تحریر: پروفیسر سعد بن ترکی خثلان
ترجمہ: آصف تنویر تیمی
پروفیسر سعد بن ترکی خثلان عالم عرب کی مشہور علمی اور دینی شخصیات میں سے ایک ہیں۔ سعودی عرب کی مشہور یونیورسٹی جامعہ الامام، ریاض کے وہ استاد ہیں۔ حرمین شریفین میں بھی ان کے لکچر ہوتے ہیں۔ اسلامی علوم وفنون میں انھیں غیر معمولی رسوخ اور دسترس حاصل ہے۔ مدارس وجامعات کے طلبا وطالبات اور علماء ومشائخ ان کے لکچر بصد شوق سنتے اور استفادہ کرتے ہیں۔
سعودی اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں نئے تعلیمی سال کے آغاز کے موقع پر انھوں نے سعودی عرب کی ایک مسجد میں گزشتہ دنوں تعلیم وتربیت کے موضوع پر شاندار خطبہ دیا۔ ان کا یہ خطبہ عربی زبان میں تھا۔ موضوع کی اہمیت وافادیت کے پیش نظر انھوں نے اپنے خطبہ کو تحریری شکل بھی دی۔ چونکہ تعلیم وتربیت کا موضوع کسی ایک ملک کے ساتھ خاص نہیں ہے، اس لیے میں نے اردوخواں حضرات کے لیے اردو قالب میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے تاکہ ان کے اس خطبے سے برصغیر کے طلبا وطالبات، معلمین ومعلمات، منتظمین اور شائقین علم ومعرفت استفادہ کرسکیں۔ اردو زبان کے تقاضے کو پورا کرنے کی خاطر اصل تحریر میں کہیں کہیں بہت معمولی تبدیلی بھی کی گئی ہے۔امید کہ اہل علم کو یہ تحریر پسند آئے گی۔
تعلیم وتربیت کی اہمیت:
بے شک تعلیم وتربیت ہر قوم کے سیکھنے، ترقی کرنے اور بلندی حاصل کرنے کا مفید ذریعہ ہے، ہر وہ قوم جس میں تعلیم وتربیت حاصل کرنے کا جذبہ غالب ہو وہ ترقی کرتی اور اقبال وعروج کا سفر طے کرتی ہے۔ نئے تعلیمی سال کے آغاز کے موقع پر جب ایک بار پھر طلبہ و اساتذہ اسکولوں اور کالجوں کی طرف لوٹ رہے ہیں تعلیم وتربیت کی اس اہمیت کو اپنے ذہن ودماغ میں رکھنا ضروری ہے تاکہ تعلیم وتربیت کا عظیم مقصد حاصل ہوسکے۔
طلبا اور مدارس:
عزیز طلبا! ان مدرسوں کے قیام، اساتذہ اور منتظمین کی تقرری کا مقصد آپ کو علم ومعرفت کے نور سے منور کرنا ہے، اس لیے کوشش کریں کہ آپ پورے شوق اور لگن سے علم حاصل کریں۔ ہمت اور حوصلہ کا مظاہرہ کریں۔ پوری دلجمعی اور یکسوئی سے اسباق پڑھیں اور یاد کریں۔آپ کا کوئی دن ایسا ہرگز نہ گزرے جس میں آپ کوئی نئی معلومات حاصل نہ کریں۔
تعجب کی بات یہ ہے کہ بہت سارے طلبا کلاسوں میں صرف اپنے جسموں کے ساتھ حاضر ہوتے ہیں ان کے قلوب واذہان کسی اور دنیا میں ہوتے ہیں۔ وہ روزانہ جس طرح خالی ذہن آتے ہیں اسی طرح خالی ذہن ودماغ بلا کسی علمی اضافہ کے چلے جاتے ہیں، کچھ نیا نہیں سیکھ پاتے۔ محض حاضری کے لیے آتے ہیں تاکہ غیر حاضر نہ شمار ہوں، ان کا یہی سلسلہ امتحان تک جاری رہتا ہے۔ امتحان کے دنوں میں اسباق پڑھنا شروع کرتے ہیں تاکہ کسی طرح امتحان میں پاس ہوجائیں۔یہی وجہ ہے کہ دور حاضر میں مدارس وجامعات میں ایسی نسل تیار ہورہی ہے جس کے پاس علم ہوتا ہے نہ معرفت۔ بسا اوقات مدارس وجامعات میں پندرہ سولہ سال گزارنے کے باوجود کچھ اتنے کمزرو طلبا ہوتے ہیں جو قرآن کی ایک آیت بھی صحیح نہیں پڑھ سکتے۔
اس تعلیم کا کیا فائدہ جس میں ایک لمبا عرصہ گزارنے کے باوجود طالب علم اپنے رب کے حقوق اور اپنے خاندان اور معاشرہ کے حقوق جاننے اور برتنے کے لائق نہ ہوسکے۔ کتنے ایسے فارغین مدارس وجامعات ہیں جن کی تعلیم وتربیت کا کوئی اثر ان پر نظر نہیں آتا۔ پنج وقتہ نمازوں سے بے اعتنائی، والدین کی نافرمانی، وقت کی بربادی، سیرسپاٹا، گالی گلوچ، احمقانہ رویہ، ان کی سرگرمیوں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ مدارس وجامعات میں گزارے ہوئے تعلیمی سالوں کا کوئی خاصہ اثر ان پر نہیں ہوا۔ اساتذہ اور انتظامیہ کی ساری توانیاں رائیگاں چلی گئیں۔
طلبا میں لیاقت کی کمی کے اسباب:
طلبا میں لیاقت کی کمی کے کچھ اسباب کا تعلق والدین سے ہے۔ بہت سارے والدین اپنے بچوں کی طرف بالکل ہی توجہ نہیں دیتے۔ ان کی تعلیم وترتبیت سے انھیں کچھ لینا دینا نہیں ہوتا۔ وہ اپنے بچوں کو مدارس وجامعات میں داخل کرکے اپنی ذمہ داریوں سے مکمل چھٹکارا حاصل کرلیتے ہیں۔جو کہ سراسر غلط اور اپنی ذمہ داریوں سے بھاگنا اور اپنے بچوں کے مستقبل کو ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ اس حوالے سے والدین کی طرف سے جو کوتاہیاں برتی جاتی ہے ان کی ایک لمبی فہرست ہے، جن کا یہاں پر تذکرہ کرنا مقصود نہیں ہے۔
اندرون مدرسہ طلبا کے تعلیمی لیاقت کی کمی کے جو اسباب ہیں ان میں سے بعض معلمین کی یہ سوچ ہے کہ ہم دیگر عام ملازمین کی طرح ایک تنخواہ یافتہ ملازم ہیں۔ طلبا کو ان کے اسباق سے فائدہ پہنچے نہ پہنچے انھیں کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ انھیں طلبا کے اخلاق وکردار سے بھی کوئی خاص تعلق نہیں ہوتا۔ کبھی تو معلم خود اپنے اخلاق وکردار کا خیال نہیں رکھتا۔ بھلا ایسے معلم سے طلبا کا کیا بھلا (فائدہ) ہوسکتا ہے۔
معلمین حضرات! آپ نے بڑی عظیم ذمہ داری قبول کی ہے۔ اس تعلق سے اللہ عزوجل آپ سے سوال کرے گا۔ تعلیم کا پیشہ بڑا محترم، بڑا بلند اور شریف پیشہ ہے۔ اس کے ذریعہ نسلوں کی تربیت ہوتی ہے۔ یہی طلبا آئندہ کی امید اور انھی کے ہاتھوں میں قوم وملت کا مستقبل ہوتا ہے۔ ان کے ساتھ خیانت پوری قوم وملت کے ساتھ خیانت ہے۔
اساتذہ کے لیے نصیحت:
اساتذہ کرام! تعلیم میں تربیتی پہلو پر خصوصی توجہ دیں۔بلا تربیت کے تعلیم کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ان اعلی اور عمدہ اخلاق سے انھیں آراستہ کریں جن پر اسلام نے ابھارا ہے۔ ان کے دلوں میں اللہ کی عظمت، اللہ کے رسول کی عظمت اور سلف صالحین کی محبت پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ آپ خود ان طلبا کے لیے بہترین نمونہ بنیں۔ اپنی تدریس میں اخلاص کی چاشنی پیدا کریں، اس کا صلہ اللہ تعالی آپ کو آخرت میں عطا کرے گا، بلکہ بسااوقات دنیا میں بھی مخلصوں کو بدلہ مل جاتا ہے۔ انتظامیہ اور طلبا ان کے اخلاص پر مبنی تعلیم وتربیت کی ثناخوانی کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آدمی کے بارے میں پوچھا گیا جو کوئی نیک عمل کرتا ہے اور لوگ اس پر اس کی تعریف کرتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ مومن کے لیے جلدی آنے والی خوشخبری ہے“۔ (صحیح مسلم)
یقیناً کچھ اساتذہ ایسے ہوتے ہیں جن کی خوشبو جیسی یادیں طلبا کے ذہنوں میں رہتی ہیں، وہ انھیں زندگی بھر بھول نہیں پاتے، کیونکہ ان کے اخلاق، ان کی رہنمائی اور ان کی محترم اور مقناطیسی شخصیت نے دل جیت لیا ہوتا ہے۔دوسری طرف کچھ اساتذہ ایسے بھی ہوتے ہیں جنھیں یاد ہی نہیں رکھا جاتا، ان کا نام اور کام فراموش کردیا جاتا ہے اور اگر ذکر ہوتا ہے تو اچھے لفظوں میں نہیں۔
اساتذہ کرام! غور کریں، یقیناً آپ کو اپنے کچھ ایسے اساتذہ یاد ہوں گے جنھوں نے آپ کو ابتدائی یا متوسط یا ثانوی درجے میں پڑھایا، یا بعض کو جامعہ میں پڑھایا ہوگا، آج بھی آپ ان کا نام، ان کی خوبیاں اور ان کے لیے دعائے خیر کرتے ہوں گے۔ طالب علم کبھی بھی اپنے مخلص اور نمایاں استاد کو نہیں بھولتا، چاہے کئی دہائیاں گزر جائیں۔
اساتذہ کرام! کوشش کریں کہ آپ بھی انھی میں شامل ہوں جنھیں طلبا خیر کے ساتھ یاد کریں۔ جب وہ حاضر ہوں تو ذکر خیر کریں اور جب وفات پا جائیں تو دعائے خیر کریں۔معلمی کا پیشہ دیگر پیشوں سے بالکل منفرد ہے، یہ ایک بلند منصب ہے، جس منصب پر انبیاء و رسل علیہم السلام فائز تھے۔ اس لیے معلمین کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہونا چاہیے اور اپنی ڈیوٹی میں اخلاص سے کام لینا چاہیے۔
پرنسپل مدرسہ کو نصیحت:
محترم پرنسپل صاحب! آپ تعلیمی ادارے کے سربراہ ہیں۔ آپ کے مرتبہ کے لحاظ سے آپ پر ذمہ داری دوگنی ہے۔ اس لیے آپ کو اپنی ذمہ داری کے تئیں مخلص اور امانت دار ہونے کی کہیں زیادہ ضرورت ہے۔ آپ ہمیشہ اپنی نگاہ کے سامنے نبیﷺ کا یہ فرمان رکھیں:”تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا“۔(بخاری و مسلم)
یاد رکھیے! آپ کی محنت اور کوشش کے اثرات آپ کے ماتحت عملہ، اساتذہ، منتظمین بلکہ طلبا پر بھی ظاہر ہوں گے۔اس نکتہ کو بھی نہ بھولیں کہ غلطی کا امکان ہر کسی سے ہے۔ چنانچہ آپ غلطی کے امکان سے خارج نہیں ہیں۔ اگر کسی معاملے میں غلطی کا صدور ہوجائے یا کوئی اس طرف توجہ دلادے تو ہرگز اپنے موقف سے رجوع کرنے یا حق اور سچ کے اعتراف کرنے میں پس وپیش سے کام نہ لیں۔ اعتراف حق آدمی کی شرافت اور عزت کی پہچان ہے، بلکہ اگر کوئی دینی معاملہ ہو تو اس پر اجر وثواب بھی ہوتا ہے۔
طلبا کے سرپرستوں کو نصیحت:
یہ طلبا وطالبات دراصل نرم ونازک پودے اور خوبصورت تازہ پھولوں کی طرح ہیں۔ یہ آپ کی گردن میں امانت ہیں۔ ان کے تعلق سے آپ حال میں اللہ تعالی سے ڈرتے رہیں۔ ان کی پرورش آپ کے سپرد ہے۔ اس تعلق سے آپ ہمیشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کو اپنے پیش نظر رکھیں۔آپ ﷺ نے فرمایا: ”تم سب ذمہ دار ہو اور تم سب سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔“ (بخاری ومسلم)
لہٰذا اپنے بچوں کی تربیت کا خیال رکھیے۔ ان کی نگرانی کرتے رہیے۔ ان سے ان کے مدرسہ میں گزر رہی زندگی اور حال و احوال کے بارے میں پوچھتے رہیے۔ ان سے اس بارے میں جاننے کی کوشش کیجیے کہ معلمین اور انتظامیہ سے ان کے کیسے تعلقات ہیں۔ آپ بھی براہ راست اپنا تعلق مدرسہ اور اس کے انتظامیہ سے استوار رکھیے۔
طلبا کے نگراں کو نصیحت
نگراں حضرات! نگراں ہی وہ شخص ہوتا ہے جس کے پاس طلبا اپنی مشکلات لے کر آتے ہیں۔ اس کے پاس اپنے مسائل کا حل تلاش کرتے ہیں۔ نگرانی کا عمل ایک عظیم الشان عمل ہے۔ طلبا کی بہتر نگرانی اور مناسب رہنمائی کا براہ راست اثر طلبا کے معاشرتی اور تربیتی زندگی پر ہوتا ہے۔ اس لیے نگراں کو ہوشیاری سے اس ذمہ داری کو ادا کرنا چاہئضیے۔ طلبا کی تربیتی رہنمائی کا کام دعوت الی اللہ، اصلاح اور رہنمائی کے اہم ذرائع میں سے ہے۔ اس لیے نگراں پر لازم ہے کہ طلبا کے حالات، نفسیات اور ان کے مسائل سے مکمل آگاہ رہیں۔
نظم و ضبط سے متعلق ہدایت:
بہت ضروری ہے کہ مدرسے میں نظم و ضبط کی فضا قائم ہو۔ اور نظم وضبط کا تعلق طلبا، اساتذہ، انتظامیہ اور دیگر تمام کارکنان سے ہے۔ اللہ تعالی اس بات کو پسند کرتا ہے کہ بندہ جب کوئی کام کرے تو اچھے انداز میں کرے۔ حاضری، چھٹی، نصاب کی تکمیل اور اسباق کے بہتر طریقے سے ادا کرنے میں بھی نظم وضبط کا پایا جانا لازمی ہے۔ نظم وضبط کا مقصد طلبا کو فائدہ پہنچانا اور ان کے دلوں میں نظم ونسق کی اہمیت کو راسخ کرنا ہوتا ہے۔ تاکہ وہ اپنی آئندہ کی زندگی کو خوشگوار طریقے سے گزار سکیں۔
عدل و انصاف سے متعلق ہدایت:
مدرسہ میں عدل قائم ہونا بہت ضروری ہوتا ہے۔ وہ طلبا کے ساتھ انصاف کریں۔ محض رشتہ داری یا سفارش کی بنیاد پر کسی کو محبوب نہ جانیں۔ کسی کو اونچے خاندان کا سمجھ کر اس سے خاص تعلق نہ باندھیں۔ کسی غریب پر رحم کھا کر اسے امتحان یا دیگر مسابقے میں کامیاب نہ کر دیں حالانکہ وہ اس کا مستحق نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:”اے ایمان والو! انصاف پر قائم رہنے والے بنو، اللہ کے لیے گواہی دینے والے، خواہ اپنے آپ کے خلاف ہو یا والدین اور رشتہ داروں کے خلاف۔“ (النساء: 135)
مدرسہ کی انتظامیہ اور اساتذہ سب پر عدل کا قائم کرنا ضروری ہے۔ عدل کے بغیر اسکول کا نظام بگڑ جاتا ہے۔ عدل سکون، فائدہ اور خیر کا باعث ہے، جبکہ ظلم نفرت، کشیدگی اور بداعتمادی پیدا کرتا ہے۔ عدل ہی سے زمین وآسمان باقی ہے۔
طلبا کے تحائف کے بارے میں نصیحت:
تعلیم وتربیت سے جڑا ایک مسئلہ طلبا یا ان کے والدین کی طرف سے اساتذہ کو دیا جانے والا تحفہ ہے، جو کہ بالکل درست نہیں ہے، کیونکہ اس وجہ سے حق تلفی اور ناانصافی پیدا ہوتی ہے۔ طالب علم اگر کسی استاد کو کوئی تحفہ دیتا ہے تو اس کے اس منصب اور اس رتبے کی وجہ سے جس پر وہ فائز ہے، اس تحفے کی وجہ سے استاد اس طالب علم کا جائز اور ناجائز طریقے سے خیال رکھتا ہے۔ اس کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ اس لیے کسی طالب علم کا طالب علمی کے زمانے میں اپنے استاد کو تحفہ دینا درست نہیں ہے۔
اسی طرح استاد کے لیے بھی جائز نہیں کہ وہ مدیر یا منتظمین کو تحفہ دے۔ نبی ﷺ نے صدقات سے متعلق فرمایا کہ یہ حاکم کے لیے جائز نہیں، کیونکہ یہ اصل میں خیانت ہے۔ پھر آپ ﷺ نے منبر پر کہا: ”کیا وجہ ہے کہ ہم بعض لوگوں کو مقرر کرتے ہیں اور وہ آکر کہتے ہیں: یہ تمھارے لیے ہے اور یہ مجھے تحفے میں دیا گیا ہے؟ کیا وہ اپنے گھر میں بیٹھا نہ رہتا اور دیکھتا کہ کوئی اسے تحفہ دیتا ہے یا نہیں؟ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جو کوئی بھی اس طریقے سے کچھ لے گا وہ قیامت کے دن اپنی پیٹھ پر اٹھائے ہوئے آئے گا۔” (بخاری و مسلم)
اگر کوئی تحفہ پرانی دوستی یا رشتہ داری کی بنیاد پر دیا گیا ہے اور اس کا تعلق منصب یا تعلیم سے نہیں تو وہ درست ہے۔ لیکن اگر منصب یا تعلق کی وجہ سے دیا گیا تو ناجائز ہے۔


Ma sha Allah Khubsorat or Mofeed Tahreer ,