اس وقت پوری دنیا میں کورونا کے قہر سے ہاہاکار مچی ہوئی ہے۔ خوف ودہشت کے سائے میں سانسیں لی جارہی ہیں۔ وائرس سے بچاؤ کے لیے ڈاکٹروں اور سائنسدانوں کی طرف سے بتائے گئے ہر ممکن احتیاطی تدابیر بروئے کار لانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ احتیاط کے پیش نظر دنیا قید خانہ میں تبدیل ہوگئی ہے۔ کاروبار زندگی پوری طرح معطل ہے، مگر وائرس ہے کہ اپنے پیر پسارتے جارہا ہے۔ وطن عزیز ہندوستان میں بھی حالات کی سنگینی اور خطرناکی کے پیش نظر 25 مارچ سے ملک گیر لاک ڈاؤن نافذ کردیا گیا اور اب یہ لاک ڈاؤن اپنا تیسرا چلہ بھی پورا کرنے والا ہے۔ اچانک اور غیر منصوبہ بند لاک ڈاؤن کی وجہ سے عوام کو سخت ترین مسائل کا سامنا ہے، بالخصوص مزدور طبقہ انتہائی مشکل صورت حال سے دوچار ہے۔ لاکھوں مزدور مہاجرت اور دربدری کی ٹھوکریں کھارہے ہیں۔ کئی مزدور مسافر اپنے وطن پہنچنے سے قبل ہی مختلف حادثات کے شکار ہوکر دنیا سے چل بسے۔ ایک بڑی آبادی بھوک مری کی شکار ہے، اور اب تو آبادی کا متوسط طبقہ بھی فاقہ کشی کے دہانے پر ہے۔اتنی بڑی سنکٹ اور مہاماری کے دوران حکومت بجائے اس کے کہ عوام، بالخصوص مزدور کے مسائل کا مناسب حل تلاش کرتی، تالی، تھالی بجاؤ اور دیا جلاؤ کے حکم نافذ کرکے لاک ڈاؤن کی توسیع کرتی گئی، اور پی ایم کیئر ( PM Care) کے ذریعہ عوام کے کروڑوں روپے لوٹتی رہی، (اس کا مصرف کیا ہے، ابھی تک پردئہ خفا میں ہے)۔ اس ہاہاکاری کے بیچ حکومت کی طرف سے ایک عاقبت نا اندیشانہ اور تخریبانہ فیصلہ لیا گیا۔ ہوا یہ کہ حکومت نے اپنی نادانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 4 مئی سے کھلے عام شراب کی مارکیٹنگ کی اجازت دے دی۔ کورنا کا قہر کیا کم تھا کہ اس کے اوپر شراب کی وبا۔ یہ بات قابل غور ہے کہ ایک زہر (کورونا وائرس) کی وجہ سے جب دنیا تعطل کی شکار ہے، اشیاء خورد ونوش کے لالے پڑے ہیں تو دوسرا زہر فروخت کرنے کی اجازت کیوں کردی گئی، قبل اس کے کہ جواب تلاش کیا جائے مناسب ہوگا کہ انسانی صحت کے لیے شراب کے مضر اثرات بالخصوص موجودہ صورت حال میں اس کی ہلاکت خیزی پر مختصرا روشنی ڈال دی جائے۔
شراب کے مضر اثرات
شراب انسانی صحت کی سب سے بڑی دشمن ہے۔ شراب خور شراب کی شکل میں زہر پی رہا ہوتا ہے۔ بدن کا کون سا عضو ہے جو شراب سے متاثر نہیں ہوتا ہے۔ یہ ہزاروں امراض کی جڑ ہے، اس کی وجہ سے عالمی سطح پر ہر سال لاکھوں ہلاکتیں ہوتی ہیں۔ عالمی ادارہ صحت (WHO) کے مطابق ہر سال تقریبا 2.84 ملین اموات ہوتی ہیں۔ کورونا وائرس کے ابتدائی دور میں یہ افواہ پھیلائی گئی کہ شراب کورونا سے لڑنے میں معاون ہے۔ اس افواہ کے شکار ہوکر ایران میں سیکڑوں افراد زہریلی شراب پی کر اپنی جان گنوا بیٹھے۔ ہندوستان میں زہریلی شراب کے استعمال سے کئی ہلاکتیں ہوئیں۔
درحقیقت موجودہ حالات میں شراب نوشی نہ صرف جسم کو کورونا سے لڑنے کے ناقابل بنادیتی ہے بلکہ حملہ کرنے کی دعوت بھی دیتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے علاوہ متعدد ڈاکٹروں نے موجودہ صورت حال میں شراب نوشی کو سنگین قرار دیا ہے اوراس بات کا خدشہ ظاہر کیا ہے کہ شراب نوشی کی وجہ سے کورونا سے متاثر ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
حکوت کی بے حسی
اس وقت سوال یہ ہے کہ اتنے مخدوش حالات میں حکومت نے شراب فروخت کرنے کی اجازت کیوں دی۔ کیا حکومت کورونا کی اس مہاماری میں شراب کی فروخت کی سنگینی سے ناواقف ہے؟ کیا اسے اس کی ہلاکت خیزی کا اندازہ نہیں ہے؟ درحقیقت سچائی یہ ہے حکومت کو عوام کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اسے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس کے اس غیر دانشمندانہ فیصلے سے کس قدر کورونا مریض میں اضافہ ہوگا، کتنے افراد سنگین حالات سے دوچار ہوں گے۔ کتنے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ برسراقتدار پارٹی کے افراد کی پیشانیوں میں شکنیں نہیں پڑتیں کہ مزدور لامکانی و لاچاری سے دوچار ہیں۔ انھیں بھوک اپنی آغوش میں سلارہی ہے، ٹرینیں کچل رہی ہیں، زہریلی گیسز اپنا شکار بنارہی ہیں۔ یہ حکومت بے غیرتوں اور زرپرستوں کی ہے۔ اسے صرف سیاست اور مفاد سے مطلب ہے۔ جو حکومت سیاسی اغراض و مقاصد اور مفاد پرستی کے لیے پورے ملک کو نفرت کی آگ میں جھونک سکتی ہے اس کے لیے چند زندگیاں کیا معنی رکھتی ہیں۔
اس وبائی فضا میں شراب کی فروخت کی اجازت دینا اس کی مفاد پرستی کا ایک شاخسانہ ہے۔ منشیات کی تجارت کو موجودہ دنیا کی معیشت میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔ یہ ملکوں کی جی ڈی پی(GDP) کا رخ متعین کرتی ہے۔ اس وقت منشیات کی تجارت کو اسلحہ کے بعد سب سے زیادہ نفع بخش کاروبار مانا جاتا ہے۔ ہندوستان میں شراب کی تجارت سے سالانہ اربوں روپے کی آمدنی ہوتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2019-20 میں شراب کی تجارت سے مجموعی طور پر تمام صوبوں میں 2.5 لاکھ کروڑ کی آمدنی ہوئی۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہندوستان کی لڑکھڑاتی معیشت لڑھکنے کے کگار پر ہے۔ اسی لڑکھڑاتی معشیت کو سہارا دینے کے لیے حکومت نے عوام کی جانوں سے کھیلتے ہوئے یہ عاقبت نااندیشانہ فیصلہ لیا ہے۔ فی الوقت حکومت اپنے مقصد میں کامیاب نظر آرہی ہے اور تیر نشانے پر لگ رہا ہے۔ نادان عوام شراب کی چاہت میں اپنی جان کی بازی کھیل رہی ہے۔ لاک ڈاؤن کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں، شراب کی فروخت خوب ہورہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پہلے ہی دن میں صرف پانچ صوبوں میں 554 کروڑ کی کمائی ہوئی۔ بعض صوبوں نے شراب کے تئیں عقل سے معذور عوام کی رغبت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اضافی ٹیکس لینے کا فیصلہ لیا ہے۔ اس فیصلہ کے بعد گرچہ حکومت اپنے مقصد میں کامیاب ہورہی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس کے ہونے والے منفی اثرات کا کون ذمہ دار ہوگا۔ خبروں کے مطابق شراب کی دکانیں کھلنے کے بعد کورونا مریض کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے اور مزید تناسب میں اضافہ کا امکان ہے، آگے سماج پر اس کے اور کیا منفی اثرات مرتب ہوں گے یہ تو وقت ہی بتائے گا۔
آپ کے تبصرے