خواتین، مسجد اور جمعہ

عطا رحمانی رام پوری

جمعے کے دن ہر مسلمان دین دار ہو جاتا ہے۔ گھر میں ٹی وی کا کیبل نکال دیا جاتا ہے اور ریڈیو بند رکھا جاتا ہے۔ ہمہ وقت مشغول رہنے والے بھی جمعے کی نماز کے لیے اپنے آپ کو فارغ کر لیتے ہیں۔ خواتین بھی گھروں میں قبل از وقت کھانا بنا کر فارغ ہو جاتی ہیں اور نہا دھو کر نماز پڑھتی ہیں اور کلامِ پاک کی تلاوت کرتی ہیں۔ جمعے کے دن کے احترام میں ہر مسلمان اپنی زبان کو بھی بد کلامی سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ وہ کام ہیں جو دوسرے دنوں میں نہیں ہوتے۔ مختصراً یوں کہہ لیں کہ جمعے کے دن مسلم سماج میں خود بہ خود وہ روحانی ماحول قائم ہو جاتا ہے جو دوسرے دنوں میں نہیں ہوتا۔
ایسے ماحول میں اگر آپ کسی شخص کو دین کی بات بتائیں اور اسے بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں تو یقیناً دوسرے دنوں کے مقابلے اس کی تاثیر زیادہ ہوگی۔ اسی لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے جمعے کا خطبہ مشروع فرمایا ہے اور خطبے کے دوران کلام کی ممانعت کر کے اس کو عام خطبوں سے اونچی حیثیت بھی دی ہے، وہ حیثیت جو عیدین کے خطبوں کو بھی حاصل نہیں۔ یہ ایک مشروع طریقہ ہے مسلمانوں کی تعلیم و تذکیر اور ان کی دینی تربیت کا۔ مگر افسوس کہ ہمارے ملک کی تقریباً آدھی مسلم آبادی اللہ کے گھر کی اس برمحل، آسان اور مفت تعلیم و تذکیر اور تربیت سے محروم ہے۔ اور یہ آدھی آبادی بھی وہ ہے جس کا نسلِ نو کی تربیت میں بڑا کردار ہوتا ہے۔ جی ہاں، آپ صحیح سمجھے، میری مراد مسلم خواتین سے ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: اللہ کی بندیوں کو مسجد جانے سے نہ روکو۔ (صحیح بخاری :900، صحیح مسلم :442) کیا ہم آپ کے اس فرمان پر عمل کرتے ہوئے خواتین کے لیے کم از کم جمعے کے دن مسجد کے دروازے کھول نہیں سکتے؟ ویسے بھی پورے ہفتے تو وہ آنے سے رہیں کہ گھریلو کام کاج اور ذمہ داریاں شاید ہی اس کی اجازت دیں۔ لیکن میں صرف جمعے کے دن کا سوال کرتا ہوں۔ کم از کم جمعے کے دن تو اللہ واسطے مسجدوں میں خواتین کا انتظام کیجیے۔
ٹھیک ہے آج کے لوگوں کا ایمان کم زور ہے، اس لیے فتنے کے خدشات بھی زیادہ ہیں۔ لیکن یہ فتنے تو پوری زندگی کو گھیرے ہوئے ہیں۔ اور سچ تو یہ ہے کہ آج کل عورت اپنے گھر میں بھی فتنوں سے محفوظ نہیں ہے۔ آخر وہ کون سی بلا ہے جو موبائل کے ذریعے سے گھروں میں نہ گھس آئی ہو؟ جب کہ اللہ کا گھر تو پھر بھی اللہ کا گھر ہوتا ہے۔ ہر مومن کے دل میں اس کی عزت اور تعظیم ہوتی ہے۔ کیا آپ توقع رکھتے ہیں کہ ہماری خواتین وضو کر کے، تقوے کی چادر اوڑھ کر اور اللہ کا نام لے کر جب گھر سے نکلیں گی تو وہ راستے میں یا مسجد کے اندر کسی فتنے میں پڑ جائیں گی اور وہ بھی اس وقت جب کہ وہ اپنے بھائی، بیٹوں اور شوہروں کے ساتھ مسجد جائیں اور مسجد میں بھی اختلاطِ مرد و زن تو در کنار ایک دوسرے کو دیکھنے کا موقع نہ ہو۔ یعنی خواتین اور مردوں کے بیچ کوئی حائل ہو اور دونوں کے لیے مسجد کے دروازے بھی الگ ہوں؟
اگر ہم خواتین کو مسجد نہیں بھیجیں گے اور وہ مسجد جا کر قرآن و حدیث کی تعلیمات نہیں حاصل کریں گی تو ان کے اندر فتنوں سے لڑنے کی شکتی کہاں سے پیدا ہوگی؟ اور کہاں سے ان کے اندر بچوں کی صالح تربیت کا جذبہ آئے گا؟ اور سب سے بڑی بات توحید و شرک کی سمجھ اگر ان کے اندر مسجدوں سے نہیں آئے گی تو کیا مزاروں سے آئے گی؟ ویسے بھی بہت سی خواتین مسجد کا دروازہ بند ہونے کے سبب جمعے کے دن مزاروں اور قبروں کا رخ کرتی ہی ہیں۔

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
عبدالرحمن

بجا فرمایا