وہ سوز کیا جو صورتِ چاک ِ جگر نہ ہو

سلمان ملک فائز بلرامپوری شعروسخن

وہ سوز کیا جو صورتِ چاک ِ جگر نہ ہو

وہ رنج کیا جو باعث ِ رنج ِ دگر نہ ہو


یہ عارض اور جسم ونظر ،گیسوئے دراز

یارب یہ جلوہ گاہ ِ فریبِ نظر نہ ہو


ہم اہلِ دل نگاہ جھکائے چلے گئے

جیسے وہ رہ گزار ترا رہ گزر نہ ہو


اب تیرے بعد پھرنہ ہو پیماں شکن کوئی

اب تیرے بعد اور کوئی معتبر نہ ہو


سنتےہیں راز کھل گئی زاہد کے زعم کی

سواب کےبعد شہرمیں پھررقص ِشرنہ ہو


پیغام وصل ِ یار بھی ہو تیرا خط بھی ہو

اور سوچتا ہوں تو ہو ترا نامہ بر نہ ہو


اس دور بر ہنگی میں بھی لازم ہے پیرہن

بے پیرہن تو آج بھی فکر و نظر نہ ہو


اس راہِ زندگی سے ملے مستقل پناہ

جس زندگی کی راہ میں کوئی شجر نہ ہو


وہ آئینہ نہیں ہے جو پتھر سے خوف کھائے

وہ آئینہ ہے جس کو کوئی خوف و ڈرنہ ہو


میں کب سے دیکھتا ہوں تماشائےزندگی

میں کب سےسوچتا ہوں مری آنکھ ترنہ ہو


تنہائیوں کا خوف ستاتا ہے راہ بھر

جب تک کہ سنگِ راہ مرا ہم سفر نہ ہو


اے زندگی یہیں پہ ٹھہر جا تو خیر ہو

شائد کہ اس کے بعد کوئی مستقر نہ ہو


کب سے ہے آرزوئے دل بے قرار کہ

شانوں زلف ِیار رہے اور سحر نہ ہو


فائز ترے جنوں پہ رہے سب جنوں تمام

اب تیرے بعد پھر کوئی آشفتہ سر نہ ہو

آپ کے تبصرے

3000