رمضان کا مقدس مہینہ عبادت اور خیر و بھلائی کے کاموں کے لیے انسان کے اندر ایک نئی روح پھونک دیتا ہے، مسجدوں کی رونق لوٹ آتی ہے، تلاوت قرآن کریم، صدقہ و خیرات، ہمدردی و غم گساری کی ایک لہر معاشرے میں دیکھنے کو ملتی ہے، اور ہر مسلمان کی اولین کوشش ہوتی ہے کہ یہ مبارک ایام اس کے لیے زیادہ سے زیادہ خیر و برکت والے ثابت ہوں، اور حتی الوسع اس سے اپنے نامہ اعمال کو بہتر بنایا جاسکے، اس سعی محمود میں بلا تخصیص ہر چھوٹا بڑا، مرد و عورت سب شامل ہوتے ہیں۔
گھر کی ملکہ اور امور خانہ داری کی ذمہ دار ہونے کے ناطے عورت کے لیے رمضان کا یہ مہینہ ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے کہ کس طرح روزمرہ کے کاموں کی انجام دہی سے فراغت پاکر وہ اس مہینے کی برکات سے فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ بد قسمتی سے چونکہ رمضان کا تصور ہمارے یہاں بھوک پیاس کے مہینے کی بہ نسبت انواع و اقسام کے کھانوں و مرغن غذاؤں سے لطف اندوز ہونے کے مہینے کا ہے۔ لہٰذا یہ بقیہ ایام کے بالمقابل عورت کے وقت کو اور زیادہ مصروف کردیتا ہے، اور اندھیرے منہ صبح اٹھنے والی عورت سحری کے انتظام میں مشغول ہوتی ہے تو دوسری طرف دوپہر ہی سے اسے افطاری اور رات کے کھانے کا انتظام کرنا ہوتا ہے، اور اس میں بھی ایک نوع کے کھانے پر قناعت کرنا رمضان کے منافی شمار کیا جاتا ہے۔ شرعی تعلیمات کی روشنی میں دیکھیں تو یہ دونوں اوقات عبادت و دعا کے خصوصی اوقات میں شمار کیے جاتے ہیں، مگر خاتون خانہ کی مصروفیات ان سے محرومی کا سبب بنتی ہیں۔ پس ضروری ہے کہ اس ماہ کی عظمت اور اس کے تقدس کو سمجھتے ہوئے ایسا لائحہ عمل ترتیب دیا جائے کہ دیگر لوگوں کی طرح عورت بھی رمضان مبارک سے اپنا قابل قدر حظ وصول کرسکے۔
عبادت و ریاضت کے معاملے میں خواتین کے لیے سب اچھا اسوہ نبی اکرم ﷺ کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن ہیں، رمضان میں ان کے معمولات کیا تھے اس بارے میں صحیح بخاری و صحیح مسلم کی ایک حدیث میں ذکر ہے کہ رسول اکرم ﷺ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کیا کرتے تھے، آپ کی وفات کے بعد آپ کی بیویاں اعتکاف کیا کرتی تھیں۔ ایک دوسری حدیث کے اندر وارد ہے کہ رمضان کے آخری عشرے میں نبی اکرم ﷺ خود شب بیداری کرتے اور اپنی ازواج کو بھی بیدار فرماتے اور خوب عبادت کرتے۔
عہد نبوی ﷺ کی خواتین کا ذوق عبادت اور شوق علم کس قدر زیادہ تھا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک بار عورتیں حضور اکرم ﷺ کے پاس آئیں اور کہنے لگیں کہ مرد حضرات نے آپ کے پاس (دینی تعلیم حاصل کرنے میں) ہم پر غلبہ پالیا ہے، پس ہمارے لیے بھی ایک دن مقرر فرمادیجیے جس میں ہم آپ سے تعلیم دین حاصل کریں، پس رسول اللہ ﷺ نے ایک دن ان کے لیے خاص کردیا جس میں وہ آپ کے پاس آکر دین سیکھتیں۔
رمضان کے معمولات میں تراویح کی نماز خصوصی حیثیت رکھتی ہے، عام دنوں میں تہجد کی نماز پڑھنے کی توفیق بہت کم لوگوں کو ملتی ہے، مگر رمضان کے مہینہ میں یہ عبادت اجتماعی طور پر مسجد میں رات کے ابتدائی حصے میں ہی ادا کرلی جاتی ہے، یہ ایک بہترین سہولت ہے جس سے خواتین کو بھی فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اب مساجد کے اندر ان کے لیے الگ سے نماز کا انتظام ہونا شروع ہوگیا ہے، جو اجر ووثواب کے حصول کے لیے ایک بہترین پیش قدمی ہے۔ نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے کہ امام کے ساتھ جو شخص رات کی نماز سے فارغ ہوگا اس کے لیے پوری رات نماز پڑھنے کا ثواب لکھا جائے گا۔ (صحیح -ترمذی)
عورتوں کو ہر ماہ کچھ عذر لاحق ہوتے ہیں جن میں نماز پڑھنا اور روزے رکھنا ممنوع ہوتا ہے، یہ فطرت کا ایک قانون ہے جس میں محرومی کی کوئی بات نہیں ہے، کیونکہ ہمارے دین کے اندر عبادات صرف نماز روزے تک محدود نہیں ہیں، مزید یہ کہ حالت سفر یا مرض میں عبادت گزار کو (عبادت نہ کرنے کے باوجود) اس کا اجر و ثواب برابر ملتا رہتا ہے۔ پس جہاں ایک طرف اجر و ثواب میں کوئی کمی نہیں ہوتی وہیں دوسری طرف دیگر عبادتیں کرنے کا موقع خواتین کو نصیب ہوتا ہے۔ وہ ان ایام میں دعا، ذکر واذکار، صدقہ وخیرات، صلہ رحمی، دینی کتابوں کے مطالعہ وغیرہ کے ذریعہ اپنے دامن کو کثیر اجر و ثواب سے بھر سکتی ہیں۔
ان تمام تر شرعی سہولیات کے باوجود عموماً رمضان کا مہینہ جب اختتام پذیر ہوتا ہے اور عید کی خوش خبری عورت کو ملتی ہے تو اس کے اندر خوشی و فرحت اور رنج و غم کا ملا جلا تاثر ہوتا ہے، ایک طرف ماہ مبارک کے اندر کما حقہ عبادات نہ کرنے کا افسوس ہوتا ہے تو دوسر ی طرف عید کی خوشیاں بہت حد تک اس غم کو فراموش کرنے میں مددگار ہوتی ہیں۔
اللہ رب العزت ماہ مبارک سے سب کو بھلائیاں سمیٹنے کی توفیق بخشے۔ آمین


آپ کے تبصرے