تنگ آگئی ہے آنکھ جہان خراب سے

حمود حسن فضل حق مبارکپوری شعروسخن

اڑنے لگا ہے رنگ سخن اضطراب سے

کردوں کہیں رہا نہ اسے اپنے خواب سے


واضح ہے میری ذات کے لب لباب سے

کرتا ہوں استفادہ جنوں کی کتاب سے


پھیلی ہیں جاناں وحشتیں تیرے غیاب سے

اللہ ہی بچائے ہمیں اس عذاب سے


اب اور کوئی بدعت منظر کی بات ہو

تنگ آگئی ہے آنکھ جہان خراب سے


وہ پاس آکے ایسے بچھڑتا چلا گیا

جیسے دعائیں کھینچے خدا مستجاب سے


ہم نے بھی گفتگو کو وہیں پر کیا تمام

جب بات تو تک آگئی جی اور جناب سے


میں تھا کہ مجھ کو کوئی کہیں پوچھتا نہ تھا

مشہور ہوگیا ہوں ترے انتخاب سے


پھر موسم طرب میں وہی دل اداسیاں

خالی نہیں ہے رت کوئی غم کے نصاب سے


جس کے لئے خموشی ہی کافی تھی اب اسے

قانع نہ کرسکا میں جواب الجواب سے


کھنچتی ہے آہ دل میں کہ دل نے جہان کا

نظارہ کر لیا ہے نگاہ شباب سے


اس کی ہر ایک شے میں تھا حصہ مرا حسن

گھبرا گیا ہے وہ تو فقط انتساب سے

آپ کے تبصرے

3000