وحشت جاں کو رگ و پے میں اتر جانے دے
زندہ رہنے نہیں دیتا ہے تو مر جانے دے
کیا خبر وقت کہاں روکے کدھر جانے دے
جاں سلامت ہے تو پھر حد سے گزر جانے دے
اس سے پہلے کہ چھٹے ابر تپے صحرا سے
باندھ کے بیٹھے ہیں ہم رخت سفر جانے دے
زندگی تو نے کبھی ہم سے کوئی رائے نہ لی
تجھ سے شکوے ہیں بہت خیر مگر جانے دے
عین ممکن ہے مری راہ اسی سمت میں ہو
جس طرف کوئی نہیں جاتا ادھر جانے دے
سانحہ اس کی جدائی کا ہے مت روک
مجھے
ہاتھ سے ریت کی مانند بکھر جانے دے
شام کے رنگ سے مقتل کا گماں ہوتا ہے
ہجر زادوں کے مقدر میں سحر؟ جانے دے
وہ بھی سمجھے کبھی مفہوم خموشی کیا ہے
دھڑکنوں کو سر گفتار ٹھہر جانے دے
مجھ سے پہلے ہو مری جان تعارف تیرا
نقش اپنے تو مرے رخ پہ ابھر جانے دے
دشمنوں سے تو کوئی خوف نہیں دھوکے کا
تیر یاروں کے پس پشت اتر جانے دے
جنبش دہر نہیں جب کوئی آشوب نہیں
رائیگاں پھر یہ مرا سوز جگر جانے دے
آپ کے تبصرے