موت

ڈاکٹر محمد اسلم مبارکپوری

موت ایک اٹل حقیقت ہے اس سے کسی کو مفر نہیں ہے۔ یہ وہ قانون الٰہی ہے جس میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔ روئے زمین پر بسنے والی تمام مخلوقات چاہے انبیاء ہوں یا اولیاء، شاہ ہوں یا گدا، فقیر ہوں یا مالدار، عالم ہو یا جاہل، پاگل ہوں یا عاقل، مرد ہوں یا عورت، چھوٹے ہوں یا بڑے ہر ایک کو موت کا جام پینا ہے۔ سب کو فنا کے گھاٹ اترنا ہے۔ اس سے کسی کو رستگاری نہیں ہے۔ روئے زمین پر کوئی ایسا فرد نہیں ہے جو موت سے نہ ڈرتا ہو اور اس لفظ کے سننے سے وہ حواس باختہ نہ ہو جاتا ہو اور اس کے بدن میں خوف اور ڈر طاری نہ ہوتا ہو۔ اس کا جسم لرزاں اور ترساں نہ ہوجاتا ہو۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

{قُلْ إِنَّ الْمَوْتَ الَّذِیْ تَفِرُّونَ مِنْہُ فَإِنَّہُ مُلَاقِیْکُم} (الجمعہ: ۸)

اےنبی ﷺ ! آپ کہہ دیجیے کہ جس سے تم راہ فرار اختیار کرتے ہو وہ تم سے ضرور آملے گی۔دوسری جگہ ارشاد ہے:

{أَیْْنَمَا تَکُونُواْ یُدْرِککُّمُ الْمَوْتُ وَلَوْ کُنتُمْ فِیْ بُرُوجٍ مُّشَیَّدَۃٍ} (النساء:۷۸)

تم جہاں کہیں بھی رہو۔ محلوں میں رہو کہ جھونپڑی میں، جنگل میں رہو کہ بیابان میں۔ کتنے بھی مضبوط اور محفوظ مقام میں رہو تمھیں ہر حال میں موت پا لے گی۔

{کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَۃُ اْلمَوْتِ} (الانبیاء: ۳۵)

ہر جان دار کو موت کا مزا چکھنا ہے۔ اللہ تعالی نے کسی بھی چیز کو بیکار نہیں پیدا کیا ہے۔موت کو بھی اللہ تعالی نے بڑی حکمت کے لیے پیدا کیا ہے۔ یہ ہمارے لیے سامان عبرت ہے۔ یہ ہمارے لیے اللہ کی طرف سے آزمائش اور امتحان ہے:

{الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیَاۃَ لِیَبْلُوَکُمْ أَیُّکُمْ أَحْسَنُ عَمَلاً وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفُورُ} (الملک: ۲)

جس نے موت وحیات کو پیدا کیا تاکہ تمھیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل کے اعتبار سے زیادہ بہتر ہے اور وہ بڑا زبردست، بڑا معاف کرنے والا ہے۔
اللہ کی طرف سے موت کا ایک وقت مقرر ہے۔ جب یہ وقت آجاتا ہے تو کسی کو ایک لمحے کی بھی مہلت نہیں ملتی ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالی نے ارشاد فرمایاہے:

{وَمَا کَانَ لِنَفْسٍ أَنْ تَمُوتَ إِلاَّ بِإِذْنِ اللہ کِتَاباً مُّؤَجَّلاً} (سورہ آل عمران: ۱۴۵)

اللہ کے حکم اور فیصلہ کے بغیر کوئی نفس مر نہیں سکتا ہے۔

{وَلِکُلِّ أُمَّۃٍ أَجَلٌ فَإِذَا جَائَ أَجَلُہُمْ لاَ یَسْتَأْخِرُونَ سَاعَۃً وَلاَ یَسْتَقْدِمُونَ}(الاعراف: ۳۴)

ہر امت کے لیے موت کا ایک وقت مقرر ہے۔ جب ان کا وقت آجاتا ہے تو نہ ایک ساعت آگے جاتا ہے اور نہ ایک گھڑی پیچھے۔ دوسری جگہ ارشاد ہے:

{وَلَن یُؤَخِّرَ اللَّہُ نَفْساً إِذَا جَاء أَجَلُہَا وَاللَّہُ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ}(المنافقون: ۱۱)

اور جب کسی کا مقرر وقت آجاتا ہے تو اسے اللہ تعالی ہر گز مہلت نہیں دیتا اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ تعالی اس سے بخوبی باخبر ہے۔ لہٰذا ہر انسان کو موت سے پہلے کا وقت غنیمت سمجھنا چاہیے اور اسے اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری میں صرف کرنا چاہیے تاکہ قیامت کے دن کسی طرح کی رسوائی کا سامنا نہ ہو اور اللہ کی طرف سے جب موت کا پیغام آئے تو وہ اس سے راضی اور خوش ہو۔
اس دار فانی سے ہمیں بھی ایک دن دار بقا کی طرف کوچ کرنا ہے اس لیے ہم کو دنیا میں نیک عمل کرنا چاہیے۔ اس جہاں فانی کی رنگینیوں میں دل نہیں لگانا چاہیے۔ زمانہ کی رعنائیوں پر فریفتہ نہیں ہونا چاہیے۔ یہ دنیا ساز و سامان کی جگہ ہے۔ عمل کی جگہ ہے۔ اس کے چکر میں پھنس کر اپنی عاقبت خراب نہیں کرنی چاہیے۔ اس کے چکر میں نہ آنے والے ہی حقیقت میں دانا اور سمجھ دار ہیں۔ جو دنیا کے رنگ میں کھو گئے ان سے بڑھ کر کوئی نادان اور بے سمجھ نہیں ہے۔ موت کو ہمیشہ یاد رکھنے والے ان رعنائیوں میں کبھی کھو نہیں سکتے اور نہ ہی اس دنیا سے کبھی دل لگا سکتے ہیں۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار نبی اکرم ﷺ نماز کے لیے تشریف لے گئے تو دیکھا کہ کچھ لوگ کھلکھلا کر ہنس رہے ہیں۔ آپ ﷺنے فرمایا:

أمَا إنَّکُمْ لَوْ أکْثَرْتُمْ ذِکْرَ ھَاذِمِ اللَّذَّات المَوْتِ، لَشَغَلَکُمْ عَمَّا أرَیٰ، فَأکْثِرُوْا ذِکْـرَ ھَاذِمِ الْلذَّاتِ: المَوَت (سنن الترمذی ۲۴۶۰،معجم الشیوخ لابن عساکر۱۰۹۱)

اگر تم لوگ لذتوں کو توڑ دینے والی چیز موت کو زیادہ یاد کرتے تو یہ تم کو اس ہنسی سے روک دیتی جو میں دیکھ رہا ہوں۔ پس تم لوگ لذتوں کو ختم کرنے والی( موت) کو کثرت سے یاد کیا کرو۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا کہ اچانک ایک انصاری آدمی آیا۔ نبی ﷺ کو سلام عرض کرنے کے بعد کہنے لگا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! مومنوں میں سب سے زیادہ عقل مند کون ہے؟ آپ نے فرمایا:

أکثرُھمْ لِلْمَوْتِ ذِکْراً وأحسَنُہُم لِمَا بَعْدَہ استَعداداً، أولائکَ الأکْیَاسُ (سنن ابن ماجہ ۴۲۵۹،)

(اسے شیخ البانی رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے)
یعنی سب سے زیادہ عقل مند وہ ہے جو موت کو سب سے زیادہ یاد کرنے والا ہو اور موت کے بعد آنے والے مراحل کے لیے سب سے زیادہ تیاری کرنے والا ہو۔
موت کی یاد کے لیے ہمیں قبرستان ضرور جانا چاہیے اور سوچنا چاہیے کہ ایک دن ہم کو بھی یہیں آنا ہے اور اسی مٹی میں دفن ہونا ہے۔ ہمیں ان رشتہ داروں اور دوستوں کے متعلق بھی سوچنا چاہیے جو کل تک ہمارے ساتھ تھے۔ ہماری مجلسوں اور محفلوں کے ایک اہم رکن تھے، لیکن آج اپنی قبر میں سوئے ہوئے ہیں اور منوں مٹی کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔ بڑی حیرت ہوتی ہے اس شخص پر جو اپنے ہاتھوں اور اپنے کندھوں پر کئی جنازے کو اٹھا چکا ہو۔ اپنے اعزہ و اقرباء کو در گور کر چکا ہو۔ اپنی آنکھوں سے موت کے خوف ناک منظر کو دیکھ چکا ہو۔ اپنے کانوں سے مرگ مفاجات کے واقعات کو سن رکھا ہو۔ اس کے دل میں یہ عقیدہ ہو کہ دنیا کی اس چند روزہ زندگی کو چھوڑ کر ہمیشہ رہنے والی آخرت کی طرف کوچ کرنا ہے اور اپنے پائی پائی کا حساب دینا ہے پھر بھی اپنی موت سے غافل ہے اور اسے موت کا ذرہ برابر خیال نہیں ہے۔ یقینا ایسا شخص اپنے آپ کو بہت بڑے خسارے میں ڈال رہا ہے۔ اس خسارہ سے بچنے کے لیے ہمیں کثرت سے موت کو یاد کرنا چاہیے اور زیادہ سے زیادہ قبرستان کی زیارت کرنی چاہیے۔نبی اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:

فَـزُوْرُوا الْقُبُوْرَ فَإنَّھَا تُذَکِّرُ الْمَوْتَ(صحیح مسلم : ۹۷۶)

قبرستان جایا کرو یہ موت کو یاد دلاتی ہے۔ بعض صحیح روایات میں تُذَکِّرُ الْمَوْت کے بجائے تُذَکِّرُ الآخِرَۃَ ہے۔ (سنن الترمذی:۱۰۵۴) یعنی قبروں کی زیارت آخرت کی یاد دلاتی ہے۔
آخرت کی یاد انسان کو دنیا سے بے رغبت بنا دیتی ہے اور اسے الہ العالمین سے قریب کر دیتی ہے اور اس کے دلوں میں رب قدیر کا خوف پیدا کردیتی ہے۔
دنیا کی محبت اور اس کی لذتوں میں ہم اس قدر غرق ہو گئے ہیں کہ ہم نے موت کو بھلا دیا۔ کبھی سوچا ہی نہیں کہ مرنے کے بعد ہمیں اپنے کیے کا حساب و کتاب دینا ہے۔ ہماری خواہشات نے ہمارے ذہنوں پر اس قدر دبیز چادر ڈال دی ہے کہ ہم نے اپنے مقصد حیات کو بھلا دیا۔ ہم نے ان لوگوں سے کوئی عبرت نہیں لی جو ہمیں داغ مفارقت دے کر آخرت کی پہلی منزل میں ابدی نیند لے رہے ہیں۔یاد رکھو! قبر آخرت کی پہلی منزل ہے اگر یہ آسان ہوگئی تو بعد کی ساری منزلیں آسان ہوتی جائیں گی اور اگر یہ مشکل ہو گئی تو بعد کی منزلیں اور زیادہ کٹھن ہو جائیں گی۔ ہم ایسے پر خطر سفر سے کیوں غافل ہیں؟ اس کی طرف ہماری کوئی توجہ کیوں نہیں ہوتی ہے؟ موت کا تصور ہمیں کیوں نہیں جھنجھوڑتا اور ہمارے وجود کو لرزاں کر دیتا؟ موت کو یاد کرکے ہم خواب غفلت سے بیدار کیوں نہیں ہوتے؟
ہمیں دنیا میں اس طرح زندگی گزارنی چاہیے جس طرح مسافر گزارتا ہے جس کی زندگی کی صبح و شام کس جگہ ہو جائے اسے کوئی اتہ پتہ نہیں، اسی لیے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہا کرتے تھے:

إذا أمْسَیْتَ فَلَا تَنْتَظِرِ الصَّبَاحَ، وإذا أصْبَحْتَ فلا تَنْتَظِرِ الْمَسَائَ، وَخُذْ مِنْ صِحَّتِکَ لِمَرَضِکَ، وَمِنْ حَیَاتِکَ لِمَوْتِکَ(صحیح بخاری ۶۴۱۶)

جب شام ہوجائے تو صبح کا انتظار مت کرو اور جب صبح ہو جائے تو شام کا انتظار مت کرو۔ تندرستی کی حالت میں اتنا عمل کرلو کہ بیماری کی حالت میں بھی کافی ہو جائے اور اپنی حیات میں اس قدر نیکیاں کما لو کہ موت کے بعد بھی تمھارے لیے نفع بخش ہو جائیں۔
مسند احمد کی صحیح روایت میں ہے:

کُـنْ فِی الدُّنْیَا کَأنَّکَ غَـرِیْبٌ أو عَابِرُ سَبِیْلٍ، وَعُدَّ نَفْسَکَ مِنْ أھْلِ الْقُبُوْرِ (سلسلہ احادیث صحیحہ : ۱۱۵۷)

دنیا میں ایک اجنبی یا ایک مسافر کی طرح رہو اور اپنے آپ کو قبر والوں میں شمار کرو۔
ہم جہالت اور دنیا کی محبت کی وجہ سے موت کو بھول بیٹھے ہیں۔ ہمارے قلب و جگر میں اس کا تصور ہی قریب قریب ختم ہوگیا ہے جس کی وجہ سے پروردگار عالم کی مخالفت، اس کے احکام و اوامر سے اعراض ہمارا شیوہ اور بہترین مشغلہ بن گیا ہے۔ فجر کے وقت جب موذن حی علی الصلاۃ اور حی علی الفلاح کی ندا دیتا ہے تو ہم نرم اور گداز بستروں پر دراز رہتے ہیں۔ ہماری نیند نہیں کھلتی اور ترک صلاۃ کا ہمیں کوئی احساس نہیں ہوتا۔ جس دن اللہ جبار و قہار کا حقیقی خوف اور ترک صلاۃ پر پرسش کا احساس ہوجائے تو یقین مانیے کہ ہماری کیفیت ان شاء اللہ بالکل بدل جائے گی اور ہمارے شب و روز اللہ کی یاد میں گزرنے لگیں گے۔ مومنین کے اوصاف بیان کرتے ہوئے اللہ کا ارشاد ہے:

{تَتَجَافَی جُنُوبُہُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُونَ رَبَّہُمْ خَوْفاً وَطَمَعاً} (السجدۃ: ۱۶)

ان مومنین کے پہلو رات میں اپنے بستروں سے الگ تھلگ ہو تے ہیں۔اپنے رب کو خوف و طمع کے ملے جلے جذبات سے پکارتے ہیں۔
موت کے ساتھ سکراتِ موت کو بھی یاد کرنا چاہیے کیونکہ یہ لمحہ آسان نہیں ہوتا ہے، بلکہ انتہائی مشکل اور زندگی کا سب سے سخت لمحہ ہوتا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اکرم ﷺ کی وفات کے وقت آپ کے سامنے پانی سے بھرا ہوا ایک پیالہ رکھا ہوا تھا۔ آپ پانی میں اپنا ہاتھ داخل کرتے اور اپنے چہرہ انور پر پھیرتے ہوئے فرماتے:

لَا إلٰہَ إلا اللّٰہُ، إنَّ لِلْمَوْتِ سَکَـرَاتٌ (صحیح بخاری: ۴۴۴۹)

اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ یقیناً موت کی سختیاں ہیں۔ یہ حالت تھی رسول اللہ ﷺ کی حالانکہ آپ مخلوقات میں سب سے افضل اور انبیائے کرام میں اللہ کو سب سے زیادہ محبوب تھے۔ لہٰذا غور کیجیے موت کے وقت ہماری اور آپ کی کیا حالت اور کیفیت ہو گی؟ اگر سید البشر، خاتم الانبیاء، شافع محشر نبی رحمت ﷺ کو موت کی سختیوں کا احساس ہو رہا تھا تو کوئی اور انسان موت کی ان سختیوں سے کیونکر بچ سکتا ہے؟ نیک اور بد کی موت میں احادیث رسول میں فرق بیان کیا گیا ہے۔ نیک لوگوں کو موت کے وقت فرشتے سلامتی اور جنت کی عظیم بشارت دیتے ہیں جب کہ نافرمان لوگوں کو اللہ تعالی کی ناراضگی اور اس کے غضب کی سخت وعید سناتے ہیں، اسی لیے نبی اکرم ﷺ نے ہمیں موت کو بکثرت یاد کرنے کی تلقین کی ہے۔
اخیر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں موت کو ہمیشہ یاد رکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور موت کی سختیوں سے بچائے۔ آمین

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
1 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
Mohammad gufran

ماشاء اللہ
عمدہ تحریر 💐💐💐
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج ہماری تو کل تمہاری باری ہے…
لیکن افسوس کہ آج قبرستان بھی تفریح گاہ بن چکے ہیں…