اب اپنا اپنا چلو احتساب کرتے ہیں

دانش جمال شعروسخن

جو بے سبب ہی کسی پہ عتاب کرتے ہیں

وہ صرف اپنا ہی خانہ خراب کرتے ہیں


جو اپنے حق میں جنوں انتخاب کرتے ہیں

وہی جہاں میں کوئی انقلاب کرتے ہیں


ہم ان کے نام غزل انتساب کرتے ہیں

ہر ایک شعر کو یوں آفتاب کرتے ہیں


نگہ سے جب بھی ہمیں وہ خطاب کرتے ہیں

گمان ہوتا ہے کارِ ثواب کرتے ہیں


ہم ایسے رند کی فن آفرینی مت پوچھو

کتابِ حسن میں چہرہ نصاب کرتے ہیں


مزید بحث کی باقی نہیں ہے گنجائش

اب اپنا اپنا چلو احتساب کرتے ہیں


سلف کے اسوے کو کرتے ہیں حرز جاں جب بھی

تو عہدِ رفتہ کو پھر بازیاب کرتے ہیں


تم ان کے حسنِ تکلم پہ یوں ہی مت جانا

سخن کو خار تو لہجہ گلاب کرتے ہیں


جہاں کسی سے وہ ملتے نہیں ہیں خلوت میں

مجھے ہے فخر مجھے باریاب کرتے ہیں


حیات دیتی ہے دانشؔ جنھیں بھی تحفۂ غم

تمام عمر وہ بیٹھے حساب کرتے ہیں

آپ کے تبصرے

3000