹہ پہنچا۔ وہاں چند ہم وطن سوداگر مل گئے تھے۔ انھوں نے نوکر رکھ لیا اور آگرہ پہنچا دیا۔ آگرے سے یہاں تک پیدل چل کر آیا ہوں۔
افسوس تم نے اتنی مصیبت کیوں برداشت کی؟
اس لیے کہ آپ سے قرآن مجید کے بعض مقامات سمجھ لوں۔ میں نے الہلال او رالبلاغ کا ایک ایک حرف پڑھا ہے۔
یہ شخص چند دنوں تک ٹھہرا اور پھر یکایک واپس چلا گیا۔ وہ چلتے وقت اس لیے نہیں ملا کہ اسے اندیشہ تھا کہ میں اسے واپسی کے مصارف کے لیے روپیہ دوں گا اور وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کا بار مجھ پر پڑے۔ اس نے یقیناً واپسی میں بھی مسافت کا بڑا حصہ پیدل طے کیا ہوگا۔ مجھے اس کا نام یاد نہیں۔ مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ زندہ ہے یا نہیں۔ لیکن اگر میرے حافظے نے کوتاہی نہ کی ہوتی تو میں یہ کتاب اس کے نام سے منسوب کرتا۔
ابوالکلام آزاد12 ستمبر 1931 کلکتہ‘‘۔
بعد میں انکشاف ہوا کہ اس پراسرار اور گمنام شخص کا نام مولوی دین محمد قندھاری تھا جنھوں نے دہلی کے مدرسہ نعمانیہ میں مولانا پرول قندھاری کے پاس آخری درجے کی تعلیم حاصل کی تھی۔ انھوں نے دوسرے تعلیمی اداروں میں بھی تعلیم حاصل کی تھی۔ دین محمد قندھاری بہت صاحب علم و فضل تھے۔ وہ الہلال کے بہت بڑے مداح تھے۔ ان کے ایک دوست حکیم فضل الرحمن تھے۔ مذکورہ مضمون میں ان کے حوالے سے مولانا قندھاری کی زندگی پر بھرپور روشنی ڈالی گئی ہے۔ حکیم صاحب کے مطابق جب مولانا کی تفسیر چھپی تو انھیں ایک مدت تک اسے دیکھنے کا موقع نہیں ملا تھا۔ بہرحال یہ موقع 1945 میں ممبئی میں منعقدہ کانگریس کے اجلاس میں ہوا۔… مشکل سے ملاقات ہوئی اور اس کا سبب بنا تھا انوری کا ایک قطعہ جو انھوں نے وزیٹنگ کارڈ کے بطور مولانا کی خدمت میں بھیجا تھا۔ مولانا نے فوراً حکیم صاحب کو بلایا اور انوری کی کلیات کے بارے میں ان سے دریافت کیا۔ چونکہ مولانا بہت مصروف نظر آرہے تھے اس لیے حکیم صاحب نے فوراً گفتگو کا موضوع بدلا اور کہا کہ مولانا آپ نے اپنی تفسیر کا جس شخص کی طرف انتساب کیا ہے وہ مولوی دین محمد قندھاری ہیں۔ پھر اس کی توضیح کرتے ہوئے حکیم صاحب نے کچھ تفصیلات پیش کیں اور یہ بھی بتایا کہ دین محمد قندھاری کے ایک شاگرد سے معلوم ہوا کہ مولوی صاحب قندھار سے پیدل کوئٹہ پہنچے اور پھر انھوں نے وہ تفصیلات بتائیں کہ کس طرح وہ آپ کی خدمت میں پہنچے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ 1964 میں مولوی دین محمد قندھاری کا انتقال ہو گیا اور وہ آپ کی تفسیر نہ دیکھ سکے۔ یہ سن کر مولانا سوچ میں پڑ گئے۔ پھر فرمایا علامات تو بالکل ٹھیک ہیں۔ حکیم صاحب نے کہا کہ ان کی سب سے بڑی علامت ان کا کمبل ہے جس کا آپ نے بھی ذکر کیا ہے۔ مولانا بہت دیر تک مولوی دین محمد قندھاری کی تعریف کرتے رہے۔ پھر حکیم صاحب نے مولانا سے کہا کہ اب جبکہ یہ بات واضح ہو چکی ہے اور مولوی دین محمد قندھاری بھی زندہ نہیں رہے تو ان کے نام کی تصرح کر دینے میں کیا حرج ہے۔ مولانا نے فرمایا ابہام تصریح سے اچھا ہے۔ (یعنی جس بات پر پردہ پڑا ہے پڑا رہنے دیں)۔ حکیم صاحب کی تشفی ہو گئی اور وہ اجازت لے کر چلے گئے۔ یہ پورا مضمون جو بہت طویل ہے پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
بہرحال اس کتاب میں ایسا بہت کچھ ہے جو مولانا پر تصنیف کردہ دیگر کتب میں نہیں ہے۔ مجموعی طور پر 175 صفحات پر مشتمل یہ کتاب ایک طرح سے مولانا ابوالکلام آزاد کی انوکھی سوانح حیات ہے جو بہت خوبصورت انداز میں لکھی گئی ہے۔ قاری اس کا مطالعہ شروع کرتا ہے تو تحریر کے سحر میں ایسا گم ہو جاتا ہے کہ اسے پتہ ہی نہیں چلتا کہ اس نے کب کتاب ختم کر دی۔
آپ کے تبصرے