گھر کا بڑا بیٹا

تسلیم حفاظ عالی سماجیات

گھر کا بڑا بیٹا ایک ایسا کردار ہے جو بظاہر سب کے درمیان ہوتا ہے مگر حقیقت میں سب سے زیادہ تنہا ہوتا ہے۔ وہ بچپن ہی سے والدین کی نگاہوں میں توقعات کا ایک الگ مرکز بن جاتا ہے۔ جب چھوٹے بہن بھائی اپنی شرارتوں میں مصروف ہوتے ہیں، تب اس کے کانوں میں یہ بات بار بار ڈالی جاتی ہے ،تم بڑے ہو، تمھیں سمجھنا چاہیے، تمھیں سب کے لیے قربانی دینی ہے۔ یوں کھیل کود، ضد، نادانیاں اور بچپن کی معصوم خواہشات آہستہ آہستہ اس کے نصیب سے مٹتی جاتی ہیں۔

بڑا بیٹا اکثر وہ ہے جسے اپنی پہلی تنخواہ والدین کے قدموں میں رکھنی پڑتی ہے۔ اس کے خوابوں کے پر کتر دیے جاتے ہیں تاکہ بہنوں کی شادی کے پنکھ سج سکیں، بھائیوں کی تعلیم مکمل ہو سکے اور گھر کی معیشت کا پہیہ چلتا رہے۔ وہ اپنی جیب خالی کر کے دوسروں کے خواب پورا کرتا ہے، اپنی خواہشوں کو دفن کر کے دوسروں کی خواہشات کی تکمیل کرتا ہے۔

لیکن جب اس کی شادی ہوتی ہے اور اپنا چھوٹا سا گھرانہ بنتا ہے، تو اکثر اسے والدین کے گھر سے الگ کر دیا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جس نے ساری زندگی گھر کے لیے قربانیاں دیں، وہ اپنی بیوی اور بچوں سمیت ایک نئے کمرے یا الگ چھت کی تنگی میں ڈھکیل دیا جاتا ہے۔ اس کی معاشی حالت کبھی سنبھل نہیں پاتی، کیونکہ کمانے کے بہترین دن تو وہ والدین اور بہن بھائیوں کی ضروریات میں کھپا چکا ہوتا ہے۔

اس کے برعکس، چھوٹے بھائی جب بڑے ہوتے ہیں تو ان سے ایسی قربانیوں کی توقع ہی نہیں کی جاتی۔ کئی بار وہ گھر کے اخراجات میں ایک پیسہ بھی نہیں ڈالتے، بلکہ والدین ہی انھیں سہارا دیتے ہیں۔ ہوتا یہ ہے کہ بڑا بیٹا قربانی کے باوجود کنگال رہتا ہے اور چھوٹے بھائی خوش حال۔

دیگر جگہوں کی صورت حال مختلف ہوسکتی ہے۔ میں اپنے گاؤں اور علاقے میں ایک اور ظالمانہ منظر دیکھتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ والدین کے پاس جو کچھ بھی زمین یا جائیداد ہوتی ہے، بڑے بیٹے کو اپنی زندگی میں اکثر اس سے محروم رکھا جاتا ہے۔ والدین عام طور پر چھوٹے بیٹوں کے ساتھ ہوتے ہیں اور زمین جائیداد سے فائدہ بھی وہی اٹھاتے ہیں۔ بڑا بیٹا اپنے بال بچوں کی ضروریات پوری کرنے ہی میں مصروف رہتا ہے، اس کی اقتصادی حالت میں بہتری نہیں آ پاتی۔ وہ ساری زندگی دوسروں کے حصے پورے کرتا ہے، مگر جب زمین جائیداد سے فائدہ اٹھانے کا وقت آتا ہے تو اس کے حصے میں مایوسی ہی رہتی ہے۔ محنت نہ کرنے کے باوجود اصل فائدہ چھوٹے بیٹے ہی اٹھاتے ہیں اور والدین اکثر مرتے دم تک بڑے بیٹےکو اس میں سے کچھ نہیں دیتے۔ یوں ایک ایسا ظالمانہ نظام وجود میں آتا ہے جس میں محنت کرنے والا تہی دست رہ جاتا ہے اور کچھ نہ کرنے والا زندگی ہی میں وارثِ جائیداد بن جاتا ہے۔اور اگر خدا نخواستہ جوانی کے عالم میں بڑے بیٹے کا انتقال ہوجاتا ہے تواس کی اولاد کو بڑی تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بسا اوقات معصوموں کودادا کی میراث سے پھوٹی کوڑی تک نہیں ملتی ۔ ستم ظریفی یہ کہ اس وقت دادا کو شریعت کا مسئلہ اچھی طرح یاد آجاتاہے، اور اس وقت کو بھول جاتا ہے جب اس کے بڑے بیٹے نے اس کی معیشت کو سنبھالا دیا تھا۔بہنوں کی شادیوں کی ذمہ داریاں خوش دلی سے یہ سوچ کر نبھائی تھیں کہ میں اپنے باپ کا سہارا ہوں۔ سماجی منظر نامے پر جس کی گہری نظر ہے وہ اس سے انکار نہیں کر سکتا۔

یہ المیہ صرف معیشت تک محدود نہیں رہتا بلکہ جذباتی سطح پر بھی بڑا بیٹا اکثر مظلوم ہوتا ہے۔ والدین کے لاڈ پیار کا بڑا حصہ چھوٹوں کے حصے میں آتا ہے۔ بہن کی ضد پوری ہوتی ہے، چھوٹے بھائی کی غلطی معاف ہوتی ہے، مگر بڑے بیٹے کے لیے ہمیشہ یہی جواب محفوظ رہتا ہے کہ تم بڑے ہو، تمھیں برداشت کرنا چاہیے، تم باپ کا سہارا نہیں بنوگے تو اور کون بنے گا۔

ستم بالائے ستم یہ کہ سب کچھ کرنے کے باوجود، دن رات کی محنت کے باوجود، زندگی بھر کی قربانیوں کے باوجود اسے یہ طعنہ سننا پڑتا ہے کہ آخر تم نے کیا کیا ہے؟!

یہ وہ جاں گسل لمحہ ہے جب بڑے بیٹے کا دل ٹوٹ کر پارہ پارہ ہو جاتا ہے۔بسا اوقات اپنے ہی والدین سے بدظن ہو کر منفی افکار وخیالات کا اسیر بن جاتا ہے۔ٹنشن، ڈپریشن اور افسردگی کا شکار ہوجاتا ہے۔ اسے یہی سوچ پریشان کیے رہتی ہے کہ اگر اس کی قربانیاں قربانیاں نہیں تھیں، اس کی جدوجہد جدوجہد نہیں تھی، اس کی محرومی محرومی نہیں تھی تو پھر قربانی اور محرومی کس چیز کا نام ہے؟

آپ کہیں گے کہ آپ کو کہانی کے صرف ایک ہی رخ کا علم ہے ، اس لیے آپ بڑے بیٹے کی مظلومیت کی داستان بیان کیے جارہے ہیں۔میں مانتا ہوں کہ اس کہانی کا ایک دوسرا رخ بھی ہے۔بعض بڑے گھرانے کا بڑا بیٹا کبھی کبھی اپنی حیثیت اور اختیار کے بل پر سب کچھ سمیٹنے کی کوشش کرتا ہے۔ کاروبار، جائیداد اور فیصلوں پر قبضہ جما لیتا ہے۔ چھوٹوں کو موقع نہیں دیتا اور والدین کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر گھر کی سلطنت پر اپنی حکمرانی قائم کر لیتا ہے۔ یہ تصویر اگرچہ ہر جگہ نہیں ملتی، مگر جہاں ملتی ہے وہاں بڑے بیٹے کی شخصیت مظلوم کے بجائے ظالم دکھائی دیتی ہے۔

ہمیں اپنے سماج پر گہری نظر ڈالنی چاہیے۔ اگر والدین اپنی اولاد کے ساتھ انصاف کریں، بڑے اور چھوٹے کے درمیان سلوک میں فرق نہ رکھیں، زمین اور جائیداد کو عدل کے ساتھ تقسیم کریں اور سب کے حصے میں محبت اور توجہ کو برابر بانٹیں، تو یہ المیے جنم ہی نہ لیں۔ اسی طرح چھوٹے بہن بھائیوں کو بھی یہ سوچنا چاہیے کہ بڑے بھائی کی قربانیوں کو محض ایک فرض نہ سمجھیں بلکہ اس کی قدر کریں، اس کا شکریہ ادا کریں اور اس کے حصے میں محبت بڑھائیں۔

بڑا بیٹا دراصل قربانی اور ایثار کی علامت ہے۔ اگر ہم اس کی قربانیوں کو نظر انداز کریں اور اس کی محرومیوں پر آنکھ بند کر لیں، تو یہ صرف ایک شخص کے ساتھ ناانصافی نہیں ہوگی بلکہ یہ زیادتی خاندان کے سکون کو بھی زہر آلود کر دے گی۔ انصاف، شکر گزاری اور محبت ہی وہ اقدار ہیں جو اس خاموش قربانی کو عزت میں بدل سکتی ہیں۔ ورنہ وہی سوال ہمیشہ دل کو چیرتا رہے گا:

تم نے کیا کیا ہے؟

بلا شبہ اس سوال کا جواب ہمیں اپنے رویوں اور فیصلوں میں عدل و انصاف لا کر ہی دینا ہوگا۔جوائنٹ فیملی سسٹم کے مفاسد پر کھل کر بات کرنی ہوگی۔ بڑے بیٹے کی کمائی کا حساب رکھنا ہوگا۔اسلام نے ہمیں جو زندگی گزارنے کا نظام اور ضابطہ دیا ہے، اس کی تمام حالات میں اتباع کرنی ہوگی اور یہ یاد رکھنا ہو گا کہ ضابطۂ اسلام سے سرمو انحراف کر کے ہم کبھی بھی سماج سے ظلم و زیادتی کی بیخ کنی نہیں کرسکتے۔

آپ کے تبصرے

3000