2/نومبر 2023 کو جمعرات تھی، آج بھی جمعرات ہے۔ آج 5/ستمبر 2024 ہے۔
پچھلے مہینے کی پہلی جمعرات کو سیفی ہاسپٹل میں وہیل چیئر سے کھڑا ہونا تھا تو مجھ سے دونوں بازو پکڑ کر اٹھانے کو کہا۔ وجہ یہ بتائی کہ اپنی طاقت لگاکر کھڑے ہونے میں سانس اکھڑنے لگتی ہے اور بہت وقت لگ جاتا ہے سانسوں کو سنبھلنے میں۔
سانس لینے میں انسان کی 45 سے 55 کیلری (Calorie) خرچ ہوتی ہے۔ سوتے ہوئے بھی بندہ ایک گھنٹے میں 40 سے 55 کیلری تک خرچ کر ڈالتا ہے۔ عمر اور وزن کے اعتبار سے اس کیلکولیشن میں کمی زیادتی بھی ہوتی ہے۔ چلنے میں اگر 150 کیلری لگتی ہے تو دوڑنے میں 300۔ بیٹھنے میں اگر 65 سے 85 کیلری خرچ ہوتی ہے تو کھڑے ہونے میں 70 سے 95۔
کھڑے ہونے کے لیے وہ اپنی کیلری خرچ نہیں کرنا چاہتے تھے کیونکہ بنتی کم تھی اور خرچ زیادہ تھا۔ بدن کی چربیاں پگھل کر پہلے سے ہی کیلری بن چکی تھیں۔ کھانا کھایا نہیں جاتا تھا، چائے اور بسکٹ کھالیا کرتے تھے۔ 500 ملی گرام دودھ والی چائے سے 325 اور 100 گرام بسکٹ سے 353 کیلری بنتی ہے۔ تیسری چیز تھی پانی، پانی سے کیلری نہیں بنتی۔
جب تک بدن میں طاقت تھی، بیماریوں نے گھیرا نہیں تھا آس پاس ہی رہتی تھیں تب تک کوئی نہ کوئی منصوبہ لے کر جیتے رہے۔ اپنے منصوبے کریش ہوتے نظر آئے تو ایک بیٹے کی زندگی میں اپنی دلچسپی کا سامان پیدا کرلیا۔ جو اولاد ملاقات کو آتی رہی اس سے ملنے والی خوشی پر جب منہ پھیر لینے والی اولاد کی بے رخی کا دکھ بڑا ہوگیا تو اعصاب کمزور پڑنے لگے، دن رات سنبھالنے کے لیے ایک بیٹی تھی زندگی میں جو پہلے ماں پھر باپ کے ساتھ کبھی گھر کبھی اسپتال میں ساتھ دیتی رہی۔ یہ بیٹی بھی دکھی ہونے کے باوجود جو سکھ دے پاتی تھی وہ بھی کیلری کی طرح کم پڑنے لگی۔
دکھ بڑھا، سوجن بڑھا، بڑھ کر چہرے پر آگیا۔ شوگر تو زمانے سے تھا پہلے آنکھوں کی بینائی لے گیا، پھر کڈنی پر اثرانداز ہوا۔ کڈنیاں سست پڑنے لگیں، بدن میں پانی بھرنے لگا۔ جو پانی اور کھانا فلٹر ہونے کے بعد باہر نکلنا چاہیے وہ جمع ہونے لگے۔ ایک ایک موومنٹ کے لیے کیلری کم پڑنے لگی۔
دھیرے دھیرے دنیا بے رنگ لگنے گی، ہر منصوبہ دھندلا ہوگیا تو خیال آیا کہ سب سے مضبوط بانہوں کا سہارا لیا جائے۔ سب سے بڑے بیٹے پر نظر انتخاب پڑی۔ اس سے پہلے کہ اپنا گھر چھوڑ کر بیٹے کے گھر جاتے، ہاسپٹل جانا پڑا۔
پچھلے مہینے یعنی اگست کی پہلی جمعرات کو ہاسپٹل لے جائے گئے۔ آج نئے مہینے ستمبر کی پہلی جمعرات کو خبر ملی کہ لائف سیونگ مشین پر لیٹے لیٹے وہ سانس رک گئی جو 72 سال سے مسلسل چل رہی تھی۔
2/نومبر 2023 کی جمعرات کو بھی صبح یہی ہوا تھا۔ دونوں سانسیں رکنے سے پہلے ایک مہینے کے حالات بہت ملتے جلتے تھے۔
اسٹرنگ پہلے ڈی ٹیچ ہوتے ہیں، سول سب سے آخر میں باڈی سے ریلیز ہوتی ہے۔ جیسے الیکٹرک تار مین بورڈ کے ہر سوئچ سے بلب، ٹیوب لائٹ، فین، فریج، اوون، واشنگ مشین وغیرہ تک کرنٹ پہنچاتے ہیں تو ہر چیز اپنا کام کرتی ہے، انسانی جسم بھی بالکل اسی طرح ہے، زندگی میں مختلف رشتوں کے تار سے انسان جڑا رہتا ہے۔ شوہر بیوی، ماں باپ، بیٹا بہو، بیٹی داماد سے جب تک بندے کا تعلق اکٹیو ہوتا ہے کسی نہ کسی کام پر لگا رہتا ہے۔ یہ جوڑ ٹوٹ جائے تو پاور سپلائی بند ہوجاتا ہے۔ جسم ڈھیلا پڑنے لگتا ہے، زندگی کے سارے کاروبار ٹھپ پڑنے لگتے ہیں، انسان جب دیکھتا ہے کہ دنیا میں اس کی کسی کو ضرورت نہیں پڑرہی تو اپنے تمام اعضاء کو کمانڈ دینا چھوڑ دیتا ہے، زندگی کو سرینڈر کرنے کی شروعات یہیں سے ہوتی ہے۔ اور پھر آخر میں روح بدن سے نکل جاتی ہے۔
دس مہینے تین دن پہلے 2/نومبر 2023 کی جمعرات کو دنیا، زندگی اور رشتوں کی حقیقت کا پورا انوبھو کرنے کے بعد ایک اور روح انسانی بدن کو تیاگ گئی تھی۔ ان کی رفیق سفر جینے کی ہمت ہار گئی تھی۔
ڈاکٹر کہہ رہے تھے ان کے پھیپھڑے خراب ہوگئے ہیں۔ پھیپھڑوں کا کام مشین کرنے لگی تھی، مشینوں میں تبدیلی ہوئی مگر ارادے نہیں بدلے۔ اولاد کی محبت اور دیکھ ریکھ کی وجہ سے حوصلے باقی رہے۔ دماغ میں پھرتی اور دل میں جوش کا اندازہ ہاتھوں کی گرمی سے ہوجاتا تھا۔ مہمان نوازی کی جو خوبی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی وہ آئی سی یو میں آنسو بن کر نکلتی تھی۔ لگاؤ کا اظہار ایسا انوکھا تھا کہ مہمان اپنا کام مؤخر کردے۔
تقدیر یہ کام نہیں کرتی۔ تقدیم نہ تاخیر۔ ہر کام کا ایک وقت متعین ہے۔
تقدیر میں لکھے نشیب و فراز سے وہ جسم کامیابی سے گزر سکتے ہیں جن میں ہڈیاں ٹھوس، اعصاب مضبوط اور خون خالص ہوں۔ یہ نشیب و فراز کبھی ختم نہیں ہوتے مگر انسانی جسم کا کمزوری (بچپن) سے توانائی (جوانی) اور پھر واپس کمزوری (بڑھاپا) کی طرف سفر جاری رہتا ہے۔ جس طرح بچوں کو ان کے والدین سہارا دیتے ہیں اسی طرح والدین کو اپنی اولاد کے سہارے کی ضرورت پڑتی ہے۔
سہارا چھوٹنے سے پہلے، سہارا چھوڑنے سے پہلے، رشتوں کے دھاگے ادھڑنے سے پہلے، سانس اکھڑنے سے پہلے بندے کو ہر کیلری کی قیمت اچھے سے سمجھ لینی چاہیے۔
صرف مال ہی نعمت نہیں ہے کہ بندہ گنتا رہے، جوڑتا گھٹاتا رہے، بیلنس چیک کرتا رہے، ترجیحات کی لسٹ بناتا رہے، ضروری کام چھوڑ کر بقیہ ٹاسک ڈراپ کرتا رہے۔ مال تو دنیا میں چھوٹ جاتا ہے، ساتھ جاتا ہے وہ عمل جو بندہ سانس رکنے سے پہلے دنیا میں کرتا رہتا ہے۔
ہوا (آکسیجن) اتنی بڑی نعمت ہے کہ جب اسے خریدنا ہو تو مال کم پڑ جاتا ہے۔ خون میں آکسیجن سپلائی کرنے کا کام پھیپھڑے کرتے ہیں، پھیپھڑے خراب ہوجائیں تو وہی کام مشین کرتی ہے۔ خون میں سے سارا کچرا نکالنے کا کام کڈنی کرتی ہے، کڈنی خراب ہوجائے تو وہی کام (ڈایالسس) مشین کرتی ہے۔ مشینوں کے سہارے جینا آسان کام نہیں ہے، رشتوں کے سہارے کمزور پڑنے لگتے ہیں۔
بدن میں جان ہو تو چلتا پھرتا ہے، جان نکل جائے تو مٹی میں دفنا دیا جاتا ہے۔ مٹی سے بنے انسان کو مٹی میں ملا دیا جاتا ہے۔
مٹی میں ملنے سے پہلے، پھیپھڑے اور کڈنی خراب ہونے سے پہلے، آکسیجن اور خون کا نظام بگڑنے سے پہلے بندے کو ہر لمحہ سترک رہنا چاہیے۔ اللہ کی دی ہوئی ہر نعمت کا، ہر کیلری ہر سانس کا اللہ کے حکم کے مطابق استعمال کرنا چاہیے۔ تاکہ سانس کبھی بھی رکے، نیکیوں کا سلسلہ نہ رکے۔ ڈپازٹ ہوتا رہے۔
ڈپازٹ کا ذریعہ چاہے صدقہ جاریہ بنے، مفید علم بنے یا نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے۔ إذا مات الإنسانُ انقطع عنه عملهُ إلا من ثلاثةٍ: إلا من صدقة جارية، أو علم ينتفع به، أو ولد صالح يدعو له (صحیح مسلم)
جمعرات 2/نومبر 2023 سے جمعرات 5/ستمبر 2024 تک 45 ہفتے اور 46 جمعراتوں میں میاں بیوی دونوں تمام قسم کی طبی مشینوں کے ساتھ ساتھ سارے کمزور اور مضبوط رشتوں کو چھوڑ کر دنیا سے ہمیشہ کے لیے چلے گئے۔ اللہ رب العالمین ان کی مغفرت فرمائے، ان کی چھوٹی بڑی تمام لغزشوں سے درگزر کرے اور ان کے تمام نیک اعمال کو قبول کرلے۔ اللہ رب العزت انھیں جنت الفردوس میں جگہ دے۔ آمین
آپ کے تبصرے