نو جوان قوموں کے لیے بنیادی سرمایہ ہوا کر تے ہیں ،کسی بھی قوم کی تعمیر و ترقی میں نوجوان سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ،دینا کی کو ئی بھی قوم ہو ،اسے اپنے نوجوانوں سے بڑی امیدیں ہوا کر تی ہیں کیونکہ یہ نو جوان قوم کے مستقبل ہیں، کہا جاتا ہے کہ اگر کسی بھی قوم کے مستقبل کو جا ننا ہو تو اس قوم کے نوجوانوں کو دیکھ لو ،جی ہا ں تاریخ بھی کہتی ہے اگر کسی قوم نے کبھی انقلاب کی دنیا میں قدم رکھا ہے ،کبھی عروج و ارتقاء کے منازل طے کیے ہیں ،کامیابی و کامرانی ان کے ماتھے کی جھو مر بنی ہے، اس قوم کے درمیان سے فتنوں کو جڑ سے ختم کیا گیا ہے، غلط رسم و رواج کی بیڑیوں میں جکڑی انسانیت کو رہائی ملی ہے تو اس میں کلیدی کردارنوجوانوں ہی کا رہا ہے ،اسی طرح اگر کوئی قوم ترقی سے تنزلی کا شکار ہوئی ہے ،کا میابی سے اسے ہاتھ دھونا پڑا ہے ،نا کامیابی و محرومی اس قوم کے گلے لگی ہے تو اس میں بھی نو جوانوں ہی کا دخل ہے ،اسی وجہ سے دنیا کی ترقی یافتہ قوموں نے نو جوانوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے ،ان کی آرزؤں ،تمناؤں ،احساسات کا پورا پورا لحاظ رکھا ہے ،ان کے لیے اعلی تعلیم کا بندوبست کیا ہے ،ان کے لیے صاف ،پاکیزہ،تہذیب و تمدن والے معاشرے کا انتخاب کیا ہے ،دنیا کی رنگینیوں ، ظاہری چمک و دمک سے مر عوب ہونے سے انھیں باز رکھنے کی پوری جد و جہد کی ہے ،ان کے لیے ہر طرح کی قربانیاں دی ہے ،پر افسوس آج ہمارے نو جوان دن بدن بے راہ روی کا شکا ر ہوتے جا رہے ہیں ،موجو دہ دور کے طرح طرح کے فتنوں کی زد میں آکر کے وہ اسلامی تعلیما ت سے رو گر دانی کر تے ہو ئے مغربی تہذیب و تمدن کو اپنی کا میابی کا اصل بنیاد تصور کر تے ہیں،انہی کے نقس قدم اور شانہ بشانہ چلنے میں اپنی کا میابی سمجھتے ہیں،ان کی بی حیائی اور بے شرمی والے سمندری موجوں کی زد میں ہما را یہ نوجوان طبقہ جہاں ایک طرف اپنی زندگی تباہ کر رہا ہے وہیں دوسری طرف قوم بھی تبا ہی و بر بادی کے عمیق غار میں گر تی چلی جا رہی ہے ،اور با ت صرف اتنی ہی نہیں ہے بلکہ آج ہمارا نوجوان طبقہ دنیا میں موجود دین کے نام باطل تنظیموں اور تحریکوں کے دل فریب اور کھوکھلے نعروں سے مر عوب ہو کر کے اپنی کم علمی اور دین سے جہا لت کی بنیا د پر دنیا کے ساتھ آخرت کو بھی تبا ہ و برباد کر تے جا رہا ہے ،آئے دن اس طرح کے واقعات نو جوانوں کے تعلق سے سننے کو ملتے ہیں ،اسی طرح ہما رے نو جواں کی بے راہ روی غلط چیزوں کے استعما ل کر نے میں بھی ہے ،آج ہما را یہ نو جوان طبقہ ہر نشہ آور چیز کو اپنے لیے با عث راحت و سکون سمجھتا ہے ،آج اگر غور کیا جا ئے تو ملت اسلامیہ کے اس قدر تنزلی کے شکا ر ہونے کے اسباب میں سے ایک بنیادی اور اہم سبب نو جوانوں کا راہ راست سے ہٹنا بھی ہے،اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو نا بھی ہے ،کسی کا کہنا تھا کہ اگر کسی قوم کو بغیر جنگ کے شکست دینا ہو تو اس قوم کے نوجوانوں کے درمیان بے حیائی پھیلا دو ،اسی طرح تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ کل جب یہی نو جوان راہ راست پر تھے تو تا ریخ کے صٖفحات پر یہ خالد بن ولید ،عبیدہ بن جراح ،سعد بن ابی و قاص ،علی بن ابی طالب ،عمر فاروق ، مصعب بن عمیر ، صلا ح الدین ایوبی ،سلطان ٹیپو ،محمد بن قاسم کی شکل میں نمو دا ر ہوئے ،اور وہ کا رہائے نما یا ں انجا م دیے کہ تا ریخ بے بس و لاچا ر ہے ،آخر وہ عمر ہی تو تھے کہ جن کے سا منے اپنے وقت کی سپر پا ور طا قتیں ان سے سہمی رہا کر تی تھیں ،دنیا کے ایک بڑے حصے پر انھوں نے اسلام کا پرچم لہرا یا ،اسلا م کی سربلندی کے لیے انھوں نے اپنا سب کچھ اللہ اور اس کے رسول کی راہ میں لٹا دیا ،اسی طرح آپ دیگر صحابہ کرام کو بھی دیکھ سکتے ہیں ،لہذا آج ضرورت اس با ت کی ہے کہ ہم اپنے اس روشن ماضی کے سائے تلے جی کر پھر سے اپنے مستقبل کو ایک تا بناک مستقبل کی شکل دینے کی کو شش کریں ،اور اس سلسلے میں ہمیں سب سے پہلے نو جوانوں کو راہ راست پر لا نا ہو گا ،ان کے لیے صاف ستھرے ما حول کا انتظام کرنا ہوگا ،ان کے درمیان سے پھیلی غلط چیزوں کا خاتمہ کر نا ہو گا ،تو آئیے جا نتے ہیں کہ نو جو انوں کی بے راہ روی کے کیا کیا اسباب ہیں ؟
انٹرنٹ کا غلط استعمال:
آج نوجو انوں کی ایک بڑی تعداد انٹر نٹ کا استعمال کر تی ہے اور وہ بھی صحیح کے مقابل غلط کاموں میں زیادہ،نٹ پر ان مخصوص ویب سائٹوں سے اپنے جذبات کی آگ کو بجھا تے ہیں ، جن ویب سائٹوں میں بے شرمی اور بے حیائی کی ساری حدیں ختم ہو جا تی ہیں ،نیم عریا ں خواتین اور ان سے منسلک اعمال ،اللہ بچا ئے ،معاملہ یہاں تک پہنچ چکا ہے کہ آج ہمارے یہ نوجوان اپنے دینی مسائل میں گوگل کو اپنا رہنما بناتے ہیں ، کوئی بھی مسئلہ ہو ، ہما رے یہ نوجو ان اس سے ہی حل کر تے ہیں ،اس سلسلے میں والدین بھی مجرم ہیں کیونکہ وہ بچپن سے ہی بچوں کی تعلیم کے لیے ایسی جگہوں کا انتخاب کرتے ہیں جہاں دینیات کی ایک اچھی کتاب نہیں ہو تی ہے،جو آگے چل کر ان کی گمراہی کا سبب بنتا ہے .
فلمی دنیا کے افراد کو اپنا آئیڈیل اور اسوہ بنانا:
آج سماج کو فلمی دنیا سے بھی کافی نْقصان پہنچا ہے ،جو کچھ نو جوان انجام دیتا ہے ،جو بھی اسٹائل اور فیشن اپنے لیے پسند کرتا ہے ، اس میں سب فلمی دنیا کے ہی عمو ماً ہواکر تے ہیں ،بال عجیب عجیب طرح کے رکھنا ،ہاتھ میں کڑا پہننا ،کا نوں میں بالی پہننا ،چست سے چست لباس زیب تن کر نا ، یہ سب اسی دنیا کی آوارگی ہے ، جسے ہمارا نو جوان اپنا کر کے اپنی اور اپنی قوم کی عزت کو داؤ پر لگا رہا ہے.
اپنے اسلا ف کی زندگیوں سے ناواقفیت:
یقیناًاپنے اسلاف کی سوانح حیات پڑھنے سے زندگی کے اندر تبدیلی آتی ہے ،زندگی میں تواضع و خاکساری پیدا ہوتی ہے.
آپ کے تبصرے