لفظ ((سنہری)) کی لغوی و صرفی تحقیق

ابوالمرجان فیضی تنقید و تحقیق

اردو ایک ہم زبان ہے۔ اور اس کے بولنے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ اپنی لطافت و چاشنی کی وجہ سے پوری دنیا میں مقبول ہے۔ اردو زبان کئی ممالک میں بولی اور پڑھی جاتی ہے۔ سب سے اہم یہ کہ یہ ہماری مادری زبان ہے۔
اہل زبان ہمیشہ سے اس کی خدمت کرتے آئے ہیں پھر بھی بعض الفاظ کے تعلق سے عوام میں ابھی بھی کنفیوژن برقرار ہے۔
ان ہی الفاظ میں سے ایک لفظ سنہری بھی ہے۔ عوام سمجھ نہیں پاتے کہ مذکر ومونث کے لیے اسے سنہرا اور سنہری استعمال کریں یا صرف سنہری۔
زیر نظر مضمون میں ہم اسی لفظ کی لغوی و صرفی تحقیق کریں گے، تاکہ مسئلہ واضح ہوجائے۔ آئیے شروع کرتے ہیں:
سونا. زر. ذھب. Gold ایک قیمتی دھات
روپا. چاندی. سیم. فضة..Silver ایک قیمتی دھات
ہندی زبان میں سونے اور روپے کے ساتھ نسبت کا معنی دینے کے لیے ہرا ( हरा ) کا لاحقہ لگاتے ہیں۔ کبھی ہلا ( हला ) کا لاحقہ۔ چنانچہ یہ الفاظ کبھی سنہرا اور روبہرا ہوجاتے ہیں تو کبھی سنہلا اور روپہلا۔
سنہرا اور سنہلا: ( सुनहरा और सुनहला )
سنہرا: کا معنی ہے سونے کا۔ طلائی، زریں سونے کی طرف منسوب۔ جیسے اکہرا ایک کی طرف منسوب، دوہرا دو کی طرف منسوب وغیرہ۔
سنہلا: زریں. طلائی. سونے کی طرف منسوب جیسے پہلا اول کی طرف منسوب۔ نہلا نو کی طرف منسوب۔ دہلا دس کی طرف منسوب وغيرہ۔
روپہرا اور روپہلا:( रूपहरा और रूपहला )
چاندی کا. نقرئی. سیمیں. روپے کی طرف منسوب ہے۔ یہ دونوں ہی ہندی الفاظ ہیں اور ہندی میں ان کا مذکر الف کے ساتھ روپہرا اور روپہلا آتا ہے جبکہ مونث روپہری اور روپہلی آتی ہے۔
https://educalingo.com/hi/dic-hi/sunahara
اشکال:
اردو میں رنگ کا معنی بتانے کے لیے بہت سے الفاظ ہیں جن کے آخر میں یاء نسبتی لگاتے ہیں۔ اور یاء نسبتی مذکر و مونث نہیں ہوتی بلکہ دونوں کے لیے یکساں فارم میں آتی ہے۔ لہذا مذکر و مونث دونوں میں الفاظ یاء کے ساتھ آتے ہیں۔ جیسے اگر سے اگری، بسنت سے بسنتی، سرمہ سے سرمئی، جامن سے جامنی وغیرہ۔ چونکہ اس میں یاء؛ تانیث کے لیے نہیں ہے بلکہ نسيت کے لیے ہے۔
اس لیے کہیں گے اگری ٹوپی، اگری کپڑا۔ بسنتی ٹوپی، بسنتی کپڑا۔ سرمئی ٹوپی، سرمئی کپڑا۔ جامَنی ٹوپی، جامَنی کپڑا۔
لفظ کپڑا مذکر ہے پھر بھی یاء کی جگہ پر الف بولنا صحیح نہیں ہوگا یعنی کہ اگرا کپڑا، بسنتا کپڑا، سرمیا کپڑا، جامنا کپڑا بولنا غلط ہے۔
چنانچہ اسی پر قیاس کرتے ہوئے سنہرا رنگ بھی بولنا غلط ہے۔
جیسا کہ نور اللغات میں ہے:
سنہرا: (ہندی) صفت مذکر وہ چیز جو سوئے کے رنگ کا ہو – زرین – سنہری: (ہندی) صفت مونت ہر وہ چیز جو سونے کے رنگ کی ہو، نام ایک رنگ کا جسکو طلائی بھی کہتے ہیں،
ناسخ کا شعر ہے:
وصف جب میں نے کئے تیرے سنہرے رنگ کے
خود بخود ہر صفحہ دیواں سنہری ہو گیا
جلال نے سرمایہ زبان اردو میں لکھا ہے: “یہاں لفظ سنہری کو یائے مجہول کے ساتھ یعنی امالہ کے ساتھ سنہرے پڑھنا خطا ہے۔ اس واسطے کہ سنہری نام ایک رنگ کا ہے۔ پس اس رنگ کی طرف خواہ شے مونث منسوب ہو خواہ شے مذکر بہر طور اس کو یاء معروف کے ساتھ (سنہری) پڑھیں گے
قیاس بر رنگ اگری، بسنتی، چمپئی، دھانی وغيرہ”
لہذا اردو والوں کے سامنے اشکال پیدا ہوا کہ جب سنہری یا روپہلی میں یاء نسبتی ہے تو اس میں الف لگا کر مذکر کیوں بنایا جاتا ہے۔
اس لیے اہل زبان نے الف لگا کر مذکر بنانے یعنی سنہرا اور روپہلا کے استعمال کا انکار کردیا اور یاء نسبتی کی وجہ سے صرف سنہری اور روپہلی کو جائز ٹھہرایا۔
اس کنفیوژن کو ناسخ کے اس شعر میں بھی دیکھا جا سکتا ہے:
وصف جب میں نے کئے تیرے سنہرے رنگ کے
خود بخود ہر صفحہ دیواں سنہری ہوگیا
دوسرے مصرعے میں لفظ سنہری، صفحہ کی صفت ہے جو مذکر لفظ ہے۔
اور پہلے مصرعے میں سنہرے منقول ہے، جو سنہرا ہی کی اضافتی شکل ہے۔
حالانکہ سونا اور روپا ہندی الأصل ہیں۔ ان دونوں ہی الفاظ کو سنسکرت لفظ سونا ( स्वर्णं ) اور روپا ( रूप्य) سے لیا گیا ہے۔ اسی طرح وصف منسوب سنہرا اور روپہلا بھی ہندی الفاظ ہیں۔
واضح رہے کہ ہندی زبان میں سنہرا بلنگ (مذکر ) ہے۔ اور سنہری استری لنگ ( مونث) … نیز اس میں الف تذکیر کے لیے ہے اور یاء تانیث کے لیے ہے جیسے لڑکا اور لڑکی میں ہے۔
لہذا اگر اردو میں ہندی قواعد کا لحاظ کیا جائے گا تو سنہرا مذکر شمار ہوگا اور سنہری مونث…
لیکن اگر اسے اردو بنا لیا گیا ہے تو اس میں اردو کا قاعدہ جاری ہوگا اور اسے ہمیشہ سنہری استعمال کیا جائے گا۔
اسی لیے بعض حضرات سنہرا و سنہری دونوں استعمال کرتے ہیں اور بعض لوگ صرف سنہری کو جائز قرار دیتے ہیں۔
اس میں آپ کی کیا رائے ہے؟ کمنٹ میں ضرور لکھیں .. یا واٹساپ یا میل کریں:

9420735169
Abulmarjanbut@gmail.com

آپ کے تبصرے

3000