اپنا یہ جو کچھ حال ہے
سب شامتِ اعمال ہے
سارا جہاں ساری زمیں
اپنے لہو سے لال ہے
کیسے نہ لٹتا قافلہ
رہبر ہی بداعمال ہے
جو فکرِ ملت میں ہے گم
یاں وہ بھی مالا مال ہے
دستار پر مت جائیو
اندر سے دامن لال ہے
دنیا کا مت پوچھو میاں!
بس جی کا اک جنجال ہے
اِس دم بچے، اُس دم پھنسے
اک خواہشوں کا جال ہے
ہنستے ہوئے پایا جسے
اندر سے وہ بے حال ہے
کرتوت تو بدلے نہیں
کہنے کو بدلا سال ہے
اس بھیڑ میں تنہا فقط
اک زاہدِ بد حال ہے
Rehbar bhi ye humdam bhi ye gum-khvaar humare,
Ustad ye qaumo’n ke hai’n me’amaar humare