وقت پھسلتا اور پگھلتا جارہا ہے !

حافظ خلیل سنابلی

زندگی کی تعریف ہر کوئی اپنے حساب سے کرتا ہے، جو جیسا ہوتا ہے اسی حساب سے زندگی کو بیاں کرتا ہے، ایک شرابی پوری دنیا کو جھومتا ہوا محسوس کرتا ہے، ایک بچے کی نظر میں زندگی صرف کھیل کود کا نام ہے، ایک جہاز کا پائلیٹ یا ملاح زندگی کو جہد مسلسل سے تعبیر کرتا ہے کہ جہاں ہمیشہ خطرہ سر پر لٹکتا رہتا ہے، کوئی اسے چار دن کی چاندنی سمجھ کر دو آرزو اور دو انتظار میں گنوا دیتا ہے اور بقیہ لوگوں کی نظر میں زندگی کی اپنی اپنی تعریف اور پہچان ہے لیکن اگر اس زندگی یا وقت کو ایک مومن کی نظر سے دیکھا جائے تو پتہ یہ چلتا ہے کہ یہ زندگی دار العمل ہے، یہاں ہم انسانوں کو اس لیے بھیجا گیا ہے تاکہ بھیجنے والا ہمیں پرکھے کہ ہم میں بہترین اعمال کون انجام دیتا ہے؟
وقت کی صورت میں اللہ نے ہم سب کو ایک بہترین نعمت عطا کیا ہے اس کا بہترین استعمال کر کے ہم نیک لوگوں میں اپنا شمار کرا سکتے ہیں لیکن نبی رحمت ﷺ کے فرمان کے بقول اکثر لوگ اس نعمت کے تعلق سے دھوکے میں مبتلا ہیں اور دنیا کو سب کچھ سمجھ بیٹھے ہیں، دنیا کی محبت میں گرفتار ہو کر وقت جیسی نعمت کو لہو و لعب میں برباد کر رہے ہیں جبکہ جس دنیا کی محبت میں انسان گرفتار ہے اس کی وقعت اور حیثیت اللہ کی نظر میں ایک مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں ہے:
دنیا نہ بسا دل میں کہ دنیا کی حقیقت
مچھر کے کسی پر کے برابر بھی نہیں ہے
آج آپ دیکھیں کہ لڑکے لڑکیاں بلکہ نوجوان، جوان اور بزرگ مرد و عورت سبھی اپنا وقت واہیات اور فضول چیزوں میں برباد کر رہے ہیں، اور خصوصی طور سے آج کی رات یعنی سال کے خاتمے کی رات غیروں کی تہذیب کو اپنا کر بچے اور بچیاں ایک نئے عیسوی سال کی آمد کا جشن منائیں گےاور ہیپی نیو ایئر کہہ کر ایک دوسرے سے جھوٹی خوشیاں تقسیم کریں گے۔ مجھے حیرت ہوتی ہے جب دیکھتا ہوں کہ لوگ ایک سال کے خاتمے پر ایک نئے سال کی آمد کا جشن منا رہے ہوتے ہیں۔ کہیں خلیل جبران کا ایک جملہ پڑھا تھا کہ کسی چیز کا آغاز دراصل ہمیں ماضی کے تعلق سے نصیحت کرنے آتا ہے۔
خوشیاں منانا یقیناً غلط نہیں ہے لیکن غلط اور بے معنی چیز پر خوشیاں منانا یقیناً غلط ہے۔ جشن منانے سے آنے والا لمحہ ہمارے لیے مبارک نہیں ہو جاتا ہے، لوگ رات بھر فالتو، لغو، بے کار اور لایعنی کاموں میں مصروف رہ کر آنے والے وقت اور لمحات کو اپنے لیے مبارک بنانا چاہتے ہیں۔ ہے نا تعجب کی بات؟
آپ رات نو بجے کے بعد یا اس کے آس پاس کسی نکڑ یا چوراہے پر چلے جائیں آپ کو چند نہیں بلکہ بہت سے لوگ مل جائیں گے جو نئے سال کے آنے پر نا جائز طریقے سے خوشی کا اظہار کر رہے ہوں گے، پٹاخے اور کیک کا لین دین کر رہے ہوں گے اور صاحب! کیک بھی ایسے کہ ہمارے ایک ساتھی کے آنکھوں دیکھا حال کے مطابق چھ سات دن پہلے بنائے ہوئے کیک، ناچنا گانا اس پر مستزاد، بینڈ باجے یا موسیقی میوزک کی دھن پر چند منچلے نوجوان لڑکے و لڑکیاں آپ کو ناچتے اور تھرکتے ہوئے بھی مل جائیں گے۔ ایسے ایسے مناظر آپ کو دیکھنے ملیں گے کہ حیا کو بھی حیا آ جائے۔
ممکن ہے آپ کہیں کہ صاحب! یہ سب کام تو غیر مسلم کرتا ہے پھر آپ کی یہ نصیحت کس کے لیے؟ تو بصد احترام عرض ہے کہ حضور! کیا یہودی کیا عیسائی، کیا ہندو کیا مسلم، سب اسی حمام میں ہیں اور نگاہوں نے وہ منظر بھی دیکھ رکھا ہے کہ اس کار خیر میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اپنے آپ کو فرقہ ناجیہ کا ایک فرد کہتے ہیں، اس موقع سے پوری فیملی کے ساتھ کسی ہوٹل، پارک یا ساحلِ سمندر پر نکل جانا اور وہاں سیر و تفریح کرتے ہوئے ناجائز کام کرنا غیروں کے ساتھ ساتھ اب مسلمانوں کا بھی شیوہ بن چکا ہے۔ آپ کی یہ بات غلط ہے کہ یہ کام صرف غیر کرتا ہے، کام دیکھ کر اگر فیصلہ کرنا ہو تو اب تو اپنا بھی غیر ہی نظر آتا ہے۔
دنیا اور اس کی رنگینیوں پر فریفتہ ہو کر اپنے قیمتی وقت کو لوگ برباد کر رہے ہیں حالانکہ انھیں معلوم نہیں کہ وقت ہمیشہ یہ اعلان کرتا ہے کہ لوگو! میں وقت ہوں، اگر تم میرا درست استعمال کرو گے تو رب کے فضل سے تم کامیاب ہو جاؤگے اور اگر تم نے میری قدر نہ کی بلکہ غلط استعمال کیا تو وقت جیسی عظیم نعمت دینے والے رب کی جانب سے عتاب کا شکار ہو جاؤگے اور ناکامی تمھارا مقدر ہوگی نتیجتاً پھر بعد میں سوائے پچھتاوے کے کچھ تمھارے ہاتھ نہ آئے گا اور ہاں! میں ہاتھ کی مٹھی میں موجود ریت کی مانند ہوں جو رفتہ رفتہ ہاتھ سے پھسلتا چلا جاتا ہے اور اخیر میں کچھ نہیں بچتا۔ ہاں! میں برف کی طرح ہوں، پگھلتے پگھلتے ختم ہوجاتا ہوں لیکن تم احساس سے عاری ہو اس لیے تمھیں کوئی فرق نہیں پڑتا ہے، پھر ایک دن آئے گا کہ میرے گزرتے رہنے سے تمھاری زندگی بھی ختم ہوگی اور پھر موت اچانک تمھارا مقدر بن جائے گی اور تم فنا کے گھاٹ اتر جاؤ گے۔ افسوس تمھیں اس وقت ہوگا جب موت تمھارے قریب آ جائے گی اور اللہ سے تم واپسی کی التجائیں کرو گے مگر وہ تمھیں ہرگز ہرگز موقع نہ دے گا بلکہ قیامت تک لیے تمھیں برزخی زندگی کے حوالے کر دیا جائے گا اور پھر ایک بار جب اپنی آنکھوں سے تم اللہ کا عذاب دیکھو گے تو پھر تمھیں وقت کے ضیاع اور بربادی پر افسوس ہوگا اور تم اللہ سے کہو گےکہ اے اللہ! ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا تو ہمیں پھر سے واپس اسی دنیا میں بھیج دے، ہم تجھے یقین دلاتے ہیں کہ آئندہ ہم نیک عمل کر کے آئیں گے، تو اللہ تم سے کہے گا کہ ہمارا ایک نظام اور سسٹم ہے کہ ہم کسی کو دوبارہ واپسی کا موقع نہیں دیتے، اس لیے اے غافل انسانو!
اب بھی موقع ہے درست کر لو نشیمن اپنا
ورنہ جب آئے گا ساون تو لہو روؤ گے

آپ کے تبصرے

3000