میرے یار، میرے دوست تم بھی ساتھ چھوڑ گئے

ایم اے فاروقی تذکرہ

کل شام چھ بجے میرے ماموں زاد بھائی مولانا حسان صاحب سلفی ناظم دارا الدعوۃ لال گوپال گنج الہ آباد کی اہلیہ کے انتقال کی خبر ملی مرحومہ رشتہ میں میری بہن ہوتی تھیں، نہایت دین دار خاتون تھیں، عمر کے آخری پڑاؤ میں شریک حیات کا جدا ہوجا نے کا صدمہ بے حد اذیت ناک ہوتا ہے، حسان بھائی کے پر سے سے صبح ساڑھے سات بجےفارغ ہی ہوا تھا کہ فیس بک پر مولانا عبید اللہ طیب کے سانحہ ارتحال کی خبر پڑھنے کو ملی، خبر کیا تھی ایک بجلی تھی جو کوند گئی۔

نظروں کے سامنے اندھیرا سا چھا گیا،دل و دماغ ماؤف سے ہوگئے ،ایک ساتھی اور دوست کے بچھڑنے کا صدمہ ایسے ہے کہ صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹا جارہا ہے، دوستی بھی ایسی ویسی نہیں اکسٹھ باسٹھ سال کی قدیمی ہم دونوں ہمیشہ ایک دوسرے کو دوسوا ابے دوسوا کہہ کر مخاطب کرتے، ٹھیک سے یاد نہیں شاید تین یا چار ماہ قبل عزیزی ظفر نعمان کے بیٹے کے عقیقہ میں گیا، مقصد یہی تھا کہ اسی بہانے دوسوا سے ملاقات ہوجائے گی، ملاقات ہوئی ہم نے ایک دوسرے کے دکھ درد سنے، بیماریوں کی کہانیاں سنیں، بڑھاپے میں بیان کرنے کواس کے علاوہ کیا رہ جاتا ہے، کہنے لگے دوسوا کمزوری بہت زیادہ ہے، معدہ صحیح سے کام نہیں کررہا ہے، بھوک بالکل نہیں لگتی، میں نے کہا بڑھاپے میں ان بیماریوں کے ساتھ جینے کی عادت ڈال لے میرے دوست، کسے معلوم تھا یہ ہماری آخری ملاقات ہے۔ چند روز قبل عزیزی ضمیر نے اطلاع دی کہ آپ کے دوست ہاسپٹل میں ایڈمٹ ہیں، فیس بک کے ذریعہ ان کے شاگردوں کو اطلاع دے دیں اور دعا کے لیے کہہ دیں، شب میں خیریت لینے کے لیے ضمیر سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن رابطہ نہ ہوسکا، صبح ان کے دنیا سے اٹھ جانے کی خبر ملی، ضمیر کا نمبر ملایا تو عبید اللہ کے داماد نے فون رسیو کیا اور تفصیل بتائی کہ ابھی کوئی آدھ گھنٹہ قبل سانس ڈوب گئی، علاج کے لیے میدانتا لکھنؤ لائے تھے کہ وقت موعود آگیا ۔انا للہ وانا الیہ راجعون

اللھم اغفر لہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ والھم ذویہ الصبر والسلوان

ان کے گھر والے ایمبولینس سے لکھنؤ لے کر گئے تھے کہ اللہ تو مردوں میں جان ڈال دیتا ہے،لیکن مایوسی ہاتھ لگی، ڈاکٹر نے کہہ دیا کہ اب کچھ نہیں باقی بچا ہے، میت لے کر واپس آگئے۔

اس گھاٹ پر اترنا تو سب کو ہے اس کے بغیر چارہ نہیں، لیکن پہلے جانے والا جو غم دے جاتا ہے وہ ناقابل بیان ہوتا ہے۔

‎جب آہ ان احباب کو

‎میں یاد کر اٹھتا ہوں جو

‎یوں مجھ سے پہلے اٹھ گئے

‎جس طرح طائر باغ کے

‎یا جیسے پھول اور پتیاں

‎گر جائیں سب قبل از خزاں

اور خشک رہ جائے شجر

‎اس وقت تنہائی مری

‎بن کر مجسم بےکسی

‎کر دیتی ہے پیشِ نظر

‎ہو حق سااک ویران گھر

‎ویران جس کو چھوڑ کے

‎سب رہنے والے چل بسے

آہ ان دوستوں کی اب تو صرف یادیں رہ گئی ہیں ، احباب کا غم اٹھانے کے لیے میں جیے جارہا ہوں، عبید اللہ کے علم و فضل کا بکھان کیا کروں ، ہمارے لیے تو وہ صرف دوسوا تھے، شخصیت ایسی پیاری تھی کہ چند ساعتوں میں من موہ لے، میرے تو وہ بچپن کے یار نہیں لنگوٹیا یار تھے، ہم عمر اور ہم سن تھے، ہم دونوں کی پیدائش ۱۹۵۲ کی تھی،(جامعہ سلفیہ کے داخلہ رجسٹر میں ان کی تاریخ پیدائش ۱۹۴۷ لکھی ہوئی ہے، دراصل یہ تاریخ پیدائش مولانا آزاد رحمانی رحمہ اللہ نے اندازے سے لکھ دی تھی )اور اب ہم ستر کے پار جارہے تھے کہ رب کا بلاوا آگیا اور وہ جوار رحمت میں چلے گئے، اللہ مغفرت کرے اور لغزشوں کو معاف فرمائے۔

مولانا عبید اللہ طیب نےعلم و ادب کی آغوش میں پرورش پائی، والد محترم مولانا حافظ ابوالقاسم بنارسی مولانا منیر خاں رحمہ اللہ (وفات ۱۹۴۵)کے عزیز ترین شاگرد اور بنارس کے بڑے عالم تھے، جامعہ رحمانیہ میں کچھ عرصہ تک اعزازی طور پر تدریس سے منسلک رہے ،غالبا ۱۹۶۵ میں انتقال ہوا، اس وقت عبید اللہ کی عمر تیرہ سال تھی اور وہ عربی کی ابتدائی جماعتوں میں پڑھ رہے تھے،بڑے بھائی استاذ الاساتذہ مولانا عبد الوحید رحمانی سابق شیخ الجامعۃ السلفیہ کی شخصیت محتاج تعارف نہیں ہے ، اللہ نے ان کے خاندان کو خوب علم و فضل سے نوازا، ان کے بھتیجوں میں مولانا انس مکی جامعہ سلفیہ کے اب سینئر اور ممتاز استاد ہیں نیز جامعہ میں مدیر لجنۃ الامتحان کے منصب پر فائز ہیں، دوسرے بھتیجے مولانا ظفر نعمان جامعہ ام القری مکہ مکرمہ سے ایم اے ہیں اور جامعہ رحمانیہ کے شعبۂ عالیہ میں درس و تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں، عزیزی انس سلمہ کے بیٹے ظبیان انس جامعہ سلفیہ سے فارغ ہیں، ماشاء اللہ بنارس کے نوجوان اہل حدیث مقررین میں امتیازی حیثیت کے مالک ہیں، مولانا کی بیٹی اور دو بھتیجیاں جامعہ رحمانیہ (بنات)میں تدریسی خدمات انجام دے رہی ہیں (افسوس کہ آپ کی ایک بھتیجی اور رحمانیہ کی ممتاز استانی کا انتقال دوران ملازمت کچھ سال قبل ہوگیا)علم کے اعتبار سے آپ کے خاندان پراللہ رب العالمین کا یہ خاص فضل وکرم ہے (ذالک فضل اللہ یوتیہ من یشاء)

پرائمری سے ہمارا ان کا جو ساتھ ہوا تو قضا ہی اس رفاقت کو توڑ سکی، پرائمری تعلیم کے کچھ اور ساتھی تھے جو ترک تعلیم کرکے اپنی روزی روٹی میں مصروف ہوگئے، لیکن دوستوں کے حلقے میں شامل رہے ، فضل الرحمان ، شاہد جمال ، اقبال ، مولانا محمد مدنی استاد جامعہ سلفیہ بنارس ، یہ سب کے سب آج مرحوم ہوچکے ہیں ، تعلیمی سفر کے ساتھی عبید اللہ اور عبد اللہ زبیری تھے ، سالانہ اور ششماہی امتحان کے دوران دونوں کا زیادہ وقت دارالاقامہ میں گزرتا، تیاریاں تو کم ہوتیں اودھم بازی اور مستیاں زیادہ ہوتیں، علمی دلچسپیوں اور ذوق میں عبید اللہ اور مجھ میں بڑی ہم آہنگی تھی جس نے ہمیں دوستی کے مضبوط رشتے میں ہمیشہ جکڑ کےرکھا ، ہم دونوں کے ساتھ عبد اللہ زبیری بھی تھے ہم نے ایک ساتھ رحمانیہ اور سلفیہ کا تعلیمی سفر طے کیا آہ اس مثلث کا ایک زاویہ اب گر چکا ہے، عبید اللہ کی ذہانت اور فطانت قابل رشک تھی، رحمانیہ میں کبھی ان کا امتحان میں پہلا نمبر آتا کبھی میرا ، ہم دونوں میں کبھی منافست اور مقابلہ آرائی نہیں ہوئی جس کا بھی پہلا نمبر آیا دونوں خوش ہو لیے، جامعہ سلفیہ پہنچے تو رحمانیہ کے سات ساتھی سترہ ہو چکے تھے، باستثنائے چند ہم لوگ ایک ساتھ مل کر امتحان کی تیاری کرتے، تکرار اور آموختہ کی رویژن کر انے والے صرف چار پانچ لوگ ہوتے، تفہیم کی سب سے زیادہ صلاحیت عبید اللہ اور مفضل (ڈاکٹر مفضل حفظہ اللہ استاد جامعہ سنابل دہلی) میں تھی، یہ تھک جاتے تو میرا اور سہیل(شیخ سہیل مدنی امیر جمعیت اہل حدیث مئو)کا نمبر آتا ہم دونوں سمجھاتے تو منہ سے الفاظ کم جھاگ زیادہ نکلتا، عالمیت تک تکرار کرانے میں حکیم عبد الحنان رحمہ اللہ بھی شریک ہوتے، ہماری اور عبید اللہ کی شامیں بھی اکثر ایک ساتھ گزرتیں، وہ سرو قد تھے ہم شجر صنوبر ،ساتھ چلتے تو “لا” کی تصویر بن جاتے، وہ اپنی لمبائی کی وجہ سے نمایاں ہوتے ، ہم اختصار کی وجہ سے ہستی سے نیستی میں چلے جاتے کبھی عبد اللہ زبیری ساتھ ہوتے تو ہم بیچ میں رہنے کی کوشش کرتے تاکہ “لام” کی شکل میں ہم بھی کچھ نمایاں ہوسکیں، فاضل ادب کے لیے ہم نے اور عبد الرحمان ( ڈاکٹر عبد الرحمان پریوائی )نےفارم بھردیا،عبید اللہ تیار نہیں ہوئے، عبد الرحمان نے امتحان دے دیا، عبید اللہ نے کہا امسال امتحان نہ دے اگلے سال ہم دونوں ایک ساتھ فاضل ادب کا امتحان دیں گے ہم نے امتحان نہیں دیا اور اگلے سال ایک ساتھ امتحان دیا، مختصر چھٹیوں میں وہ کبھی کبھار ہمارے ساتھ پریوا چلے جاتے، میں تو دیہاتی آب و ہوا میں پلا بڑھا تھا، ان کے لیے دیہی زندگی نئی چیز تھی باغات، نہر اور لہلہاتے ہوئے کھیتوں سے خوب لطف اندوز ہوتے۔

تعلیمی دور میں ۱۶/ جون ۱۹۷۲ کو بنارس میں فرقہ وارانہ فساد ہوا مدن پورہ کے لوگوں پر پولیس کا قہر ٹوٹ پڑا، شیخ الجامعہ مرحوم اور عبید اللہ پولیس کی تعذیب کا شدید نشانہ بنے، اس وقت مشہور کانگریسی نیتاکملا پتی ترپاٹھی یوپی کے وزیر اعلی تھے، بیٹھک کے الیاس دا نیتا(مولانا سعید میسور مدنی کے والد) کانگریس کے نائب صدر تھے، پولیس نے ان کو بھی نہیں بخشا، شیخ ہادی کو رحمانیہ کی قدیم عمارت(موجودہ رحمانیہ بنات)میں رکھا گیا تھا، پولیس نے مدرسہ کی تلاشی لی، کوتوال غالبا اس کا نام چنڈولہ تھا اس نے شیخ کی گھڑی چھین لی، معاملہ سعودی سفارت خانہ تک پہنچ گیا، کوتوال کا تبادلہ ہوگیا، گھڑی واپس مل گئی، فساد ختم ہوا تو وزیر موصوف نے متاثرین کو بطور اشک شوئی معمولی سی رقم دے دی، عبید اللہ کو غالبا پانچ سو روپئے ملے تھے، لیکن کمر پر جو چوٹیں آئی تھیں ان کا اثر کبھی نہیں گیا۔

ہم دونوں کی شادیاں ایک سال کے فرق سے ہوئیں تھیں میری شادی کا کرتا پاجامہ عبید اللہ نے اپنی بہن سے سلوایا تھا، فراغت کے بعد وہ کچھ ماہ تک سلفیہ کی لائبریری میں بحیثیت لائبریرین رہے، ان کی منظوری مدینہ یونیورسٹی کے لیے آگئی وہ آگے کی تعلیم جاری رکھنے کے لیے مدینہ منورہ چلے گئےوہاں سے لیسانس کیا پھر ایم اے کے لیے جامعہ ام القری مکہ مکرمہ میں داخلہ لیا۔

ہماری زندگیوں کا سنہری دور گزر چکا تھا، طالب علمی کا زمانہ بھی کیسا زمانہ تھا، ہائے وہ بے فکری، فقیری میں بھی بادشاہی، نہ مسئلے تھے، نہ مستقبل کی سوچ، پڑھنا، مستی کرنا، شاموں کو انجوائے کرنا، اب تو جامعہ سلفیہ میں حاضری کی بڑی سختی ہے، ہمارے وقتوں میں استاد حاضری تو لیتا تھا لیکن بہت زیادہ سختی نہ تھی، یاد آتا ہے کہ ناشتے کے بعد کی گھنٹی میں کبھی کبھی ہم اور عبید اللہ تاخیر سے پہنچتے یا اس گھنٹی میں ناغہ ہوجاتا، ہم دونوں کا تعلیمی ریکارڈ اچھا تھا اس لیے استاد بھی نظر انداز کردیتے، اردو ادب سے ہم دونوں کو شروع ہی سے دل چسپی تھی، رحمانیہ کے زمانے سے ہی سعیدیہ لائبریری کو تاک لیا تھا، لائبریری کا ایک دروازہ عبید اللہ کے گھر کے صحن میں کھلتا تھا، اس وقت لائبریرین منشی خلیل مرحوم تھے جو رحمانیہ میں پرائمری کے استاد تھے، وہ ہم لوگوں کو بھی پڑھا چکے تھے عصر بعد لائبریری کھلتی اور عشا سے پہلے بند ہوتی ، لائبریری کی کنجیاں عبیداللہ کے گھر ہی میں رکھی جاتیں، ہم دونوں ظہر کے وقت ان کے گھر کے اندر سے لائبریری کھولتے اور من پسند کتابیں نکال لیتے ، منشی جی کو خبر بھی نہ ہونے پاتی، کبھی بھائی صاحب کے نام سے ایشو کراتے، برس چودہ کا پندرہ کا سن تھا، جوانی دستک دے چکی تھی، رومانی ناولوں کا اچھا خاصا سرمایہ لائبریری میں تھا، ہم دونوں نے وہیں سے آغاز کیااور پھر ایسا چسکہ لگا کہ کتب خانے کا بیشتر ذخیرہ چاٹ گئے، عبید اللہ ہی کی وساطت سے اسلامیہ لائبریری کے ممبر بھی بن گئے، در اصل ان کے ایک رشتہ دار لائبریری کے منصب دار تھے، شعور میں پختگی آئی اور ہم سلفیہ پہنچ گئے تو تاریخ ، اسلامیات ، ادب اور اردو عربی کے دوسرے موضوعات پڑھنے میں دل چسپی ہوئی، عبید اللہ نہایت خوش گلو تھے، دھیمی دھیمی آواز میں ترنم کے ساتھ احمد ندیم قاسمی کی یہ غزل :

تجھے اظہار محبت سے اگر نفرت ہے

تو نے ہونٹوں کو لرزنے سے تو روکا ہوتا

بےنیازی سے مگر کانپتی آواز کے ساتھ

تو نے گھبرا کے میرا نام نہ پوچھا ہوتا

تیرے بس میں تھی اگر مشعل جذبات کی لو

تیرے رخسار میں گلزار نہ بھڑکا ہوتا

یوں تو مجھ سے ہوئیں صرف آب وہوا کی باتیں

اپنے ٹوٹے ہوئے فقروں کو تو پرکھا ہوتا

یونہی بے وجہ ٹھٹھکنے کی ضرورت کیا تھی

دم رخصت اگر یاد نہ آیا ہوتا

تیرا غماز بنا خود تیرا اندازِ خرام

دل نہ سنبھلا تھا تو قدموں کو سنبھالا ہوتا

اپنے بدلے میری تصویر نظر آجاتی

تُو نے اُس وقت اگر آئینہ دیکھا ہوتا

حوصلہ تجھ کو نہ تھا مجھ سے جُدا ہونے کا

ورنہ کاجل تیری آنکھوں میں نہ پھیلا ہوتا

اور کیفی اعظمی کی نظم

’’ہو کے مجبور مجھے اس نے بھلایا ہوگا”کے خاص طور سے یہ دونو ں بند

چھیڑ کی بات پہ ارماں مچل آئے ہوں گے

غم دکھاوے کی ہنسی میں ابل آئے ہوں گے

نام پر میرے ، جب آنسو نکل آئے ہوں گے

سر نہ کاندھے سے سہیلی کے اٹھایا ہوگا

ہوکے مجبور مجھے اس نے بھلایا ہوگا

زلف ضد کرکے کسی نے جو بنائی ہوگی

اور بھی غم کی گھٹا مکھڑے پہ چھائی ہوگی

بجلی نظروں نے کئی دن نہ گرائی ہوگی

رنگ چہرے پہ کئی روز نہ آیا ہوگا

ہوکے مجبور مجھے اس نے بھلایا ہوگا

احباب کے اصرار پر پڑھتے، تو سماں باندھ دیتے، یہ عہد تعلیم کی خوب صورت یادیں ہیں، جن کے نقش دل و دماغ میں ابھی بھی محفوظ ہیں، وقت کے ساتھ ہماری دل چسپیاں بدلتی گئیں، ان کی رائٹنگ بڑی خوب صورت تھی، لکھتے تو جیسے موتی پروتے، تفہیم میں انھیں بڑا ملکہ حاصل تھا، خطابت سے زیادہ دل چسپی تھی، مضمون نگاری سے کم لگاؤ تھا، حالانکہ اردو و عربی دونوں میں لکھنے کی اچھی صلاحیت تھی، میری اردو اچھی تھی تو ان کی عربی ،مجھے یاد ہے کہ ایک بار ’’اردو زبان اور اس کا مستقبل‘‘ پر ندوۃ الطلبہ کی طرف سے عالمیت کے لیے مضمون لکھنے کی دعوت دی گئی، مضمون میں نے لکھا، لیکن اسے عبید اللہ نے سنایا، افسوس کہ اس مقابلے میں صرف ایک ہی مضمون نگار نے شرکت کی، اشعار مجھے زیادہ یاد تھے، لیکن ان میں کچھ نہ کچھ حذف یا اضافہ کردیتا، بیت بازی ہوتی تو ہم ، عبید اللہ اور عزیزالرحمان جون پوری ایک گروپ میں ہوتے، میں اشعار کی نشان دہی کرتا، عبید اللہ یا عزیز الرحمان اس کی تصحیح کر کے پڑھ دیتے، انھیں کھیل سے کوئی لگاؤ نہیں تھا، ہم لوگ گنگا نہانے کے لیے جاتے تو کبھی کبھار عبید اللہ کو بھی گھسیٹ کر لے جاتے وہ پانی سے بہت ڈرتے زبردستی پانی میں گھسیٹتے تو چوسٹھی گھاٹ کی سیڑھی پکڑکے چھب چھب پانی میں پیر چلا لیتے ، ہم اور عبد اللہ زبیری نے بڑی کوشش کی وہ بھی تیراکی سیکھ لیں لیکن کبھی راضی نہیں ہوئے، ہم درسی کتابوں کے کیڑے کبھی نہیں بنے، بس اساتذہ کی گھنٹیوں میں جو پڑھ لیتے وہی کافی ہوتا، ہاں امتحان کے دنوں میں ساری تفریحات اور مشاغل بالائے طاق رکھ دیتے، تیاری اجتماعی کرتے اور امتحان کےچار پانچ روز قبل یہ سلسلہ ختم کردیتے، اس وقت مسجد کی تعمیر ہوئی تھی، نہ دارالحدیث ہال بنا تھا اور نہ لائبریری والی بلڈنگ بنی تھی، گیٹ سے گھستے ہی گراؤنڈ فلور پر دس کمرے تھے اس کے اوپر پانچ کمرے اور لائبریری تھی،بعد میں اوپرپانچ کمر ے اور تعمیر کردیے گئے ، اوپری منزل میں طلبہ رہتے تھے نیچے جو درس گاہیں تھیں ، وہی اساتذہ کی رہائش گاہیں بھی تھیں ،لائبریری کی عمارت تعمیر ہوگئی تو پورا مکتبہ وہاں منتقل کردیا گیا اور پرانی لائبریری کو ندوۃ الطلبہ کی لائبریری میں تبدیل کردیا گیا، پہلے اسی میں امتحانات ہوتے تھے، میٹنگیں اور فنکشن اسی لائبریری میں ہوتے تھے، مجھے یاد پڑتا ہے کہ اس وقت امتحانوں میں رول نمبر کارواج نہیں تھا، قطاروں میں طلبہ کو بٹھا دیا جاتا، یہ دھیان ضرور رکھا جاتا کہ ایک کلاس کے دو بچے آگے پیچھے نہ بیٹھیں ، اس وقت کل پینسٹھ ستر لڑکے رہتے تھے اس لیے زیادہ پریشانی نہیں ہوتی تھی ، ہمارا اور عبیداللہ کا دستور تھا کہ وہ دوسری قطار میں بیٹھتے اور میں ٹھیک ان کے سامنے دوسری قطار میں بیٹھتا، الحمدللہ تیاری اس قدر مکمل ہوتی کہ ایک دوسرے سے پوچھنے یا نقل کرنے کی کبھی ضرورت تو نہیں محسوس ہوئی ، البتہ اگر سوال میں کوئی پیچیدگی ہوتی یا جواب مکمل ہے کہ نہیں اس میں شبہ ہوتا تووہ یا میں کاپی کا لکھا ہوا صفحہ کھول دیتا، پڑھ کر ہم دونوں دو بار پٹر پٹر پلکیں جھپکا دیتے، عجیب بات ہے اس کے باوجود ہم دونوں کے نمبرات میں فرق ہوتا، اگر کسی کو شبہ ہو تو وہ نتائج کا رجسٹر کھول کر دیکھ سکتا ہے، ایک بار ششماہی یا سالانہ امتحان میں مولانا عبد المعید بنارسی رحمہ اللہ علیہ نے بھانپ لیا اور نگراں اساتذہ سے کہا: ابوالقاسم اور عبید اللہ آمنے سامنے نہ بیٹھنے پائیں ، میں مولانا سے ذرا بے تکلف تھا، پرچہ دینے کے بعد ان سے پوچھا:’’مولانا آپ جانتے ہیں کہ ہم دونوں کو پوچھنے کی اور نہ نقل کرنے کی ضرورت ہے، پھر آپ نے ہم دونوں سے ایسا کیوں کہا؟‘‘وہ ذرا ناک سے بولتے تھے مسکرا کر کہنے لگے :’’بچو!ہم تمھارے استاد ہیں تم لوگ ڈال ڈال تو ہم پات پات “

ان کے تلامذہ نے تو انھیں اس وقت دیکھا ہے جب زندگی نے ڈھلان کا رخ کر لیا تھا، تاہم شباب کی رعنائیوں کے نقوش تابندہ تھے، دبلے پتلے ، لمبے قد اور پر کشش شخصیت کے مالک تھے، طالب علمی کے دور میں لمبے بال اور فرنچ کٹ داڑھی رکھتے تھے، فراغت کے بعد آپ نے پوری داڑھی رکھ لی لیکن صرف اس قدر کہ مشت میں نہ سما سکے ، سر پر ہمیشہ سلیقے سے مخصوص مدن پوریا ٹوپی پہنتے، جس میں لمبے بال چھپ جاتے، اس ٹوپی کا تعلق مدن پورہ کی خاص تہذیب سے ہے، اب تو جالی والی سعودی ٹوپی کا زیادہ چلن ہوگیا، لیکن اس ٹوپی کے قدردانوں کی کمی اب بھی نہیں ہے، عبید اللہ ہمیشہ یہی ٹوپی استعمال کرتے تھے، ہمارے وقتوں میں عام طور پر مقامی طلبہ کا لباس سفید مدراسی لنگی، قمیض اور سفید ٹوپی ہوتا۔ وہ عام طلبہ میں کم ہی گھلا ملا کرتے، عبید اللہ بھی صرف اپنی جماعت کے لڑکوں سے بے تکلف تھے، ان کے دوستوں کا حلقہ بھی محدود تھا، ۱۹۷۳ میں ہم لوگوں کی فراغت ہوئی، ہماری جماعت سے عبید اللہ، عبد الرحمان اور مفضل کا داخلہ مدینہ یونیورسٹی میں ہوگیا، حکیم عبد الحنان رسول پوری فضلیت اول میں صرف چند ماہ پڑھے، انھوں نے علی گڈھ طبیہ کالج میں داخلہ لے لیا ، بقیہ فارغین کاروبار دنیا میں مصروف ہوگئے، عربی تعلیم حاصل کرنے والوں کے لیے آگے بڑھنے کی راہیں محدود رہتی ہیں، مواقع ملے تو مدینہ یا کسی ہندوستانی یونیورسٹی میں داخلہ لے لیں ورنہ کسی مدرسہ کا دامن تھام لیں یا مسجد میں امامت و خطابت کا فریضہ انجام دیں، بعد میں ہمارے ساتھیوں میں احمد مجتبیٰ اور عبد الرشید بھی مدینہ پہنچ گئے، اقبال احمد مدرسہ عالیہ مئو کے مدرس بن گئے بڑے باصلاحیت تھے اللہ نے جوانی ہی میں اپنے پاس بلالیا، بنگالی ساتھیوں میں محمد یحی مالدہی بھی مرحوم ہوچکے ہیں، عبد اللہ دیناج پوری اور نیاز الدین اپنے علاقوں کے مدرسوں کے ذریعے دینی خدمات انجام دے رہے ہیں، گونڈہ بستی کے ساتھیوں میں مقصود احمد اور معین الدین بھی مدرسوں سے وابستہ ہیں، عبد الحنان لٹیاوی لکھنؤ میں سکونت پذیر ہیں اور گروسری کے کاروباری ہیں۔

وقت وقت کی بات ہے جو ساتھی آٹھ یا چھ سال تک ہم نوالہ اور ہم پیالہ رہے وہ ٹوٹی ہوئی تسبیح کے دانوں کی طرح بکھر گئے سچ کہا احمد مشتاق نے:

‎اِک زمانہ تھا کہ سب ایک جگہ رہتے تھے

‎اور اب کوئی کہیں کوئی کہیں رہتا ہے

برسہا برس کی رفاقتیں خواب و خیال بن گئیں نہ بزم طرب کی مستیاں رہیں نہ شہر نگاراں کی اٹھکیلیاں نہ ہم نفسوں کی شوخیاں نہ عنادل کی زمزمہ سنجیاں نہ عیش و نشاط کی محفلیں نہ وہ صدائے دل نوازی نہ وہ ادائے دل بری۔

نہ وہ احباب نہ وہ لوگ، نہ وہ بزم طرب

‎صبح دم وہ اثر جلسہ شب کچھ بھی نہیں

کارزار حیات میں کودے تو ہرساتھی اپنے مسائل کی گتھیاں سلجھانے میں اس قدرمصروف ہو گیا کہ ایک دوسرے کی خبر لینے کی سدھ ہی نہ رہی، عبید اللہ۱۹۷۴ کے اختتام تک مدینہ پہنچے، وہاں سے لیسانس کیا غالبا۱۹۷۹ میں ایم اے کے لیے جامعہ ام القری میں رجسٹریشن کرایا، مشرف شیخ سید سابق بربری تھے، چار سال تک جم کر محنت کی، علوم حدیث خصوصا تخریج اور تحقیق سے دلچسپی تھی، اسی میں اختصاص پیدا کیا، ۱۴۰۴ھ مطابق ۱۹۸۳ ء میں ایم اے کی سند مل گئی مقالہ کا موضوع تھا مسند امام احمد بن حنبل سے ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی مرویات کی تخریج، تحقیق، دراسہ اور شرح،مقالہ دو جلدوں میں تقریبا آٹھ نو سو صفحات پر مشتمل ہے،ظاہر ہے اس کے بعد دکتوراہ کا نمبر آیا ہوگا، ۱۹۸۴ سے ۱۹۹۸ تک یعنی چودہ سال کی مدت آپ کو دکتوراہ کے لیے ملی لیکن افسوس کہ اس کی تکمیل نہ کر سکے، یقینا اسباب وعوائق رہے ہوں گے، جن کے بارے میں آپ نے نہ کبھی بتایا اور نہ کبھی خیال ہی ہوا کہ پوچھتے کہ چودہ سالوں میں آپ کا مقالہ مکمل کیوں نہیں ہوا، ان کے معاصرین میں اس وقت مکہ میں ڈاکٹر حافظ عبد العزیز مبارک پوری، ڈاکٹر اختر جمال بنارسی، ڈاکٹر جاوید اعظم ، ڈاکٹر عبد الوہاب صدیقی ان سے جونیر میں عزیر شمس وغیرہ تھے، ممکن ہے ان لوگوں کو خبر ہو۔

بیس پچیس سال کا یہ زمانہ وہ تھا، جب ہم سب کے روابط ٹوٹ چکے تھے، ہم میں سے ہر شخص ذمہ داریوں کا ایک بوجھ کاندھوں پر لادے تھا، ہماری شادیاں ہوچکیں تھیں، افزائش نسل کا سلسلہ بھی جاری تھا، اللہ کا فضل و کرم تھا اور ہم کچھ ایسے قناعت پسند بھی نہیں تھے، اللہ اولاد کی نعمت دے رہا تھا ہم اس کے شکر گزار ہورہے تھے،نویں دہائی کے نصف گزرنے تک ہم دونوں سات بچوں کے باپ بن چکے تھے، عبید اللہ کو سات بیٹیاں تھیں، اولاد نرینہ کا انھیں ہمیشہ قلق تھا، اللہ کے ہر کام میں مصلحت ہوتی ہے، دوسری شادی کے بعد اللہ نے یہ کمی دوسرے ذریعے سے پوری کردی ،میرے چار بیٹے تین بیٹیاں تھیں، ظاہر ہے کہ بچوں کی پرورش و پرداخت، تعلیم و تربیت، شادی بیاہ اورذرائع معاش کے لیے جد وجہد یہ ایسے مسئلے تھے جو سر اٹھانے کا موقع کم ہی دیتے تھے۔ ہم دونوں کی دنیا الگ تھی اور ہم اس میں مگن تھے، کبھی تعطیل میں عبیداللہ کا بنارس آناہوتا تو وہ اپنے ذاتی کاموں میں مصروف ہوتے ،مل بیٹھنے کے مواقع کم ہی ملتے، کبھی برسر راہ ملاقات ہوگئی تو آدھ گھنٹہ بیس منٹ ایک دوسرے کی خیر خیریت لے لیتے، پردیس میں رہتے ہوئے ایک بڑا کام انھوں نے یہ کیا کہ اپنا چار منزلہ پختہ خوبصورت مکان بنوالیا۔

وقت پر لگا کر اڑتا رہا ہم جوان سے بوڑھے ہونے لگے، پہلے کنپٹی کے بال سفید ہوئے پھر داڑھی کھچڑی ہوئی، عبید اللہ نے تقریبا چوبیس سال کا عرصہ سعودیہ میں گزارا، ان کی بچیوں کی پیدائش اور ابتدائی تعلیم بھی وہیں ہوئی، ظاہر ہے ہندوستانی اور سعودی رہن سہن میں بڑا فرق ہے، وہ آسائشیں ہندوستان میں کہاں مل سکتی ہیں جو سعودیہ میں ملتی ہیں اور اگر مکہ مکرمہ میں رہنے کو مل جائے تو کیاکہنا، حرم شریف کی مجاورت قسمت والوں کو ملتی ہے عبید اللہ کو اللہ نے اس نعمت سے نوازا تھا، وہاں سےرخصت ہونے کا کس مسلمان کا دل چاہے گا، عبید اللہ تو عالم دین تھے، بحیثیت طالب علم وہاں کی مشہور یونیورسٹی سے منسلک تھے، وہاں رہ کر خوب خوب علمی استفادہ کیا، تحقیق و تخریج کو ذریعہ معاش بھی بنایا، یہ نہیں معلوم کہ کوئی ملازمت کی تھی کہ نہیں، بہر حال اسکالر شپ کے ساتھ اتنی یافت ہوجاتی تھی کہ فراخی کے ساتھ گزر بسر ہورہی تھی۔

بالآخر ۱۹۹۸ ء میں بچوں کو لے کر انھیں مستقل طور سے وطن مراجعت کرنا پڑی بے کار تو بیٹھ نہیں سکتے تھے، نئے سرے سے میدان عمل میں اترنا پڑے، اس وقت وہ پچاس کے پیٹے میں تھے، ذہین اور طباع تھے، ان کی صلاحیتوں کے چرچے پہلے سے تھے، جامعہ سلفیہ میں تقرری کے لیے کوئی زیادہ دشواری نہیں ہوئی، وہ خود لائق مند استاد تھے، بہترین خطیب تھے، جامعہ سلفیہ کے قیام میں ان کے والد مولانا حافظ ابوالقاسم بنارسی اور بڑے بھائی مولانا عبد الوحید رحمانی سابق شیخ الجامعۃ السلفیہ کا بھی کردار تھا، جامعہ نے انھیں خوش آمدید کہا وہ جامعہ کے استاد بن گئے، شیخ الجامعہ کا ۱۹۹۷ ء میں انتقال ہوچکا تھا، ان کی جگہ پر جامع مسجد اہل حدیث طیب شاہ کے خطیب ہونے کابھی انھیں اعزاز حاصل ہوگیا، شیخ الجامعہ رحمہ اللہ کے بعد ان کی تقریر سامعین بہت زیادہ پسند کرتے تھے، تقریر میں نہ راگ تھا نہ ترنم ہزار، دھیمے دھیمے انداز میں ٹھہر ٹھہر کر بولتے، جو موضوع اٹھاتے متون اور نصوص سے مزین کرتے، پوری تقریر موضوع کے دائرے میں رہتی، اگر کوئی شخص ٹیپ کرتا تو مضمون اس طرح مکمل ہوتا کہ رد و بدل اور تصحیح کی گنجائش کم ہی رہتی زبان و بیان کی دل نشینی ایسی تھی کہ باتیں سیدھے دل میں اتر جائے، اپنے اس فن کو انھوں نے مدن پورہ کی مساجد اور سلفیہ ہی تک محدود رکھا تھا، جلسہ جلوس کے آدمی نہیں تھے، شہرت اور ریا و نمود سے بیزاری ان کے مزاج میں تھی، شاید و باید انھوں نے اجلاس وغیرہ کو خطاب کیا ہو، ایک بار میں زبردستی ان کو پریوا نرائن پور کے جلسے میں گھسیٹ لے گیا تھا، ڈیڑھ گھنٹہ کی ان کی تقریر ایسی تھی کہ عام زبان میں یہ کہیں کہ انھوں نے مجمع لوٹ لیا تھا تو غلط نہ ہوگا۔

جامعہ سلفیہ میں تدریسی زندگی کا آغاز کیا تو یہ محسوس نہیں ہونے دیا کہ ان کی آمد نئی نئی ہے، حدیث ،علوم حدیث اور ادب کی کتابوں کا درس اس طرح دینے لگے جیسے مدتوں سے درس و تدریس ہی ان کا میدان عمل ہو، چند ماہ ہی میں طلبہ میں مقبولیت حاصل کرلی، اصول پسند تھے وقت پر کلاس میں داخل ہوتے اور گھنٹی لگتے ہی باہر نکل آتے، اساتذہ اور طلبہ سے رسم و راہ کی حد متعین کیے ہوئے تھے، ہاں غرفۃ الاستراحہ میں ناشتہ کے وقت پابندی سے بیٹھتے اور بے تکلف ہوکر اساتذہ کی محفل میں شریک ہوتے، مجلہ حائطیہ اور سالانہ میگزین “المنار” کی نگرانی کی ذمہ داری انھیں دی گئی تو بحسن و خوبی اپنی ذمہ داری ادا کی، خوشبو اور عطور کا شوق انھیں ورثے میں ملا تھا، سنا ہے کہ ان کے دادا جنھیں سب رفیق چا کہتے تھے وہ عطر کے بہت شوقین تھے، بڑے بھائی شیخ الجامعہ چلتے تو لباس سے خوشبو پھوٹتی ، غرفۃ الاستراحہ میں ان کی الماری میں عطر کی پچاسوں شیشیاں سلیقے سے رکھی رہتیں، یہی حال ان کے گھر کے کمرے کا تھا،ہر گھنٹی کے بعد وہ الماری کھولتے، کمرہ مہک اٹھتا، ایک پھاہا استعمال کرتے اور اگلی گھنٹے پڑھانے کے لیے نکل کھڑے ہوتے۔ خوش لباسی ایسی تھی کہ مجال ہےاستری کیے ہوئے کپڑے میں معمولی سی شکن پڑجائے، خوشبو سے ان کے لگاؤ کے بارے میں لڑکوں کو بھی خبر تھی، مقالہ کی تکمیل کے بعد طلبہ اس کی خوب صورت سی جلد بندی کراتے اور مقالہ کو پرفیوم سے غسل دلاکر استاد کو پیش کرتے تو وہ بے حد خوش ہوتے، نمبرات بھی وہ بھر پور دیتے،تقریبا بائیس سال تک وہ جامعہ سے وابستہ رہے، اس دوران مجھے یاد نہیں ہے کہ کبھی کسی کی غیبت یا شکایت کی ہو یا کسی استاد پر کوئی تبصرہ کیا ہو، ایک بار ناظم مولانا عبد اللہ سعود کے ساتھ آپ نے کویت کا بھی سفر کیا، سعودیہ سے واپسی کے بعد غالبا ایک باربغرض عمرہ مکہ مکرمہ گئے۔

۲۰۰۷ میں آپ کی شریک حیات کا انتقال ہوگیا، یہ آپ کے لیے اور آپ کے بچوں کے لیے بہت بڑا صدمہ تھا، ہفتوں آپ نڈھال رہے، غم کی شدت میں کمی ہوئی تو مجھ سے انھوں نے کہا یار جانے والی تو چلی گئیں، بڑی بڑی بچیاں ہیں ، گھر کی نگرانی میرے اکیلے کے بس کی نہیں ہے، ان کے منشا کو سمجھ کر میں نے کہا:صحیح کہہ رہے ہو گھر میں کسی بزرگ خاتون کا رہنا ضروری ہے ایسا کرو کہ شادی کرلو، کہنے لگے یار میں خود سے تلاش کروں اچھا نہیں لگتا،مدن پورہ میں تمھارے کافی تعلقات ہیں ذرا تم ہی دیکھو، میں نے مولانا علی حسین کا نام لیا کہ ان سے کہا جائے مقامی طور پر گھروں میں ان کی آمد و رفت رہتی ہے، بات آئی گئی، میں خود اپنی اہلیہ کے علاج میں الجھا ہوا تھا، دلی میں تھا کہ کسی نے فون پر بتایا کہ عبید اللہ نے اہلیہ کے انتقال کے چالیسویں دن مدن پورہ ہی کے کسی گھرانے میں ایک شریف مطلقہ خاتون سے نکاح کرلیا، یہ ایک اچھا فیصلہ تھا، مزید بہتر یہ ہوا کہ ان کی بچیوں نے نئی ماں کو قبول کر لیا تھا، ان کی نئی اہلیہ کے پہلے شوہر سے دو بچے تھے، بڑے بچے ضمیر کو عبید اللہ نے اپنے پاس رکھ لیا، اسے باپ کی محبت اور شفقت دی، اس کو اچھی تعلیم و تربیت دی ماشاء اللہ ضمیر نے جامعہ سلفیہ سے فضیلت کی ڈگری لی، انھیں بھی خطابت سے دل چسپی ہے۔ اس فیلڈ میں عبید اللہ کی مکمل رہنمائی حاصل تھی ، دوسرا لڑکا بھی بڑا ہوا تو عبید اللہ نے اسے بھی اپنے پاس رکھ لیا، دونوں بچوں نے کاروبار میں خوب ترقی کی، سگی اولاد کی طرح دونوں نےعبید اللہ کی خدمت گزاری کی، ان کی دوا علاج میں کبھی کوئی کوتاہی نہیں کی، ۲۰۱۴ء میں انھیں دل کا دورہ پڑا، جسمانی طور پر وہ پہلے بھی بہت زیاد ہ صحت مند نہیں تھے، پڑھنے کے زمانے میں پوری گرمی وہ مزکوم رہتے، ناک سے پانی بہتا رہتا، رومال کے علاوہ کپڑے کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے رکھے رہتے جن سے ٹسوپیپر کا کام لیتے، معدہ بھی کمزور تھا، مرچ مسالے والی چیزوں سے ہمیشہ دور بھاگتے، بی ایچ یو میں ان کے دل کا آپریشن ہوا، اس کے بعد بیماری اور کمزوریوں نے نے جیسے گھر دیکھ لیا، ۲۰۱۸ء تک مستعدی سے پڑھاتے رہے، اس کے بعد کچھ نہ کچھ لگا ہی رہا، بچے کافی خوش حال ہوگئے تھے، ان کا دباؤ بھی تھا کہ اب آپ آرام کریں۔۲۰۲۰ سے خود کو تدریس سے علاحدہ کرلیا، یہ لاک ڈاؤن کا زمانہ تھا، زیادہ چلنا پھرنا بھی بند کردیا، ہمت پڑتی تو کبھی کبھار مسجد چلے جاتے، غالبا گذشتہ سال ضمیر میدانتا دلی لے کر گئے، دلی کےکئی ایک شاگرد مل گئے جنھوں نے بڑےڈاکٹر کو دکھایا، دل کا کوئی مسئلہ نہیں تھا، لوٹ کر آئے تو خود کو فٹ محسوس کیا، وفات سے قبل مولانا یونس صاحب مدنی کے پوتے کے عقیقہ کی تقریب میں شریک ہوئے ان سے جمعہ پڑھانے کا وعدہ بھی کیا لیکن وقت موعود آن پہنچا تھا، اچانک بخار آیا، لرزہ طاری ہوا، بیماری زیادہ بڑھی تو لڑکوں نے اوریانا ہاسپٹل رویندر پوری کالونی میں ایڈمٹ کردیا، شفا کی کوئی صورت نظر نہیں آئی تو ایمبولینس سے لکھنؤ میدانتا ہاسپٹل لے گئے، چارہ گری کی ہر صورت موت کے سامنے بے بس ہوچکی تھی، ہسپتال ہی میں ۲۱/ فروری بروز بدھ ۲۰۲۴ بوقت تقریبا سوا چھے بجے صبح اس جہان فانی سے رخصت ہوئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون، اللھم اغفر لہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ و ادخلہ برحمتک فی عبادک الصالحین، آمین۔ پس ماندگان میں سات بیٹیاں، اہلیہ اور دو ربیب ہیں، عبید اللہ پانچ بھائی تھے سب سے بڑے شیخ الجامعہ رحمہ اللہ تھے ، عبید اللہ چوتھے نمبر پر تھے ان سے چھوٹے ان کے ایک بھائی ہیں، بہنیں غالبا تین تھیں۔

ایم اے فاروقی

۱۱/مارچ ۲۰۲۴

آپ کے تبصرے

3000