چھایا ہے ابرِ یاس چلو اب غزل کہیں

سحر محمود شعروسخن

چھایا ہے ابرِ یاس چلو اب غزل کہیں

ہر شخص ہے اداس چلو اب غزل کہیں


ہجر و فراقِ یار میں رونا فضول ہے

دل تو ہے اپنے پاس چلو اب غزل کہیں


یہ بھی علاج، دردِ جگر کا ہے لا جواب

مت کھوؤ تم حواس چلو اب غزل کہیں


اچھا ہوا کہ تھام لیا شاعری نے ہاتھ

غم آگیا ہے راس چلو اب غزل کہیں


تنہائیوں میں اب تو یہی سوچتے ہیں ہم

کیسے ہو وقت پاس چلو اب غزل کہیں


ممکن ہے دل کی بات سحر وہ سمجھ سکیں

باقی ہے اب بھی آس چلو اب غزل کہیں


آپ کے تبصرے

3000