کہیں ایسا نہ ہو کہ ماہِ رمضان آئے مگر…

رمضانیات یسریٰ محمد کاشف

رمضان رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے۔

رمضان بخشش و مغفرت کا مہینہ ہے۔

رمضان مہینہ ہے اپنے ایمان کو بڑھانے کا۔

رمضان مہینہ ہے تقویٰ کو پختہ کرنے کا۔

اپنی بگڑی رب کے حضور پیش کر کے سنوار لینے کا مہینہ ہے۔

اپنے روٹھے رب کو رو رو کر منا لینے کا مہینہ ہے۔

اس قدر مالدار مہینہ آخر کن لوگوں کے لیے ہے؟

یہ بخششیں کون حاصل کرپائے گا؟

سامانِ مغفرت کس کے دامن کی زینت بنے گی؟

کن لوگوں کے ایمان کی دولت میں اضافہ ہوگا؟

کن لوگوں کا تقویٰ پختہ ہوگا؟

آخر برکتیں کن لوگوں کے حق میں اتریں گی؟

رحمتوں کی بارش کیا سبھی پر ہوں گی؟

آخر وہ کون خوش نصیب لوگ ہیں جو اس مالدار مہینے کے سایوں تلے رحمتیں و برکتیں اور بخشش کا سامان لوٹ لیں گے!!!

کیا یہ سب کچھ ان لوگوں کے حصّے میں آئیں گی جو رمضان کی آمد ہوتے ہی اپنا روٹین تبدیل کر لیتے ہیں یا ان لوگوں کے لیے ہے جو بعد نمازِ فجر ظہر تک سوتے ہیں؟ یا پھر ان کے لیے جو سال بھر کبھی نہیں سونگھے جانے والے پکوان کو رمضان ہی میں دسترخوان پر سجاتے ہیں؟

یا پھر ان لوگوں کے لیے ماہِ رمضان کارآمد ہے جو بجائے روٹین بدلنے کے اپنے اعمال تبدیل کرتے ہیں؟

ظاہر ہے کہ بداعمالیوں کا تبادلہ نیک اعمال سے کرنے والوں کے لیے رمضان نعمتوں اور برکتوں، بخششوں اور مغفرتوں کا مہینہ ہے اور ایسے ہی لوگ جنت کو اپنے نام کرلینے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔

چونکہ یہ دنیا عارضی ہے۔ اس کا مقصد ہی ہے انسان کا امتحان۔۔۔ اس دنیا میں جن لوگوں نے اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری کا راستہ اختیار کیا وہی لوگ روزِ محشر سرفراز ہوں گے۔

اس مادّی دنیا میں رہتے ہوئے یہ پورا مقدمہ مان لینے میں لوگوں کو دشواریاں پیش آتی ہیں۔۔۔ کیونکہ یہاں خدا نظر نہیں آتا، فرشتے دکھائی نہیں دیتے، قیامت تو بہرحال ایک مستقبل کا واقعہ ہے اور جنت و جہنم کس نے دیکھی ہے۔

اس کے لیے ہمیں اپنے نفس کا رخ ایمان۔۔۔یعنی ایمان بالغیب کی طرف موڑنا چاہیے۔۔۔ جس کا ایمان غیب پر ہوگا اس کے لیے نفس کے خلاف جنگ آسان ہوگی۔

عموماً کسی بھی تعلیمی ادارے یا جاب کی درخواست کے لیے چند کاغذات جمع کرائے جاتے ہیں، اسی طرح جنت میں داخلہ کے لیے بھی ڈاکیومنٹ درکار ہیں، مثلاً عبادات، نیکیوں میں سبقت، پرہیزگاری و تقویٰ کا اختیار کرنا، ہر آزمائش کے لیے کمربستہ ہوجانا اور دیگر ضروری اعمال درکار ہیں۔۔۔ چونکہ ماہِ رمضان اتنا مالدار مہینہ ہے کہ ہر مومن کے لیے یہ کسی sale offer سے کم نہیں۔۔۔! ہر مومن اس ماہ میں عبادتوں میں لوٹ مار مچا دیتے ہیں، نیکیوں میں سبقت کے حصول کے سبب قطار میں صفِ اوّل میں کھڑے ہوتے ہیں، پرہیزگاری و تقویٰ اختیار کرتے ہیں، اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے ذکر و اذکار میں مشغول رہتے ہیں اور ہر چھوٹی بڑی نیکی اور عبادتوں کے لیے کمربستہ ہوجاتے ہیں۔۔۔۔ رہ گیا روزہ۔۔۔ تو وہ ہے ہی اس ماہ کا مرکزی عبادت۔

رمضان کے علاوہ بقیہ گیارہ مہینوں میں ہمیں نیکیوں کا اجر طے کردہ اجر کے مطابق ہی ملتا ہے۔ مثلاً نفلی عبادات کا بدلہ نفل عبادت کے لحاظ سے ملتا ہے، سنّت کا سنت سے اور فرض کا بدلہ فرض ہی کے عوض ملتا ہے جبکہ ماہ رمضان میں نفل عبادت کا اجر سنت کے برابر ہوجاتا ہے، سنت کا فرض کے اجر کی چوٹیاں چھوتا ہے اور فرض کی ادائیگی کا تو ہم اندازہ بھی نہیں لگا سکتے ہیں۔ ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ کسی بھی گناہ کی سزا اللہ نے مقرر کیا ہوا ہے مثلاً غیبت، جھوٹ، عہد شکنی اور بھی دیگر گناہ ہیں جن کی سزا سے اللہ نے پہلے ہی اپنے بندوں کو آگاہ کرادیا ہے، عین اسی طرح نیکیوں کے اجر سے بھی واقفیت کروا دی گئی ہے لیکن پھر بھی کچھ نیکیوں کے اجر اللہ تعالیٰ نے سرپرائز کی صورت اب تک نہیں بتائے ۔۔۔ یعنی نفل کو سنت اور سنت کو فرض تک جو رسائی حاصل ہے ، ہم نہیں جانتے کہ پھر فرض کی ادائیگی کا اجر کون سا آسمان چھوتا ہوگا۔

رمضان کا مقصد:

انسان، چاند، سورج، پہاڑ، زمین، غرض یہ کہ باریک سے باریک تر ذرّہ بھی بے مقصد وجود نہیں پایا۔ یعنی خالق کی ہر تخلیق کردہ شئے ایک مقصد کے تحت وجود میں آتی ہے۔ پھر رمضان کی آمد کا مقصد کیوں نہیں ہوگا۔۔۔یہ مہینہ مغفرت اور سراسر جہنم سے نجات کا مہینہ ہے،یہ ایمان کی تجدید کا مہینہ ہے،یہ آدمی کے لیے مادّی علائق اور کھانے پینے جیسے فطری اور لازمی تقاضوں سے رک کر اپنے اندر ربانی شخصیت اور ایمانی و اخلاقی اقدار کی پرورش کا سالانہ موقع ہے روزوں کے ذریعے تقویٰ اختیار کرنے کا مہینہ ہے۔

چونکہ آخرت کی کامیابی اور اس کے لیے پاکیزگی کے حصول پر انسان کو متحرک کرنے والی سب سے بڑی چیز خدا کے حضور اس کی پکڑ کا اندیشہ ہے، اس کے عذاب و غضب کا ڈر ہے جس سے تقویٰ کا حصول آسان ہے۔ اور یہ تقویٰ ہی وہ چیز ہے جو روزوں کی فرضیت کا اصل مقصود ہے:

’’اے ایمان والو! تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے، جس طرح تم سے پہلوں پر فرض کیا گیا تاکہ تم اللہ سے ڈرنے والے بن جاؤ۔‘‘(البقرۃ:۱۸۳)

مندرجہ بالا آیت اس امر کی صراحت کرتی ہے کہ رمضان کے نزول کا مقصد تقویٰ اختیار کرنا ہے۔

تقویٰ کیسے پیدا ہوتا ہے؟

قرآن کا نزول اسی مبارک مہینے میں ہوا جس کے سبب مسلمان تلاوتِ قرآن اسی ماہ میں بقیہ مہینوں کی نسبت کثرت سے کرتے ہیں۔ رمضان میں قرآن کی بار بار تلاوت انسان کو جہنم کے عذاب اور اللہ کی پکڑ سے بے خوف نہیں رہنے دیتی۔ دوسری طرف روزے میں کھانے پینے سے رکنا انسان کو نہ صرف پرہیزگاری کے آداب سکھاتا ہے بلکہ اسے اس مضبوط قوتِ ارادی سے آگاہ کرتا ہے جسے استعمال کرکے وہ ہر اخلاقی ناپاکی سے بچ سکتا ہے اور بے لگام نفس کو لگام دینے کی طاقت حاصل کرتا ہے جو ماہ رمضان کا سب سے ٹھوس مقصد ہے۔

قرآن کا نزول:

کوئی شک نہیں کہ ماہِ رمضان سرا سر برکت کا مہینہ ہے، کیونکہ اسی مہینے میں ایک ایسی کتاب کا نزول ہوا جو دنیا میں پھیلی ہر اخلاقی مرض کا علاج ہے۔ افراط وتفریط کی بھول بھلیّاں میں بھٹک جانے والی دنیا کو اگر کوئی سیدھا راستہ دکھانے والا ہے تو وہ فقط قرآن اور اس میں موجود حکمت سے لبریز قوانین و احکامات ہیں اور اسی میں ساری گتھیوں کے حل موجود ہیں۔

مگر افسوس صد افسوس کہ ہم نے قرآن کو فقط ختم کرنے کی حد تک محدود کر دیا ہے۔ بےشک تلاوتِ قرآن ثواب کا کام ہے لیکن اسے صرف ثواب کی نیت سے نہیں پڑھنا ہے بلکہ اس کے مقصدِ نزول کو بھی سمجھنا ہے اور ہدایت بھی سمیٹنا ہے۔۔۔ یہی قرآن کا حق ہے کہ اسے پڑھ کر،سمجھ کر عمل کرکے اسے دوسروں تک پہنچایا جائے۔ اسی میں جنت تک پہنچنے کا راستہ ہے اور جہنم سے آزادی کا نسخہ بھی ہے۔۔۔ اسی میں وہ روشنی ہے جو تاریکیوں کو روشنی میں تبدیل کر دیتی ہے۔

رمضان کے ذریعے یہ مطلوب ہے کہ آدمی اسوۂ رسول ﷺ کے مطابق اس طرح قرآن کا قاری بنے کہ وہ قرآنی سانچے میں ڈھل کر خود ایک زندہ چلتا پھرتا قرآن بن جائے۔ اس کا قول وعمل قرآنی تعلیمات پر مبنی ہو۔ وہ قرآن کی ہدایات کے مطابق چلنے اور رکنے والا بن جائے۔ وہ حقیقی معنوں میں متقی و خدا شناس بنے۔ وہ تقویٰ اور اخلاق جیسے بلند ایمانی اور انسانی اقدار سے بہرہ ور ہوکر زندگی گزارنے والا بن جائے۔ اس کا جینا اور مرنا خدائی ہدایات کے مطابق ہو اور یہی وہ خصوصیات ہیں جو انسان کو جنت کی طرف گامزن کرتی ہیں۔

رمضان کے ساتھ ہمارا رویہ:

رمضان ہم تک بھیجا گیا تاکہ ہم تقویٰ کی صفت پیدا کر سکیں۔۔۔ لیکن ہم نے فقط بھوکے پیاسے رہنے ہی کو روزہ سمجھ لیا۔

یہ ہم تک بھیجا گیا تاکہ قرآن پر عمل کرنے کے لیے اسے پڑھیں، سمجھیں اور دوسروں تک پہنچائیں۔۔۔ مگر ہم تو ختم قرآن تک ہی محدود رہ گئے۔

ہمیں اس عظیم ماہ سے نوازا گیا۔۔۔ مگر ہم نے اسے نت نئے پکوان کی نذر کر دیا۔

یہ ہم تک آیا۔۔۔ تاکہ ہم راتوں کو رو رو کر خود سے روٹھے ہوئے رب کو منا لیتے، معافی مانگ لیتے، مغفرت کروا لیتے، جہنم سے چھٹکارا پا لیتے۔۔۔۔ مگر ہم نے اسے بازاروں کے سپرد کر دیا کبھی افطار کی تیاری کے لیے تو کبھی عید کی ڈھیروں تیاری کے لیے۔

ہمیں چاہیے کہ ہم اس ماہ میں صدقہ و خیرات جیسی موتیوں کے ذریعے اپنے نامۂ اعمال کو نیکیوں سے ایسے سجا لیتے جیسے اسکول اور کالج میں اپنے اسائنمنٹ اور پروجیکٹ کو سجایا کرتے تھے مگر۔۔۔۔ ہم نے اسے دکھاوے اور نام و نمود کا سامان بنادیا اور ریاکاری جیسے گناہ میں ملوث ہو بیٹھے۔

کہیں ایسا نہ ہو جائے کہ ماہِ رمضاں توآئے مگر ہم نہ ہوں … درحقیقت رمضان نہیں۔۔۔ انسان ہے مہمان۔ رمضان کی عظمت سمجھ کر اور اس کی آمد پر خود کی موجودگی کو غنیمت جان کر ان خودساختہ رسموں سے کنارہ کریں اور خود کو پرہیزگاری کا جامہ پہنا کر جہنم کی آگ سے چھٹکارا حاصل کریں۔ بےشک تقویٰ و پرہیزگاری ہی جہنم سے بچنے کے لیے بہترین ڈھال ہیں۔

آپ کے تبصرے

3000