عید الفطر: اتحاد واتفاق کا آئینہ دار

ڈاکٹر محمد اسلم مبارکپوری عبادات

عید الفطر کا دن اس اعتبار سے بے حد اہم ہے کہ آغاز اسلام سے آج تک عید منائی جارہی ہے۔عید کا دن اسلامی اجتماعیت اور اتحاد واتفاق کا آئینہ دار ہے۔ اتحاد واتفاق کی اہمیت کے پیش نظراسلام نے مختلف عبادات میں اجتماعیت کی روح کو بر قرار رکھا ہے۔ روزانہ پانچ وقت نماز ادا کرنے کے لیے مسلمان ایک مسجد میں جمع ہوتے ہیں۔ فرائض کی ادائیگی کے ساتھ ایک ہی وقت میں قیام ورکوع، سجدہ وسلام کے ذریعے اسلام یک جہتی اور ہم آہنگی کا تاثر دیتا ہے۔ اسی طرح جمعہ کا اجتماع روز مرہ کے اجتماع سے اور عید کا اجتماع جمعہ کے اجتماع سے بڑا ہوتا ہے۔ اس کے بعد حج کے اجتماع کی وسعت اور عظمت توعدیم المثال ہے۔
عید الفطر کے موقع پر تمام مسلمان عبادت کے لیے عید گاہ میں اکٹھا ہوتے ہیں۔ سب کی زبانوں پر تکبیر وتحمید، تسبیح وتہلیل کے ایک ہی کلمات جاری ہوتے ہیں۔ ا للہ کے حکم سے مہینہ بھر کے روزے رکھ کر اللہ کے بندے اس کی رحمت ومغفرت کی لو لگائے عید گاہ آتے ہیں۔ اس روح پرور سماں اور پر کیف منظر کو دیکھ کر ہر مسلمان دلی مسرت محسوس کرتا ہے۔ اور ارباب فکر یہ سوچتے ہیں کہ جس طرح مسلمان عید گاہ کے اس مقام پر یکجا ہیں اسی طرح زندگی کے ہر موڑ پر متحد ومتفق ہو جائیں تو ان کے مسائل بہ آسانی حل ہو سکتے ہیں۔ اور دوسروں کے سامنے اپنا وزن ثابت کر سکتے ہیں۔ زندگی کے میدان میں انقلاب وترقی اللہ تعالی کی سنت ہے۔ اس صورت حال کا ساتھ دینے اور اور مقابلہ کے میدان میں کامیابی حاصل کرنے کا دارومدار بھی اسی اتحاد واتفاق پر ہے۔ زندگی کے متنوع مسائل حل کرنے کے لیے ہمیں مذہب، سیاست، تعلیم اور اقتصادوغیرہ شعبوں میں متحد ہوکر پیہم کوشش کی ضرورت ہے۔ ورنہ نتیجہ خاطر خواہ نہ ہوگا۔ وحدت امت کا شعور مسلمانوں کو دنیا کے مختلف حصوں میں ان کے دینی بھائیوں کے ساتھ پیش آنے والے ظالمانہ برتاؤ پر بے قرار بنائے ہوئے ہے۔ دنیا والے اسے کوئی اور نام دے رہے ہیں لیکن دراصل یہ دینی اخوت ومحبت کا تقاضہ ہے۔ اور اسی طرح اسلام نے انسانی اخوت کا نظریہ بھی پیش کیا ہے جسے مسلم حکمرانوں اور عام لوگوں نے عملی شکل دی ہے۔
عید الفطر کا یہ موقع دونوں نوعیت کے رشتوں کو فروغ اور تقویت دینے کا متقاضی ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
إن ھذہ أمتکم أمۃ واحدۃ

رمضان المبارک کا یہ مقدس مہینہ عبادت وریاضت کا مہینہ ہے، حصول تقوی کا مہینہ ہے اور یہی عبادت کی غرض وغایت ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
یا أیھا الناس اعبدوا ربکم الذی خلقکم والذین من قبلکم لعلکم تتقون
(اے لوگو ! اپنے اس رب کی عبادت کرو جو تمھارا اور تم سے پہلے لوگوں کا خالق ہے تاکہ تم (عبادت کے ذریعہ) تقوی حاصل کرو)
معلوم ہوا کہ اسلامی عبادت کی اصل غرض وغایت حصول تقوی ہے، جس کے ذرائع نماز، روزہ، حج زکاۃ کے ساتھ ساتھ تقوی، اخلاص، توکل علی اللہ اور صبرو شکر بھی ہیں جن کا تعلق انسان کے قلب سے ہے۔ اور یہ وہ عبادات ہیں جو اسلام کی روح اور تمام اعمال کا جوہر ہیں۔
اس دن خوشی کا اظہار کرنا دینی شعار ہے۔ خوشیاں آتی اور گذر جاتی ہیں مگر سرور وانبساط کے اس ہجوم میں ہم سے مطالبہ ہے کہ اس پہلو پر بھی غورکرنے کی زحمت برداشت کریں کہ ہر دن کی طرح عید کا دن بھی گذر جاتا ہے، لیکن ہمارے مسائل ہمارے ساتھ رہتے ہیں۔ اور ان کو حل کرنے کی ذمہ داری ہمارے دوش ناتواں پر بر قرار رہتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ ہر نئی عید نئے مسائل اور نئے چیلنج لے کر آتی ہے۔ لہذا عید کے دن کا تقاضا یہ ہے کہ دلوں کی کدورتیں، نفرتیں بھلا کر بلا تفریق ہر کسی سے ملیں۔ اس دن آپسی رنجشوں اور اختلافات کو فراموش کرکے محبت واخوت اور بھائی چارگی کا پیغام عام کریں۔
عید کی مسرتوں کے سچے حق دار وہی لوگ ہیں جنھوں نے رمضان المبارک کا دل سے احترام کیا۔ اس کے دنوں کو روزوں، تلاوتوں، عبادتوں اور خیروخیرات سے معمور کیا۔ اور اس کی شبوں کو قیام اللیل، تراویح، ذکر واذکار اور دعا ومناجات میں صرف کیا۔ ماہ صیام کا قومی اور ملی فائدہ ہی ہے کہ صاحب توفیق مسلمانوں کے دل میں اپنی قوم کے مفلس اور محروم افراد کی عملی ہم دردی کا جذبہ پیدا ہو۔ اسی لیے صدقہ فطر کو مشروع قراردیا گیا ہے۔ صدقہ فطر کا مقصد یہ ہے کہ غریب، محتاج اور نادار بھی عید کی خوشی اور مسرت میں شریک ہوں، اور وہ بھی اپنے بال بچوں کے لیے کھانے کا انتظام کر لیں اور انھیں دردر کی خاک چھاننی نہ پڑے۔ گویا خوشی اور شادمانی کے اس مبارک دن کوئی غریب رشتہ دار یا پڑوسی بھوکا نہ رہے، اس لیے عید کی نماز سے پہلے صدقہ فطر ادا کرنے کا حکم ہے۔
اس سے ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ اسلام نے اخوت وہمدردی اور اتحاد وتعاون کے مسئلہ کو کتنی اہمیت دی ہے۔ انسداد گدا گری کی تحریک دنیا کے مختلف حصوں میں چلتی رہتی ہے لیکن اس لعنت کو جس طرح اسلام نے ختم کیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ ایک طرف دولت مند طبقہ کو مختلف مواقع میں دولت خرچ کرنے کی ترغیب دی تودوسری طرف غریبوں کو حکم ہے کہ حد درجہ مجبوری کے بغیر ہاتھ نہ پھیلائیں۔ ساتھ ہی جو لوگ فقر کے باوجود سوال نہیں کرتے ان کی تعریف کی گئی ہے۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمارے نیک اعمال اور روزوں کو قبول فرمائے اور اس ماہ مقدس میں جو تقصیر ہوئی ہے اسے عفو ودر گذر کرے اور ہمیں حسن عمل کی توفیق بخشے۔ صحت وتندرستی عطا کرے۔ آمین

آپ کے تبصرے

3000