کرسمس ڈے کی حقیقت اور مسلمانوں کی ذمہ داری

عطاء الله سلفی

25/ دسمبر کو عیسائی دنیا میں خصوصی احترام حاصل ہے، اسے “کرسمس ڈے” کے طور پر منایا جاتا ہے اور یہ باور کرایا جاتا ہے کہ یہ حضرت عیسی مسیح علیہ السلام کی ولادت کی تاریخ ہے۔ اس تعلق سے چند معروضات درج ذیل ہیں:
کرسمس (Christmas) دو الفاظ christ اور mass کا مرکب ہے، christ مسیح کو کہتے ہیں اور mass کا معنی ہے اجتماع، اکٹھا ہونا۔ کرسمس کا مطلب ہے کہ مسیح کے لیے اکٹھا ہونا، مسیحی اجتماع یا میلاد مسیح۔ چونکہ عیسائی 25/ دسمبر کو تاریخ ولادت مسیح مانتے ہیں اس لیے اس دن کو “کرسمس ڈے” کہتے ہیں اور اسے ولادت مسیح کے طور پر مناتے ہیں۔
اگر اس لفظ کی تاریخ پر غور کریں تو یہ چوتھی صدی کے قریب پایا گیا، اس سے پہلے اس کا استعمال نہ کہیں تھا اور نہ 25/ دسمبر حضرت عیسی علیہ السلام کی تاریخ ولادت سمجھی جاتی تھی، کرسمس کو بطور تہوار 25/ دسمبر کو منانے کا ذکر پہلی مرتبہ 325ء کو شاہ قسطنطین کے عہد میں ملتا ہے۔ پھر 530ء میں سیتھیا کے ایک ڈایونیس اکسگیز نامی راہب نے جو منجم بھی تھا باضابطہ 25/ دسمبر کی تاریخ مقرر کر دی کیونکہ مسیح علیہ السلام سے پانچ صدی قبل 25/ دسمبر مقدس تاریخ تھی۔ (مذاہب عالم کا تقابلی مطالعہ: 435)
دنیا کے مختلف علاقوں اور خطوں میں کرسمس کو مختلف ناموں سے یاد کیا جاتا ہے اسے “یول ڈی نیٹوئی” ، “نوائل” اور “بڑا دن” بھی کہتے ہیں، اسی طرح مختلف خطوں کے عیسائی کرسمس کو مختلف دن مناتے ہیں، چنانچہ رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ عیسائی 25/ دسمبر کو، آرتھوڈوکس کلیسائی 7/ جنوری کو، آرمینیا کلیسائی 16/ جنوری کو مناتے ہیں جب کہ بعض خطے ایسے بھی ہیں جہاں عیسائی 6/ جنوری اور 18/ جنوری کو کرسمس مناتے ہیں۔ (نوائے وقت، 27 دسمبر 2005 اور بعض مجلات)
اس اختلاف کی اصل وجہ یہ ہے کہ آج تک مسیح علیہ السلام کی صحیح تاریخ پیدائش کا کسی کو علم نہیں، نہ کسی کو اس کے بارے میں حتمی جانکاری ہے، بائبل میں بھی اس کی کوئی صراحت نہیں۔ گویا کرسمس کی پوری بنیاد ہی مفروضہ پر قائم ہے جس کی حقیقت سے دور کی بھی نسبت نہیں۔
اگر ہم اسلامی نقطہ نظر سے ولادت مسیح علیہ السلام کی تاریخ کا تعین کریں تو قرآن مجید کی سورہ مریم سے معلوم ہوتا ہے کہ جب حضرت مریم کو درد زہ ہوا تو اللہ تعالٰی نے ان کو ہدایت کی کہ کھجوروں کے تنے کو ہلائیں تاکہ ان پر تازہ اور پکی کھجوریں گریں اور وہ اس کو کھائیں اور چشمہ کا پانی پی کر طاقت حاصل کریں۔ اب فلسطین میں موسم گرما کے وسط میں یعنی جولائی اگست میں کھجوریں ہوتی ہیں۔ اس سے بھی یہ امر واضح ہوتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی ولادت جولائی یا اگست کے کسی دن میں ہوئی تھی اور 25/ دسمبر کی تاریخ بالکل غلط ہے۔ (مذاہب عالم کا تقابلی مطالعہ: 437)
درج بالا سطور سے معلوم ہوا کہ “کرسمس ڈے” کی کوئی حقیقت نہیں ہے کیونکہ تاریخ ولادت مسیح کا کسی کو حتمی علم نہیں، لہذا ایک مسلمان کا “کرسمس ڈے” کو حضرت عیسی علیہ السلام کی تاریخ پیدائش سمجھنا ہی غلط ہے اور اس مناسبت سے منعقدہ تقریبات میں شرکت کرنا، دوسروں کو مبارک باد دینا اور ان کی مٹھائی کھانا درست نہیں کیونکہ یہ تعاون علی الإثم کے قبیل سے ہے۔ اور اگر تاریخ معلوم ہوتی پھر بھی کسی کے یوم پیدائش پر جشن منانا، اسے تہوار تصور کرنا یا اس میں کسی طرح کا تعاون یا شرکت کرنا قطعا درست نہیں کیونکہ اس کا شریعت سے کوئی ثبوت نہیں۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ جس شخص کی بیوی عیسائی ہو تو اپنی بیوی کو عیسائیوں کی عید یا چرچ میں جانے کی اجازت دے سکتا ہے؟ تو آپ نے فرمایا: وہ اسے اجازت نہ دے کیونکہ اللہ تعالٰی نے گناہ کے کاموں میں تعاون نہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ (المغنی لابن قدامۃ: 364/9)
اسی طرح شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا: موسم سرما میں دسمبر کی 24 تاریخ کو لوگ بہت سے کام کرتے ہیں، عیسائیوں کے خیال میں یہ حضرت عیسی کی پیدائش کا دن ہے، اس میں جتنے بھی کام کیے جاتے ہیں مثلا آگ روشن کرنا، خاص قسم کے کھانے تیار کرنا اور موم بتیاں وغیرہ جلانا سب کے سب مکروہ ہیں۔ اس دن کو عید سمجھنا عیسائیوں کا دین و عقیدہ ہے، اسلام میں اس کی کوئی اصلیت نہیں اور عیسائیوں کی اس عید میں شامل ہونا جائز نہیں۔ (اقتضاء الصراط المستقيم: 478/1)
اللہم أرنا الحق حقاً وارزقنا اتباعه وأرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
عمر فاروق

ماشاء الله تبارك الله