ہر مسلمان کے لیے طلب علم کی فرضیت ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ اس تقاضے کی تکمیل میں ہمارے رویے واقعی افراط و تفریط سے پاک نہیں ہیں۔ لیکن اس خرابی سے زیادہ ہمارے سماجی سروکار میں کرپشن ہے۔ مناسب حفاظتی انتظامات اور شرعی اطلاقات و انطباقات نہ ہونے کی وجہ سے صرف تعلیمی اداروں میں ہی نہیں ہمارے گھروں میں بھی بدنظمی ہے۔ اس بدنظمی سے جو چیز سب سے پہلے خراب ہوسکتی ہے وہ نازک ہوتی ہے۔ نازک چیزوں کی فکر میں کسی فرد یا افراد کا احتیاطی اقدام سماج کو عمدگی سے محروم کرسکتا ہے۔ مگر یہ محرومی احتیاطی اقدام کی نہیں سماج میں پھیلی ہوئی بدنظمی کی دین ہے۔
تعلیم نسواں کے موضوع پر منتھن کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے کہ دکھتی رگ پر انگلی رکھنے میں کہیں ہم زیادتی نہ کردیں، مبادا دوران خون (Blood circulation) رک جائے اور ہمیں افسوس ہو۔
سماج کی بدنظمی فرد کی بدعملی کی وجہ سے ہے۔ فرد صالح، باعمل اور منظم ہوگا تو سماج میں ہر طرح کا انتظام و انصرام ہوگا، فرضیت کے اہتمام میں سہولتیں بھی ہوں گی اور ساری ضرورتیں بھی ان شاء اللہ پوری ہوں گی۔ اللہ رب العالمین ہر ضرورت کی تعیین میں شریعت کی تنفیذ ہمارے لیے آسان بنائے۔ مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ (ایڈیٹر)
عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیاں پڑھنے لکھنے میں کمزور ہوتی ہیں۔ خاص طور سے شیر شاہ آبادی بچیوں کے تعلق سے یہ تصور لوگوں کے ذہن و دماغ کی اسکرین پر بہت حد تک مضبوطی کے ساتھ ارتسام پذیر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ والدین کے اندر بچیوں کے تعلق سے وہ حساسیت نظر نہیں آتی ہے جو عام طور پر بچوں کے حوالے سے ان کے اندر پائی جاتی ہے۔
ویسے تو ابھی بھی اس برادری کی تعلیمی صورت حال بڑی خستہ ہے، لیکن بچیوں کی بہ نسبت بچوں کی تعلیم پر توجہ کی شرح پہلے سے بہت حد تک بڑھی ہے۔ جہاں تک بچیوں کی تعلیم کی بات ہے تو اس سلسلے میں کچھ گارجین سنجیدہ نظر آتے ہیں، تعلیم کے باب میں وہ لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان شرمناک تفریق سے تائب ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ لیکن اکثریت ابھی بھی غیر سنجیدگی کی دلدل میں پھنسی ہوئی ہے۔
جامعہ حسنہ للبنات تلکوباڑی میں ایک سال پڑھانے کے بعد بچیوں کے تعلق سے میں نے اپنے حسین احساسات و تجربات کو حوالۂ قرطاس کیا تھا اور اس بات پر زور دینے کی کوشش کی تھی کہ ہماری بچیاں اللہ کے فضل و کرم سے کسی بھی اعتبار سے کم نہیں ہیں، انھیں اگر عمدہ تعلیمی ماحول میسر ہوجائے، شخصیت ساز اور خوش گوار علمی فضا مل جائے تو تعلیمی افق پر درخشاں آفتاب و ماہتاب بن کر چمک سکتی ہیں۔
لیکن افسوس کہ ہم نے اس پہلو پر کبھی غور ہی نہیں کیا، یا پھر ہم غور کرنا ہی نہیں چاہتے، ہمارا مقصد صرف شادی، شادی اور بس شادی ہی ہے، خواہ بچی بلوغت کے مرحلے تک پہنچی بھی نہ ہو۔ شادی کردی، ذمہ داری سے آزاد ہوگئے، ہم دیکھتے ہیں کہ بہت ساری ذہین، محنتی اور باصلاحیت بچیاں ہماری بے حسی اور غیر ذمہ دارانہ روش کی بھینٹ چڑھ گئیں۔ ان کو اگر تعلیم مکمل کرنے کا موقع ملتا تو علمی دنیا میں اپنا ایک نمایاں مقام پیدا کرسکتی تھیں۔ سماج و معاشرے میں پھیلی ہوئی بہت ساری برائیوں اور خانگی معاملات کی ناہمواریوں کی اصلاح ہو سکتی تھی۔ نسواں اداروں میں تعلیم بذریعۂ مرداں یا نسواں کی پیچیدہ گتھی سلجھاؤ کی منت پذیر ہوسکتی تھی۔
نسواں ادارے جہاں جوان اور بالغ بچیاں تعلیم حاصل کرتی ہیں، معلمات کی ایک کثیر تعداد فروکش ہوتی ہے، وہاں میل ٹیچر کا تدریسی فریضہ انجام دینا، بے محابا اور وقت بے وقت آمد و رفت کرنا کسی بھی طور پر قرین صواب نہیں لگتا۔ اس عملِ منکر کی وجہ سے بہت ساری قباحتیں ظہور پذیر ہوتی ہیں۔ بسا اوقات شرمناک واقعات بھی رونما ہو جاتے ہیں۔ تعلیم و تدریس جیسے عظیم المرتبت فریضے کی ردائے تقدس تار تار ہوتی ہے۔ بخاری کا درس دینے والے غیر موسمی بخار کا شکار ہو کر ہذیانی حرکتیں کرتے ہیں۔ خست و نذالت اور خلاعت و بے قیدی کے ایسے ایسے رسوا کن انکشافات سے گوش آشنا ہوتے ہیں کہ جن کو اگر صحیح مان لیا جائے تو بعض نام نہاد بلند مرتبہ حضرات کا تشخص ہی معرضِ شک میں پڑ جاتا ہے۔
بھرم کھل جائے ظالم تیرے قامت کی درازی کا
اگر اس طرۂ پر پیچ و خم کا پیچ و خم نکلے
ستم بالائے ستم تو یہ ہے کہ ان سارے قبائح، منکرات اور رذائل و خسائس کے ظاہر ہونے کے باوجود ہم اس سلسلے میں کبھی غور و فکر کرنا ہی نہیں چاہتے۔ ہم تعلیم نسواں بذریعۂ نسواں کے امکانات و مطالبات پر کبھی سنجیدگی کے ساتھ منتھن ہی نہیں کرتے۔ اگر گوش حق نیوش اور دیدۂ عبرت نگاہ دونوں کو اچھی طرح وا کر کے غور و خوض کیا جائے تو ان شاءاللہ اس مسئلے کی زلف پریشاں کے سارے پیچ سنور سکتے ہیں۔ اس حوالے سے ذیل میں چند قلبی احساسات کو الفاظ و حروف کے قالب میں ڈھالنے کی کوشش کی گئی ہے:
١۔ ذمہ داران کے اندر اخلاص کا ہونا از حد ضروری ہے۔ ذمہ داران اگر مخلص نہ ہوں، اپنے اداروں کے تئیں ان کے جذبات نیک نہ ہوں، تعلیمی معیار کو دن بدن عمدہ سے عمدہ تر اور پھر عمدہ ترین بنانے کی فکر نہ ہو، تعلیم و تربیت پر تجارتی منافع کی حصول یابی غالب ہو، کوالٹی سے قطع نظر صرف کوانٹٹی پر توجہ مرکوز ہو، تو مطلوبہ ٹارگیٹ کا حصول کسی بھی طور پر ممکن نہیں۔ اربابِ انتظام اگر مخلص ہوں گے تو وہ اچھے اساتذہ کا انتخاب کریں گے۔ تعلیمی صورت حال کا وقتا فوقتاً جائزہ لیں گے۔ان کے نزدیک لیاقت ہی معیارِ ترجیح ہوگی۔ تملق پسندی کے مرض خبیث سے دور رہیں گے۔ جب ایسا ہوگا تب اساتذہ بھی اپنی محنت و صلاحیت پر یقین رکھیں گے۔ کفش برداری اور جی حضوری کے زہر ہلاہل سے ادارے کی فضا مسموم نہیں ہوگی۔ خوش گوار علمی ماحول ہوگا۔ ادارے کے درودیوار صرف علم و تعلیم کی روح پرور خوشبو سے معطر ہوں گے۔
٢۔ اساتذہ کسی بھی ادارے کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی توفیق کے بعد وہ اگر چاہیں تو ادارے کو شہرت و ناموری کے اوج ثریا پر پہنچا سکتے ہیں اور اگر چاہیں تو قعر خمول میں ڈھکیل بھی سکتے ہیں۔ ادارے کی تعمیر و ترقی اور تخریب و تنزل دونوں میں انھی کا رول سب سے اہم ہوتا ہے۔ اس لیے اساتذہ کا مخلص ہونا نہایت ہی ضروری ہے۔
بچیوں کے حوالے سے اگر کسی استاذ کے ذہن و دماغ میں یہ فکر قائم ہے کہ بچیاں بچوں کے مقابلے میں کمزور ہوتی ہیں۔ ان کا کتاب فہمی کا معیار اتنا بلند نہیں ہوتا ہے جتنا بچوں کا ہوتا ہے، تو یہ نہایت ہی غلط فکر ہے، میرا ذاتی تجربہ یہ بتاتا ہے کہ اگر استاذ بچیوں کو صحیح طور پر پڑھائے اور انھیں لائق اعتنا سمجھے تو بچیاں بچوں کے نہ صرف شانہ بشانہ کھڑی ہوسکتی ہیں بلکہ بسا اوقات ان پر فوقیت بھی حاصل کرسکتی ہیں۔
مادیت کی حشرسامانی اپنی جگہ، لیکن جب ہم کسی ادارے میں آپسی گفت و شنید کے بعد معمولی تنخواہ پر بھی بحال ہوجاتے ہیں تو اخلاص کے ساتھ تدریس ہی ہمیں اپنی ذمہ داری سے عہدہ بر آ کر سکتی ہے۔ معمولی تنخواہ کا بہانہ بنا کر تدریس میں خیانت کرنا کسی بھی طور پر جائز نہیں ہو سکتا۔
٣۔ گارجین حضرات کو اس پہلو پر سنجیدگی کے ساتھ غور وفکر کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ بہت ساری بچیوں کا شکوہ یہ ہے کہ ہمارے لاکھ چاہنے، انقطاعِ تعلیم کے درد کا ہر طرح سے اظہار کرنے، رونے دھونے حتی کہ بھوک ہڑتال کرنے کے باوجود ہمارے والدین تعلیمی سلسلے کو آگے بڑھانے پر آمادہ نہیں ہیں، انھیں بس یہی فکر دامن گیر رہتی ہے کہ کسی بھی طرح ہماری شادی کرادیں اور اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو جائیں۔ جی ہاں! یہ بات بالکل درست ہے، گرچہ انتہائی درجہ تکلیف دہ ہے۔ کتنی ہی ذہین اور محنتی بچیوں کا مستقبل اور ان کی لائقِ تحسین صلاحیتیں اس ظالمانہ نظام معاشرہ اور جاہلانہ طرزِ فکر کی بے رحم قربان گاہ پر ضائع ہوگئیں، خود ہمارے ادارے کی ایسی ایسی بچیاں وقت سے پہلے رشتۂ ازدواج سے انسلاک اور انقطاعِ تعلیم کا درد لے کر نکلیں کہ انھیں اگر تکمیلِ تعلیم کا موقع ملتا تو باصلاحیت بن کر نکلتیں اور مسند تعلیم و تربیت کو زینت بخشتیں، بعض بچیاں تو ایسی بھی تھیں جو منتہی درجات میں پڑھا سکتی تھیں، ان کے اندر کتاب فہمی کی قابل رشک صلاحیت تھی۔ قوی امید تھی کہ وہ مستقبل میں علم و ادب کے خوش رنگ دبستان سجاتیں اور اس عالم آشفتہ کی زلف و کاکل کو سنوارنے میں مردوں کے دوش بدوش چلتیں۔ لیکن گارجین کی سطحی سوچ اور غیر ذمہ دارانہ رویے نے انھیں کلاس روم سے ہٹاکر کچن میں بٹھا دیا، جو ہاتھ ابھی قلم پکڑنے کے لیے تھا اس میں چمچے تھما دیے، جو ذہن ابھی آزادانہ ماحول میں کتابوں کی باریکیاں سمجھنے کا دھیرے دھیرے متحمل ہو رہا تھا، اسے ساس کی کائیں کائیں، نند کی ہائے ہائے اور خاوند کی فرمائشوں سے آشنا کردیا، جو ابھی خود بچی تھی اور اپنے والدین سے ناز برداری کروانے کے خوش گوار مرحلۂ حیات سے گزر رہی تھی اسے بڑی بے دردی سے دوسرے کی ناز برداری کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ یوں اس کی زندگی اب ہمیشہ کے لیے بے لطف اور بے معنی ہوکر رہ گئی۔
تعلیمی سلسلے کو آگے بڑھانے کے لیے سب سے پہلے گارجین حضرات کو ہی رسک لینا پڑے گا، صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا ہوگا، جس ماحول میں جہل اور دین بے زاری کا گھٹا ٹوپ اندھیرا چھایا ہوا ہے، ہندوانہ رسوم و روایات کی جڑیں انتہائی مضبوط ہیں، شادی بیاہ کو جس میں کمر شکن بوجھ بنا دیا گیا ہے، تعلیم و تربیت سے چشم پوشی اور دولت و ثروت کا ہی جس میں گرم جوشی سے استقبال کیا جاتا ہے، یکایک اس میں تبدیلی پیدا کرنا مشکل کام ہے، ہر کوئی اگر ہمت ہار کر بیٹھ جائے، تو یہ معاشرہ کبھی بھی انقلاب پذیر نہیں ہو سکے گا، اس لیے گارجین حضرات کو اس تعلق سے غور و خوض کرنا چاہیے، انھیں چاہیے کہ اساتذہ سے بات چیت کریں، ان سے مشورہ طلب کریں اور یہ جاننے کی بھرپور کوشش کریں کہ ان کی بچیاں آگے چل کر کیا کرسکتی ہیں۔
٤۔ ذمہ داران، اساتذہ اور گارجین کے درمیان کوآپریشن ہونا بھی ضروری ہے، سال میں کم سے کم ایک دو گارجین میٹنگ کا انعقاد ضرور ہونا چاہیے، جس میں ہر گارجین سے فرداً فرداً گفت و شنید ہو، بچیوں کی تعلیمی صورت حال کے بارے میں انھیں بتایا جائے، تعلیمی رپورٹ ان کے سامنے پیش کی جائے اور کمی خامی سے انھیں آگاہ کیا جائے، خاص طور پر جو بچیاں پڑھنے میں ممتاز ہیں، مستقبل میں جن سے نسواں اداروں میں تعلیمی خلا کو پر کرنے کے تعلق سے توقعات وابستہ ہیں، ان کے بارے میں بتایا جائے، ہوسکے تو ایسی بچیوں کے لیے ادارے میں بعض سہولیات فراہم کی جائیں، ان کی فیس وغیرہ میں ممکنہ تخفیف کی جائے، تو ان شاءاللہ دھیرے دھیرے ماحول ساز گار ہوگا۔
٥۔ اس تعلق سے ایک اور اہم بات یہ ہے کہ شادی کے وقت تعلیم یافتہ بچیوں کو ترجیح دی جائے، افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ جہل پسند اور دولت کا دلدادہ ہوتے جارہا ہے، اس معاملے میں کیا عالم کیا جاہل سب کے سب ایک ہی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں، پڑھے لکھے مولوی حضرات بھی شادی کے وقت رنگت، ثروت اور صغر سنی کو ہی ترجیح دیتے ہیں، وہ بھی ڈھونڈ ڈھونڈ کر متوسطہ درجات کی بچیوں سے شادی کرتے ہیں، حالانکہ جو معلمی کے پیشے سے وابستہ ہے اسے کسی معلمہ ہی سے شادی کرنا چاہیے، اس میں بہت ساری تسہیلات فراہم ہوتی ہیں، کئی جگہوں پر تو تقرری کے وقت تعلیم یافتہ جوڑے کو ہی ترجیح دی جاتی ہے، میں اپنے کئی ایسے ساتھیوں کو جانتا ہوں جو آج اسی وجہ سے پر سکون زندگی گزار رہے ہیں، اخلاقیات کی بات الگ ہے، حسن سیرت کے بنا ازدواجی زندگی میں چین و سکون طلب کرنا تو کریلے کی بیل پر خوشۂ انگور کی امید کے مترادف ہے۔ تعلیم اور حسن سیرت کا امتزاج ہو جائے تو زندگی جنت زار بن جائے گی۔
جذبات کا ہجوم ہے، احساسات کا انبار ہے، درد جگر شدت سے تقاضا کر رہا ہے کہ داغ ہائے جگر سے صفحۂ قرطاس کو لالہ زار بنادوں۔ سردست ان قلبی احساسات و خیالات کو ضبطِ تحریر میں لانے کا مقصد یہ ہے کہ ان پر غور کیا جائے۔ چشم اشک بار، دل جوئے بار اور قلم خوں بار کے ساتھ لکھی گئیں ان سطورِ پر درد کو شائستۂ التفات ٹھہرایا جائے۔ ارباب علم و دانش اپنے طائرِ تخیل کی بلند پروازی سے اس موضوع کے نت نئے گوشوں کو مزید واضح کریں اور قوم و ملت کی بچیوں کو یوں ضائع ہونے سے بچایا جائے۔ ابھی بھی تلافیِ مافات کا وقت باقی ہے۔ اللہ تعالیٰ توفیق ارزانی کرے۔ آمین
آپ کے تبصرے