حصارِ جاں کو پھاند کر حریمِ ذات توڑ کر
چلوکہ طوق گردنوں میں پاوں میں ہزاردام
چلو کہ ان تماش بیں سے آرزو فضول ہے
چلو کہ سنگِ راہ کی ہر اک خلش قبول ہے
چلو کہ اپنی منزلوں کے راہ گر عیاں نہیں
چلوکہ اپناسوزوغم کسی سےبھی نہاں نہیں
چلو کہ پائے جستجو ابھی تلک کٹے نہیں
چلو کہ اپنے حوصلے لٹے تو ہیں مٹے نہیں
چلوکہ میکدوں کواپنی حالتوں پہ چھوڑ دو
چلو کہ اپنے کاسہء سبو ہے کو آج توڑ دو
چلو کہ موسم ِ قفس اداس ہیں حزین ہیں
چلو کہ رسن و دار کے ہمیں تو اک امین ہیں
چلو کہ ایک آہ ہے متاعِ رہ بلب ابھی
چلو کہ اک چراغِ ہے حریفِ راہِ شب ابھی
چلو کہ صبحِ حریت ابھی نہیں تو پھر نہیں
چلو کہ سازِ خیریت ابھی نہیں تو پھر نہیں
چلو کہ نازنین ِ ہند وقت کی پکار ہے
تمہیں پہ اعتماد ہے تمہیں پہ اعتمار ہے
آپ کے تبصرے