موجودہ حکومت نے اقتدار کی کرسی پر براجمان ہوتے ہی اقلیتوں اور خصوصا مسلمانوں کے خلاف محاذ کھول رکھی ہے۔ حکومت کی طرف سے انھیں مختلف طریقے سے الجھانے کی سعی ہوتی رہی، حتی کہ دین و شریعت میں بھی مداخلت کی جانے لگی۔ حکومتوں کی طرف سے دین و شریعت سے تعرض یا مسلم پرسنل لاء میں مداخلت کی یہ کوئی پہلی کوشش نہیں ہے اس سے پہلے متعدد بار اس طرح کے واقعات ہوتے رہے ہیں، چاہے وہ مطلقہ کے نان و نفقہ کا مسئلہ ہو یا لے پالک کا، یکساں سول کوڈ کا ہو یا دیگر مسائل کا، لیکن حکومت کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ مسلمانوں کے مختلف فیہ مسائل کو ایشو بنا کر آپس میں الجھا دیا جائے، ان کے درمیان پھوٹ ڈال دی جائے لیکن اللہ کا شکر ہے کہ انھیں ہر بار منہ کی کھانی پڑی اور مایوسی ہاتھ لگی، حالاں کہ اپنوں کی طرف سے بعض نادانیاں بھی ہوئیں۔
حکومت نے جس مسئلہ کو لے کر سب سے بڑا ہوا کھڑا کیا وہ ہے طلاق کا مسئلہ۔ مسئلہ طلاق کو عورتوں کے حق میں نامناسب و ناانصافی قرار دے کرطلاق ثلاثہ بل لانے کی کوششیں ہوئیں۔ ظاہر سی بات ہے مسلمانوں کی طرف سے اس کی مخالفت ہونی تھی اور ہوئی بھی، ریلیاں نکالی گئیں، مظاہرے ہوئے اورحکومت کو مسلمانوں کی طرف سے شدید مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ باوجود اس کے حکومت کی طرف سے کسی کی چیخ و فریاد سنے بغیر ۲۸/دسمبر ۲۰۱۸ کو لوک سبھا میں طلاق ثلاثہ بل پاس کردیا۔ راجیہ سبھا کے آڑے آنے کی صورت میں حکومت آرڈیننس بھی لاسکتی ہے۔ یہ تو حکومت کی کارستانیاں ہیں لیکن مجھے یہاں حکومت کی پالیسی اور اس کی کارکردگی سے متعلق کوئی گفتگو نہیں کرنا ہے۔ سردست موضوع بحث طلاق ثلاثہ کے سلسلے میں مسلم پرسنل لاء کی کارکردگی، کاروائی اور نقطہ نظر کے ضمن میں اس کے رویے پر تبصرہ کرنا مقصود ہے۔
طلاق ثلاثہ زیر بحث آئے ایک عرصہ گذر گیا، سوال یہ ہے کہ اس اثنا میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کی کار کردگی کیا رہی؟ اس کا منصوبہ کیا رہا؟ اور طلاق ثلاثہ کے سلسلہ میں اس کا نقطہ نظر کیا ہے؟۔ شاید یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ مذکورہ مسئلہ میں بورڈ احتجاجات و مظاہرے، اجتماعات اور کانفرنسیں منعقد کرانے میں رہ گیا، مسلمانوں سے رائے عامہ حاصل کرنے میں رہ گیا، ’’طلاق ثلاثہ بل شریعت میں مداخلت ہے‘‘ طلاق ثلاثہ بل شریعت کے خلاف ہے” کے نعرے بلند کرنے میں مصروف رہا۔ تجویزات و قرار داد پیش کرنے میں رہ گیا۔ نتیجہ کیا ہوا، اجتماعات و کانفرنسوں میں کروڑوں روپے لٹائے گئے، امت کے گراں قدر سرمایے صرف کیے گئے، اور ہم آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں سے سفر شروع ہوا تھا، آج بھی وہی نعرہ ’’طلاق ثلاثہ بل شریعت میں مداخلت ہے‘‘ کی صداؤں سے فضا گونج رہی ہے، آج بھی وہی پوسٹر ’’شریعت میں مداخلت بند کرو‘‘، ’’طلاق ثلاثہ بل ہمیں نا منظور ہے‘‘ لیے ہماری مائیں اور بہنیں سڑکوں پر کھڑی ہیں۔
یقیناً حکومت کا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے کسی بھی مسئلہ سے تعرض شریعت میں مداخلت ہے، آئین ہند کے بھی خلاف ہے۔ جو ناقابل قبول اور ناقابل برداشت ہے۔ لیکن ساتھ ہی بورڈ کو یاد رکھنا چاہیے کہ جتنی بھی آوازیں لگائی جائیں، جتنی بھی چیخیں ماری جائیں اور جتنے مظاہرے کیے جائیں ان سب سے حکومت کا تیور بدلنے والا ہے نہ اس کے فیصلے میں کوئی تبدیلی ہونے والی ہے۔ طلاق ثلاثہ تو خالص مسلمانوں کا مسئلہ ہے یہاں تو قومی مسائل میں بھی لاکھ احتجاجات و مظاہرات کے باوجود کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی۔
موجودہ حالات میں مسلمانوں کے لیے مظاہرات و احتجاجات سے زیادہ ضروری ہے کہ اپنے اندر اصلاح کی جائے۔ اپنے گریباں میں جھانکا جائے اور خامیوں کے ازالہ کی ہر ممکن کوشش کی جائے، یاد رہے کہ اپنی اصلاح کے بغیر کسی طرح کی تبدیلی و انقلاب کی کوئی بھی کوشش غیر نفع بخش ہے۔ اس سلسلے میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کا فریضہ بنتا تھا اور اسے اول روز ہی یہ بات سمجھ میں آجانی چاہیے تھی کہ خاموش اور منظم منصوبہ بندی کے ساتھ نئی نسل کی تربیت کی جائے، اس کو حالات سے باخبر کیا جائے، مستقبل کے لیے تیار کیا جائے، اسلام کی واضح اور صاف و شفاف تعلیمات سے بہرہ ور کیا جائے، دین سے رغبت پیدا کی جائے۔ خصوصا دشمنان اسلام اور جارحیت پسند عناصر کے نشانوں کے شکار اسلامی تعلیمات و مسائل کی صحیح وضاحت کی جائے۔ عوام میں مسئلہ طلاق کے سلسلے میں ضرور بورڈ نے وضاحت کی کوشش کی، اس کے لیے خطبہ جمعہ اور کانفرنسوں وغیرہ میں طلاق احسن، طلاق حسن اور طلاق بدعی کی وضاحت کا اہتمام کیا گیا، لیکن یہ کوشش ضرورت کے لحاظ سے بہت کم ہے کیوں کہ لمبی مدت تک چند وجوہات کی بناپر ہی سہی لیکن عوام الناس کو مسئلہ طلاق کی حقیقی صورت حال سے ناواقف رکھا گیا، طلاق احسن سے زیادہ طلاق بدعی کو ترویج دی گئی، جس کا نتیجہ ہے کہ ایک طبقہ کو چھوڑ کر آج بھی عام مسلمان طلاق کا مطلب تین طلاق سمجھتے ہیں، بیشتر کا خیال ہے کہ ایک ساتھ تین طلاق دیے بغیر طلاق واقع نہیں ہوتی۔ (میں یہ نہیں کہتا کہ اس میں پورا حنفی طبقہ شریک رہا بلکہ یہ تو اسلام کی صحیح تعلیمات سے ناآشنا لوگوں کا شیوہ رہا ہے، لیکن بعض اہل علم کی خاموشیوں کا بھی ساتھ ملا ہے) لہذا اس صورت حال کو بدلنے کے لیے بڑی تگ و دو اور جانفشانی کی ضرورت ہے۔ بورڈ یہ بات اچھی طرح سے جانتا ہے کہ فقہ حنفی کے مطابق ایک وقت میں دی گئیں تین طلاقیں اگرچہ واقع ہوجاتی ہیں لیکن یہ طریقہ قبیح اور مکروہ ہے تو پھر کیوں کسی مکروہ اور قبیح چیز کے خاتمے کے لیے کوئی منظم کوشش نہیں کی جاتی، کیوں نہیں اس کے مرتکبین کے خلاف کوئی کاروائی کی جاتی، کیوں نہیں کوئی ایسا منصوبہ اور قرارداد تیار کیا جاتا جس سے اس میں کمی لائی جاسکے اور خاص کر ایسی صورت میں جب وہ مخالفین کی نظر بد کا شکار ہو۔
دوسری بات طلاق کے تئیں بورڈ کے نقطہ نظر کی ہے۔ طلاق ثلاثہ کے تئیں بورڈ کا نظریہ آج بھی یہی ہے کہ مروجہ طریقہ ہی عین شریعت کے مطابق ہے جس میں کوئی غور و خوض نہیں کیا جاسکتا اور بظاہر اس کی کوئی امید بھی نظر نہیں آرہی ہے۔ الحمدللہ بورڈ کو ہندوستان کے مایہ ناز، علمی و فقہی باوقار شخصیات کی سرپرستی حاصل ہے تو کیا ضرورت محسوس نہیں ہوتی کہ طلاق ثلاثہ کے سلسلے میں غور و خوض کیاجائے، ہمارا سوال بورڈ سے ہے کہ کیا بورڈ کے کسی قانون پر غور و خوض نہیں کیا جاسکتا؟ کیا اس کے مدون کیے گئے قوانین حرف آخر ہیں جس پر کسی طرح کی تبدیلی ناممکن ہے؟ اور خاص کر ایسے مسئلہ میں جس کا بہتر متبادل شریعت میں موجود ہو، جس پر قرآن و احادیث کی واضح دلائل موجود ہوں۔ جس پر عہد نبوی ﷺ، عہد صدیقی اور عہد فاروقی کے ابتدائی دور میں باضابطہ عمل ہوا ہو، جس کے قائلین صحابہ کرام، تابعین عظام، تبع تابعین، سلف صالحین کی ایک جماعت اور امام ابن تیمیہ، امام ابن قیم جیسے دیگر بڑے فقہاء موجود ہوں، جس کا ماننے والا ایک معتدبہ طبقہ ملک میں موجود ہو اور جس کے حامی بورڈ کے رکن بھی ہوں۔ اور اب تو معاصر دنیا کے فقہ حنفی کے سرخیل علماء کچھ تو دبے لفظوں میں اور کچھ علی الاعلان اس کی حقانیت کا اعتراف کر چکے ہیں، اس کی حمایت میں آگے آگئے ہیں، جس کی مسلم و غیر مسلم دانشوران اور وکلاء حضرات پیروی کرتے ہیں۔
ہمارا سوال بورڈ سے ہے کہ کیا امام الفقہاء ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ رحمۃ واسعۃ اور دیگر فقہاء سے دلائل کی روشنی میں اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ہے؟ کیا کسی مسئلے میں ان سے اختلاف کرنا شریعت کے خلاف ہے؟ کیا اس اختلاف سے ان کے احترام میں کوئی کمی آجاتی ہے؟ اور اگر ایسی بات ہے تو کیا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے شاگردان امام ابو یوسف اور امام محمد اور دیگر فقہاء عظام کے شاگردوں نے ان سے اختلاف کرکے شریعت سے تعرض کیا؟ ان کی بے حرمتی کی؟ اور کیا معاصر دنیا کا کوئی حنفی یا کوئی مسلم دعوی کرسکتا ہے کہ وہ ان کے شاگردوں سے زیادہ شریعت کا پابند اور ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہ اور باقی فقہاء کرام کا قدرداں ہے۔ اگر ایسی بات نہیں ہے تو بورڈ کیوں نہیں مسئلہ پر غور و خوض کررہا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ مذکورہ مسئلہ کو انا کا مسئلہ بنالیا گیا ہے، کہیں ایسا تو نہیں کہ مسلکی تعصب آڑے آرہا ہے۔ لیکن ہمیں امید ہے ایسی کوئی بات نہیں ہوگی، کیوں کہ بورڈ کو فقہاء عظام کی سرپرستی حاصل ہے جن کی حالات پر گہری نظر ہے اور جو حالات کے مطابق قرآن و سنت سے عوام کی رہنمائی کرنے میں یدطولی رکھتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ طلاق ثلاثہ کے تئیں بھی غوروخوض کریں گے اور وہی فیصلہ دیں گے جو قرآن و سنت کے مطابق ہونے کے ساتھ عوام الناس کے لیے بھی مفید ہوگا۔
ہم بورڈ سے بے حد عزت و احترام کے ساتھ عرض کرنا چاہیں گے کہ:
کسی بھی قوم کے لیے مظاہرات و احتجاجات اور اجتماعات کے ذریعہ انقلاب برپا کرپانا ناممکن ہے۔ اس لیے ضرورت ہے نئی نسل کی اصلاح کے ساتھ صحیح رہنمائی کی جائے، موجودہ حالات میں مسلمانوں کو اپنے عمل سے ثابت کرنا ہوگا کہ انھیں کسی نئے قانون کی حاجت و ضرورت نہیں ہے، اس کے لیے ایسی فضا تیار کی جائے جس میں عام مسلمان شریعت کے احکام و اقدار کی پوری رعایت کرسکے، کیوں کہ کسی مسلمان کی بدعلمی دین و شریعت میں انگشت نمائی کا موقع فراہم کرتی ہے۔ بورڈ کو چاہیے کہ اس سلسلے میں منظم منصوبے کے ساتھ خاموش تحریکیں چلائے، اس سلسلے میں اسلام مخالف تنظیموں اور تحریکوں سے سبق حاصل کیا جاسکتاہے۔ مسلم پرسنل لاء کی حفاظت کا سب سے صحیح ذریعہ مسلمانوں کی قرآن و سنت کے مطابق عملی زندگی ہے۔
مسلم پرسنل لاء بورڈ مسلمانان ہند کی ایک آس اور امید ہے، مسلمانان ہند کا ہر فرد اسے اپنے لیے ایک پلیٹ فارم تصور کرتا ہے۔ ہم بورڈ اور اس کے ذمہ داران کی بڑی قدر کرتے ہیں، بورڈ کے ساتھ کسی طرح کا بھی تعرض اور اس میں مداخلت ہمیں ہرگز برداشت نہیں ہے۔ چاہے وہ جس کی طرف سے بھی ہو۔ بورڈ کو بھی چاہیے کہ وہ تمام مسلمانوں کو ساتھ لے کر چلے، تمام مسالک و مشارب کا خیال رکھے، کسی ایک مسلک کا ترجمان بن کر نہ رہ جائے، جو قوم و ملت اور خود بورڈ کے لیے غیر مناسب اور نقصان دہ ہے۔ ایسا نہ ہو کہ بورڈ کی مختلف فیہ مسائل میں لاپرواہی اور ہٹ دھرمی دشمن عناصر کے لیے عقائد و اصولیات کے باب میں دخل اندازی کا راستہ فراہم کردے۔
بورڈ کو چاہیے کہ کسی بھی درپیش مسئلہ اور چیلنج میں معاملہ کو سنجیدگی سے لے، مستقبل میں اس کے اثرات و خطرات کا جائزہ لیتے ہوئے ہنگامی حل نہ تلاش کرکے پائدار حل تلاش کرے۔
موجودہ حالات میں شرپسند عناصر کی طرف سے اسلام کے تئیں بردران وطن کے اذہان و قلوب کو بدظن کرنے کی منظم منصوبے کے ساتھ مسلسل جہد جاری ہے، بورڈ کو چاہیے کہ بردران وطن تک اسلام کی صحیح تعلیمات پہنچانے کی سعی پیہم کرے، اسلام سے متعلق پھیلائی جانے والی غلط فہمیوں کا زالہ کرے۔ یہ کام متعدد زبانوں خاص کر ہندی زبان میں ہونا چاہیے۔
بورڈ کو چاہیے کہ حکومتوں اور تحریکوں خاص کر اسلام کے خلاف متحرک تنظیموں سے مذاکرہ علمیہ کرے، ان کے شکوک و شبہات کا ازالہ کرے، ان سے قریب ہونے کی کوشش کرے۔
بردران وطن کے اسلام سے متعلق شکوک و شبہات کا ازالہ اور ان کو دین کی طرف مائل کرنے کا سب سے مؤثر ذریعہ خدمت خلق ہے۔ نچلے طبقے کے غیر مسلم اقوام اس سے خاصے متاثر ہوتےہیں، موجودہ حالات میں بورڈ کو اس کا دائرہ کار وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں عیسائی تنظیموں سے سبق لیا جاسکتا ہے۔ اگرچہ مذکورہ تجاویز بورڈ کے منصوبے میں ہیں لیکن انھیں خاموشی کے ساتھ زمینی سطح پر اور عملی زندگی میں اتارنے کی ضرورت ہے۔
آپ کے تبصرے