ہوائیں کررہی ہیں کیا
کہ سانسیں ٹوٹتی ہیں
لوٹتی ہیں
جاں کے نذرانے
بلائیں
اک عجب سی بے بسی ہے
درد کے چارہ گروں نے
اوڑھ رکھی ہیں
کفن سی وحشتیں
قبروں کا سناٹا
ہوا ہے بھنگ
شمشانوں میں ہلچل ہے
دھوئیں کے ساتھ
لپٹوں نے مچا رکھا ہے ہنگامہ
نئے درماں پہ سنکٹ ہے
نہ ہے او ٹو ضرورت بھر
کہ اب تو
آکسیجن کے سلینڈر
بن گئے ہیں
زندگی کی بوٹ
دنیا اک سمندر
پھٹ پڑا ہے
جس میں اک آتش فشاں
پانی میں ایسی
لگ گئی ہے آگ
چاروں اور برپا ہیں کراہیں
گونجتی رہتی ہیں آہیں
گھر میں بازاروں میں
راہوں میں
شفاخانوں میں
کندھوں پر اٹھائے پھر رہے ہیں لوگ
سانسیں
پھر بھی
شمشانوں کے باہر ہیں قطاریں
زندہ لاشیں
جل رہی ہیں
بھوگ پیڑا کی تپش سے
چل رہی ہیں ارتھیاں
کندھوں پہ نازک آبگینوں کے
گری پڑتی ہیں ایمبولینس سے لاشیں
کہ قبرستان بھی اب پیر پھیلانے لگے ہیں
جا نہیں سکتے ابھی
دربار میں اس کے
سبھی کو لے کے
پوچھیں
کیا ہوا ہے
کیوں خفا ہے
چپکے سے جاؤ
ہوائیں
اس کی مرضی کے بنا
چلتی نہیں ہیں
(٢٥/اپریل ٢٠٢١)
آپ کے تبصرے