اتنا آساں نہیں وحشت میں گزارا یارا

حمود حسن فضل حق مبارکپوری شعروسخن

کس سے سمجھیں کسے سمجھائیں خسارہ یارا

گوش بر نالہ یہاں کون ہمارا یارا


وقت نے حال کیا ایسا ہمارا یارا

تاب فرقت ہے نہ اب وصل کا یارا یارا


ہر قدم خون دل و جاں کی طرف بڑھتا ہے

اتنا آساں نہیں وحشت میں گزارا یارا


عمر بھر جانے کس امید پہ غم کھاتے رہے

قرض ہستی تو اجل ہی نے اتارا یارا


ظلمت دہر کو زخموں سے کریں گے روشن

بجھ گیا گرچہ مقدر کا ستارہ یارا


پھیل جاتی ہے فضا میں کوئی خوشبو کی ترنگ

نام لیتا ہے کوئی جب بھی تمھارا یارا


شہر کے شہر پہ خوابوں کا نشہ طاری ہے

آسماں اپنا ہے بے خوابی کا مارا یارا


میں جو ہوتا تو ابل پڑتا رگ جاں سے لہو

کرلیا کیسے مجھے تونے گوارا یارا


کیا عجب بازی ہے دنیا کے جنوں کی بازی

جو بھی جیتا ہے، حقیت میں ہے ہارا یارا


دشت خاموش رہا شہر نے اعراض کیا

ہم نے کس کس کو نہ رو رو کے پکارا یارا


پھر دہک اٹھا ہے سینے میں کوئی شعلہ فشاں

آہ بھرنے دے ذرا دیر خدارا یارا

آپ کے تبصرے

3000