کوئی روئے تو آئے کسی کو مزہ
جس کو چاہو اسے ہو عطا ہر جزا
بے گناہوں کو ملتی ہو جس سے سزا
ایسے قانون کو تشنۂ خون کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
رونقِ باغ پھولوں کی رنگت سے ہے
نام ہندوستاں کا محبت سے ہے
اب عبارت تمھاری عداوت سے ہے
اس خرافات کو رسمِ ظلمات کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
اپنی مرضی سے تم یہ وہ سب چھانٹ دو
بس چلے تو ہواؤں کو بھی بانٹ دو
معترض ہو کوئی تو اسے ڈانٹ دو
جبر کی آن کو ظلم کی شان کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
میڈیا بھی اسی کا طرف دار ہے
عدلیہ بھی اب اس کی مدد گار ہے
اب تو فریاد کرنا بھی دشوار ہے
ایسی سرکار کو، ایسے سردار کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
دخترِ رز کو لکھ دو شرابِ طہور
ظلمتِ شب کو کہ دو سویرے کا نور
ہر گھڑی اپنی شہرت کے نشّے میں چور
شیشۂ وہم کو چشمِ خوش فہم کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
خود گھٹاتے بڑھاتے ہو چیزوں کے دام
بیچ دیتے ہو اکثر متاعِ عوام
بس تمھاری ترقی رہے صبح و شام
ایسے بیوپار کو کالے بازار کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
ہر زمیں بن گئی ہے سیاسی زمیں
آہ کرتی ہے صحرا کی پیاسی زمیں
کیسے درشائے اپنی اداسی زمیں
ایسی برسات کو عدل کی مات کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
یوں گریزاں تو جمنا سے گنگا نہیں
سب کو پیارا ہے تہوار دنگا نہیں
اس پہ قربان کوئی پتنگا نہیں
شمعِ بے نور کو حکمِ مغرور کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
میں سدا پیشِ ہر چشمِ بے مہر ہوں
اپنے دریا سے لپٹی ہوئی لہر ہوں
شاد! میں رندِ مے خانۂ دہر ہوں
ساقیِ شہر کو بادۂ زہر کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
آپ کے تبصرے