پندرہ اگست ہے

کاشف شکیل شعروسخن

یہ بلبلیں چہک رہی ہیں پندرہ اگست ہے

یہ قمریاں پھدک رہی ہیں پندرہ اگست ہے


بہار آج مست ہے، خزاں کا عزم پست ہے

یہ سنبلیں لہک رہی ہیں پندرہ اگست ہے


خمار حریت کا آج سر پہ یوں سوار ہے

طبیعتیں دہک رہی ہیں پندرہ اگست ہے


شجر کی شاخ شاخ پہ، چمن کے ہر گلاب پہ

یہ خوشبوئیں مہک رہی ہیں پندرہ اگست ہے


وطن کی خاک سے وفائے عہد کی قسم لیے

یہ دھڑکنیں دھڑک رہی ہیں پندرہ اگست ہے


فضائے مشکبار کی ہر اک ادا حسین ہے

ہوائیں بھی تھرک رہی ہیں پندرہ اگست ہے


بحالت معانقہ گلوں سے، بوندیں اوس کی

بہارِ جشن تک رہی ہیں پندرہ اگست ہے


کتابِ ہند کے ورق ورق پہ بوالکلام کی

یہ کوششیں جھلک رہی ہیں پندرہ اگست ہے


یہ جشن حریت کے لمحے کاشف آج آ گئے

نگاہیں سب چمک رہی ہیں پندرہ اگست ہے


آپ کے تبصرے

3000