اہل حدیث اور سیاست: ایک تعارف

آفاق منظر سنابلی

 

علامہ نذیر احمد رحمانی رحمہ اللہ کی کتاب “اہل حدیث اور سیاست” نے بر صغیر میں تاریخ نویسی کے بجائے “تاریخ سازی” کرنےوالے غیر منصف مصنفین کا پردہ چاک کرکے رکھ دیا۔(علامہ عبد الحمید رحمانی رحمہ اللہ۔مجموعہ مقالات ۔ج 2 ص 156)
میرا یہ تعارفی مضمون چار نقاط پر مشتمل ہے:۔
1) مصنف رحمہ اللہ کی مختصر سوانح حیات

2) مصنف کی سوانح حیات جن جن کتابوں میں درج ہے ان کے نام

3) کتاب کا تعارف

4) کتاب جس موضوع پر ہے اس موضوع سے متعلق کتابوں کے نام۔

نام کتاب: اہل حدیث اور سیاست
مصنف: علامہ نذیراحمدرحمانی رحمہ اللہ
ناشر : دارالترجمہ والتالیف جامعہ سلفیہ بنارس
صفحات: 480
بقلم: آفاق منظر سنابلی، نئی دہلی

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
جامع المعقول والمنقول علامہ نذیر احمد رحمانی رحمہ اللہ کی شخصیت اہل علم کے یہاں محتاج تعارف نہیں ہے۔ بالخصوص ان لوگوں کے یہاں جن کو جماعت اہل حدیث ہند کی تاریخ سے ذرا سا بھی لگا‎‏‎ؤ ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کی خدمات کا دا‎‏ئرہ تقریبا 35 سال سے زائد پر محیط ہے {جس میں درس و تدریس تنظیم و تنسیق تصنیف و تالیف،مجلہ کی ادارت، دینی و سیاسی پروگراموں میں شرکت اوران جیسے اہم امور شامل ہیں }طوالت کے خوف سے بڑے ہی اختصار کے ساتھ ان کا تعارف پیش خدمت ہے.
میری کتاب زیست کا ہر اک ورق گلاب ہے
زبان عطر بیزسے عدو کو بھی جواب ہے
آپ کی ولادت 6/فروری 1906ء کو ضلع اعظم گڑھ کے شہر املو میں ہوئی ۔ابتدائی تعلیم آپ نےمبارکپورمیں حاصل کی۔اس کے بعد مدرسہ الاصلاح سرائے میر پھر مدرسہ فیض عام مئومیں ۔
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
1339/ھ مطابق 1921ء میں دارالحدیث رحمانیہ دہلی کے قیام کا اعلان ہوا۔اسی سال آپ نے وہاں جاکراعلی تعلیم کے لیے داخلہ لیا۔اور 1346ھ /1928ءمیں سند فراغت حاصل کی ۔گویا آپ سات سال تک وہاں کے اساطین علم و فن سے اپنی علمی پیاس بجھاتے رہے۔ اساتذہ میں مولانا احمداللہ پرتاب گڑھی ،مولاناعبد الوہاب آروی اور جامع المعقول و المنقول مولانا غلام یحی صاحب پنجابی کانپوری،مفسر قرآن مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی رحمہم اللہ جیسی عبقری اور بزرگ ہستیاں شامل ہیں۔
آپ جامعہ رحمانیہ میں ہمیشہ اول آتے تھے جس سال آپ نے وہاں سے تکمیل کی ہے آپ کو بخاری شریف کامل کے علاوہ مبلغ چالس روپیہ نقد اور ایک جیبی گھڑی بطور انعام کے ملی تھی ۔
نگاہیں کاملوں پر پڑہی جاتی ہیں زمانے کی
کہیں چھپتاہے اکبرؔ پھول پتوں میں نہاں ہو کر
طالب علمی ہی کے زمانے میں آپ کی خداداد ذہانت و فطانت، علوم دینیہ میں فہم وفراست اورشرافت و نجابت نے وہاں کے ذمہ داران اوراساتذہ کرام کو متاثر کرکے رکھ دیا تھا ۔چنانچہ فراغت کے بعد ہی وہاں کے ذمہ داران نے آپ کو بطور مدرس رکھ لیا اور آپ کے زیر درس معقولات و منقولات دونوں طرح کی کتابیں رکھی گئیں،آپ کوعلم ریاضی اور معقولات سے حد درجہ لگا‎ؤ تھا ۔آپ کے اسی لگاؤ کو دیکھ کر وہاں کے ذمہ داران نے آپ کو رامپور بھیج دیا۔تاکہ مزید اس میں نکھار آسکے ۔آپ نے یہاں ایک سال میں کافی مہارت حاصل کرلی اس کے بعد واپس آکردارالحدیث رحمانیہ دہلی میں درس و تدریس میں مصروف ہوگئے۔دوسال کے بعد مجلہ”محدث” کی ادارت بھی آپ ہی کو سنبھالنی پڑی ۔ مہتمم شیخ عطاء الرحمان کی وفات کے بعد مزید آپ کی ذمہ داریاں بڑھ گئیں جسے آپ نے پوری ذمہ داری کے ساتھ بحسن وخوبی ادا کیا۔1947ء کے انقلاب تک آپ اس عظیم درسگاہ سے وابستہ رہے۔ رحمانیہ کی 27 سالہ زندگی میں سے اگر سات سال آپ کی طالب علمی کے نکال لیے جائیں تو بھی 20 سال تک آپ اس عظیم ادارے سے منسلک رہے اور علوم و فنون کے دریا بہاتے رہے۔ آپ نےاپنے بے مثال طریقہ درس اور انوکھی تربیت سے کمزور سے کمزور طالب علم کوبھی کندن بنادیا۔ ذہن و دماغ کو صیقل اورحسن اخلاق کا پیکر بنادیا۔ غرض یہ کہ گہوارہ علم و فن میں تربیت دے کرہر کسی کو لعل درخشاں بنادیا۔
ایک پتھر کی بھی تقدیر سنور سکتی ہے
شرط یہ ہے کہ سلیقے سے تراشا جائے
چناچہ جو بھی آپ کے زیرتربیت رہا وہ اپنے ہم عصروں میں فائق و برتررہا۔ ان میں سے ہر ایک اپنے وقت کا اسلام کا سچا خادم بنا۔نازک سے نازک حالات میں بھی سفینہ اسلام کی ناخدائی سے بازنہ رہا۔ مختلف میادن میں انھوں نے اسلام کی بے پناہ خدمات انجام دیں ۔ مفکر ملت مولانا عبد الجلیل رحمانی، خطیب الاسلام مولاناعبد الرؤف جھنڈا نگری، مولانا عبد الحمید رحمانی، مولانا عبد السلام رحمانی، مولانا عبدالحکیم مجاز اعظمی رحمانی رحمہم اللہ،دکتور وصی اللہ عباس حفظہ اللہ وغیرہم آپ ہی کے تربیت یافتہ ہیں۔ان کےعلاوہ بھی آپ کے شاگردوں کا نہ ختم ہونے والا ایک سلسلہ ہے۔
آپ کی بے باکی اور دینی غیرت و حمیت کا اندازہ آپ کی تصنیف کردہ کتابوں سے لگایا جاسکتا ہے ۔ایک واقعہ میں یہاں ذکرکرتا ہوں جو مجموعہ مقالات مولانا عبد الحمید رحمانی میں درج ہے ۔(ج 2ص 309)
“مولانا حفظ الرحمان سیوہاروی کی وفات پر ٹاؤن ہال بنارس میں تعزیتی اجلاس ہوا جمعیة علماء بنارس کے صدر مولوی عبد الجباررحمہ اللہ نے علماء ہند کی شان میں مبالغہ کرتے ہو‎ۓ تحریک آزادئ ہند کی کامیابی کا مکمل سہرا جمعیة العلماء کے سر باندھ دیا تو استاذ محترم علامہ نذیر احمد رحمانی رحمہ اللہ اسے برداشت نہ کر سکے اور وہیں حقا‎ئق کی روشنی میں ان کی مدلل تردید فرمادی اور علامہ عبد المتین بنارسی نے اپنی تقریر میں بڑی خوبصورتی سے اس تاریخی غلط بیانی کے خلاف احتجاج کیا اور مولانا عبد المجید حریری نے علامہ نذیر احمد رحمانی کو ان کی تقریر پر مبارکباد دی”یہ توایک واقعہ ہے زندگی میں جب بھی اظہار حق کا موقع ملا تو برملا آپ نے اس کا اعلان کیا۔
1947ء کے حادثہ عظیم نے جہاں دلوں کو زخمی، ذہنوں کو منتشر, علماء کو متفرق بچوں کو یتیم ، عورتوں کو بیوہ کرکے رکھ دیا وہیں پربرصغیر کےاس عظیم الشان ادارے کو بھی ظالموں نے اپنے ظلم کا شکار بنا لیا ۔ جب دار الحدیث رحمانیہ خود ظالموں کے ظلم کا شکار ہوکر اپنا وجود برقرار نہ رکھ سکا تو آخر وہ طالبان علوم نبویہ اوراپنے پاسبانوں کو کیسے پناہ دیتا ۔اور انھیں اپنے چشمہ صافی سے کیسے سیراب کرتا۔
شجر تھا میں، میری ٹہنیاں کٹ رہی تھیں
میں پرندوں کے گھونسلے بچاتا کیسے
اس کے بعددہلی ہی میں آپ کو قید و بند کی صعوبتیں جھیلنی پڑیں جو ایک درد بھری داستان ہے۔
ٹپکا شمع آنسوبن کےپروانےکی آنکھوں سے
سراپا درد ہوں حسرت بھری ہے داستاں میری
1947ء میں مختلف ابتلا وآزمائش سے درچار ہونےکے بعد آپ گھر آئے اور تقریباً ایک سال تک علم سے رشتہ منقطع رہا ۔1948ء میں ڈاکٹر سید محمد فرید مرحوم کی خواہش پر آپ مدرسہ احمدیہ سلفیہ بہار میں درس و تدریس میں مصروف ہوگئے اور1949 ء تک رہے ۔پھر 1950ء میں جامعہ رحمانیہ بنارس چلے آئے اور زندگی کی آخری سانس تک اپنے پرانے تجربات کی روشنی میں اسے بھی اپنے وقت کاایک مضبوط علم دین کاقلعہ بنادیا۔لیکن یہاں پر بھی آپ کودشمنوں کے غلط الزام کی بنیاد پرایک لمبے عرصے تک ابتلا و آزمائش سے درچار ہونا پڑا۔بہر حال ذہنی ،جسمانی اورمالی، تینوں آزمائشوں نے آپ کی شخصیت کو نکھار کر کےرکھ دیا۔آخری عمر میں کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہوگئے ۔علاج و معالجہ کے بعد بھی کچھ فائدہ نہ ہوا۔
الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا
آخر وقت موعود آ پہنچا اور30 مئی 1965ءکوعلوم ومعارف کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا یہ سمندر خشک ہوگیا جس کے دامن میں چمکدار موتیوں کی ایک دنیا آباد تھی۔
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں

آپ کی تصانیف:

(1) انوارالمصابیح بجواب رکعات تراویح

2)  رد عقائد بدعیہ(جلد اول)

3) اہل حدیث اور سیاست

4) چمن اسلام 4 جلد

5) جواب تنقید

6) مزید مؤلف کے بارے میں جانکاری کے لیے درج ذیل کتابوں کی طرف رجوع کریں۔(1)
1-چالس علماء اہل حدیث ،تصنیف عبد الرشید عراقی ،نعمانی کتب خانہ اردو بازار لاہور،ص 305 تا 309 )
2-چمنستان حدیث ،حافظ اسحاق بھٹی رحمہ اللہ ۔مکتبہ قدوسیہ ص 265 تا 293
3- نوافل کی جماعت کے ساتھ فرض نماز کا حکم ،ص8 تا 50
4-تذکرۃ النبلاء فی تراجم العلماء،عبد الرشید عراقی،ص 287تا289
5-اہل حدیث اور سیاست ،ص 11 تا 43
6-تراجم علماء اہل حدیث ہند ،ابو یحییٰ امام خان نوشہروی
-7مجموعہ مقالات مولانا عبد الحمید رحمانی،ج 2 ص 309،350تا 354،382تا 384،420تا 426،ج 3،ص 261اتا 268)
8- تاریخ و تعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی، ص 188تا193مصنف . شیخ اسعد اعظمی حفظہ اللہ۔
9-1965ء کے مجلات

زیر نظر کتاب ’’ اہل حدیث اور سیاست ‘‘اپنے زمانہ کی متنوع خوبیوں کی حامل شخصیت علامہ نذیراحمد رحمانی رحمہ اللہ کی تصنیف ہے جوان کے ان مضامین کا مجموعہ ہے جسےانھوں نے جماعت اہل حدیث پر لگائے جانے والے جھوٹے الزامات (2)کے رد میں’’اہل حدیث اور سیاست‘‘ کےعنوان سے مسلسل کئی قسط میں تحریرکیا تھاپھران مضامین کے تئیں اہل علم اوراصحاب ذوق حضرات نے صدائے تحسین بلند کی ۔ مضمون کی اہمیت اوراحباب کے اصرارو مطالبے پرجامعہ سلفیہ بنارس کے شبعہ دارالترجمہ والتالیف نے اسے کتابی صورت میں شائع کیا۔(جیسا کہ خود کتاب میں یہ بات درج ہے) اس کام پر ہم جامعہ سلفیہ بنارس کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتے ہیں ۔اور مستقبل میں اس طرح کی تاریخی اور علمی کتابوں کی نشر و اشاعت کی امید کرتے ہیں۔
علامہ نذیر احمد رحمانی رحمہ اللہ نے اپنے محققانہ، عالمانہ انداز میں ، علمی دیانت کے ساتھ ،جذبات سے کوسوں دور ہٹ کر، فریق مخالف پر بلا کسی طعن و تشنیع کے ،پوری بحث وتحقیق کے ساتھ ، اپنی بے مثال قوت استنباط کے ذریعہ ملک و ملت کی تعمیرمیں جماعت اہل حدیث کی طرف سے پیش کی جانے والی قربانیوں کا تذکرہ بلا مبالغہ بڑے ہی جامع انداز میں کیا اور جماعت اہل حدیث پر لگائے جانے والے الزامات کی تردیداوران کی قربانیوں پر پردہ ڈالنے کی سعی نامسعود کی حقیقت مستند و معتبردلائل و شواہد کی روشنی میں اپنی اوران کی کتابوں سے کی ہے ۔ کسی کتاب کی یہی وہ چند خصوصیات ہیں جو ہرمنصف قاری کو متاثر کیے بنا نہیں رہتیں اسی وجہ سے آپ کی کتاب (اہل حدیث اور سیاست) عوام وخواص سب کے یہاں بڑی قدر کی نظر سے دیکھی گئی اور کافی مقبول بھی ہوئی۔ قارئین جب اس کتاب کو پڑھیں گے تو انھیں خود بخود اس کا اندازہ ہوجائے گا۔
ہر شخص کو اس کتاب کامطالعہ ایک بار ضرور کرنا چاہیے تاکہ وہ جماعت اہل حدیث ہند کی سیاسی خدمات سے آگاہ ہوسکے۔اور دشمنوں کے لگائے گئے جھوٹے الزامات سے بھی باخبر ہوسکے۔
اٹھائے کچھ ورق لالے نے ، کچھ نرگس نے ، کچھ گل نے
چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں میری

اصل کتاب 435 صفحات کی ہے ۔لیکن اس سے پہلے 43 صفحات پر مولانا آزاد رحمانی رحمہ اللہ کے قلم سے مصنف رحمہ اللہ کی سوانح حیات درج ہے ۔
پوری کتاب کے اندرکل 142ہیڈنگ ہیں۔ سوانح حیات کے بعد سب سے پہلے آپ کا مقدمہ ہے ۔جس کے اندر آپ نے لکھا ہے کہ ہندوستان کی سب سے پہلی اسلامی تحریک جو سیاسی اور دینی دونوں رجحانات رکھتی تھی وہ شہیدین کی تحریک ہے ۔جس میں احناف کی بھی شمولیت ثابت ہے ،ہاں جماعت اہل حدیث اس میں نمایاں ہے ۔اسی طرح آپ نے اپنے مقدمہ کے اندر ان کی طرف سے ایک جھوٹے الزام کا بھی ذکر کیا ہے ۔
جماعت اہل حدیث کا سیاست سے لگاؤ، اس تحریک پر برادران وطن کی ناانصافیوں کی حقیقت ۔بر صغیر پر تحریک اہل حدیث کے اثرات ۔سید احمد رائے بریلوی کی جماعت میں شاہ اسماعیل کی شمولیت اورقیادت ساتھ ہی ساتھ ان کا جوش جہاد،مزید ان سے متعلق بہت ساری چیزوں کا تذکرہ۔چند ممتاز اہل حدیث کے اسماء،جوش جہاد انگریزوں کے خلاف یا سکھوں کے خلاف اس کی دلائل کی روشنی میں وضاحت،مولانا عبد الحق بنارسی ان کی تصنیفات، شیوخ اور اساتذہ کا تذکرہ، مولانا عبد الحق بنارسی کے مسلک پر عبید اللہ سندھی کا جھوٹا بہتان اور اس کی تردید،جنگ مایار کا ذکر،سید اولاد حسن قنوجی کا تذکرہ ،مجاہدین کی جماعت میں ان کی شمولیت،وفات، ان کے اولاد سید احمد عرشی اور امیر الملک نواب صدیق حسن خاں قنوجی کا تذکرہ جمیل۔ ان کی خدمات اور ان کے مسلک کی وضاحت بڑے (3) تفصیلی اورعلمی انداز میں کیا گیا ہے ۔ مجاہدین کی جماعت میں حکیم مومن خاں مومن کی شرکت اور جہاد سے متعلق ان کے چند اشعار، ان کے مسلک کی وضاحت خود انہی کی زبانی۔
اس کے بعد تحریک شہیدین کے دور ثانی کے نام سے ایک ہیڈنگ ہے۔شاہ اسماعیل رحمہ اللہ اور سید احمد رائے بریلوی کی شہادت کے بعد اس تحریک کی باگ ڈور مکمل طور پر مولانا ولایت علی عظیم آبادی نے سنبھالی ۔اس لیے آپ نے ان کے مسلک پر بڑے تفصیل سے گفتگو کی ہے جو 183 سے شروع ہوکر201 پر ختم ہوتا ہے۔تفصیل سے گفتگو کی وجہ غالباً یہ ہے کہ کوئی بعید نہیں آنے والے ادوار میں کوئی تاریخ سازان کے بھی مسلک کو شکوک و شبہات میں ڈال دے(جیسا کہ کچھ لوگوں نے کیا بھی)اور قربانی کا سہرا اپنی جماعت کو پہنا دے۔اس لیے آپ نے بڑے ہی شرح و بسط کے ساتھ ان کے مسلک کی وضاحت کی ہے۔ آگے آپ نے 1857ء اور میاں صاحب کے نام سےایک ہیڈنگ قائم کرکے ان پر لگائے جانے والے مختلف الزامات و اتہامات کی تردید پختہ دلائل و شواہد کی روشنی میں کی ہے ۔اسی طرح برادران وطن کی ان سازشوں کا بھی پردہ چاک کیا ہے جو سازشیں انھوں نے میاں صاحب کے سفر حج کے وقت رچی تھیں ۔حد تو یہ ہے کہ دارالامن مکہ مکرمہ میں بھی یہ اپنی اچھوتی اورگھناؤنی حرکتوں سے باز نہ آئے اور وہاں پر بھی میاں صاحب کے خلاف سازش کرکے انھیں جیل میں ڈلوا دیا۔
جس میں کـچھ جرءات اظہار سخن ہوتی ہے
کم سے کم اس کی سزا دارورسن ہوتی ہے
لیکن جب انھیں اس میں بھی منہ کی کھانی پڑی تو ایک افواہ مکہ ہی سے ہندوستان میں یہ پھلادی گئی کہ میاں صاحب نے اپنے پچھلے مسلک سے رجوع کر لیا ہے اور وہ تائب ہوگئے ہیں ۔آپ نے اس نام سے ایک ہیڈنگ دے کر اس کی بھی خبر لی ہے ۔
مزید اس موضوع پر جانکاری کے لیے درج ذیل کتابوں کی طرف رجوع کریں:-
1-ہندوستان کی پہلی اسلامی تحریک تالیف مسعود عالم ندوی رحمہ اللہ
2-تحریک مجاہدین مصنف ڈاکٹر صادق حسین
3-تحریک سید احمد شہید، تالیف مولانا غلام رسول مہر رحمہ اللہ
4-جماعت مجاہدین ،تالیف مولانا غلام رسول مہر رحمہ اللہ
5-سرگزشت مجاہدین ،تالیف مولانا غلام رسول مہر رحمہ اللہ
6- تحریک جہاد جماعت اہلحدیث اور علمائے احناف ، حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ
7-تاریخ تحریک آزادی ھند ،تارا چند ،ترجمہ قاضی عدیل عباسی

(8) 1857 کا تاریخی روزنامچہ ،خلیق احمد نظامی

(9) تحریک خلافت ،قاضي عدیل عباسی

(10) 1857 پاک وھند کی پہلی جنگ آزادی ،غلام رسول مہر

11-ھندوستان میں وھابی تحریک ،ڈاکٹر قیام الدین احمد

12-مشاہدات کابل و یاغستان، محمد علی قصوری

13- کوائف یاغستان، فضل الہی وزیر آبادی
14-الدر المنثور المعروف تذکرہ اہل صادق پورازمولانا عبدالرحیم زبیری الہاشمی
15-صادقین صادقپور، تالیف: مولانا سید محمد ثانی حسنی ندوی
16-تحریک آزادئی ہند میں اہل حدیث علماء اورعوام کا کردار۔ رفیع اللہ مسعود تیمی
17-تحریک اہل حدیث کا تاریخی پس منظر، ممتاز احمد عبد اللطیف

1-میری اس ناقص تحریر سے مؤلف رحمہ اللہ کی شخصیت کا اندازہ ہر گز لگانے کی کوشش کوئی صاحب نہ کریں گے ۔بلکہ آپ کی حیات و خدمات پر لکھے گئے مضامین کی طرف رجوع کریں۔خصوصا چمنستان حدیث اور مجموعہ مقالات عبد الحمید رحمانی ضرورپڑھیں۔میں نے جو کچھ لکھا ہے اوپر ذکر کی گئی کتابوں کو پڑھ کر ہی لکھا ہے۔
2-لیکن جس چیز نے آپ کو باقاعدہ طور پر اس جانب متوجہ کیا وہ مولانا عبد الرؤف رحمانی رحمہ اللہ کا وہ مضمون ہے جو اخبار اہل حدیث دہلی بابت یکم دسمبر 1961ء میں “سفیر مالیر کوٹلہ پنجاب” کے عنوان سے شائع ہوا تھا ۔(تفصیل،اہل حدیث اور سیاست ص، 4)
3-ان کے مسلک کی وضاحت بڑی تفصیل کے ساتھ اس لیے کرنی پڑی کہ برادران وطن نے جس طرح جماعت اہل حدیث کی ان نمایاں شخصیات کو اپنے تقلیدی بیڑیوں میں جکڑنے کی ناروا کوششیں کی ہیں بالکل اسی طرح نواب صدیق حسن خاں قنوجی رحمہ اللہ کو بھی مسلک اہل حدیث سے نکال کر اپنے مسلک کا پابند بنانے کی کوشش کی ۔چناچہ آپ نے نواب صدیق حسن خاں قنوجی کی کتابوں سے ان کے مسلک کو ثابت کیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ وہ اہل حدیث ہی تھے۔

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
Abdul Rehman Abdul Ahad

Assalam wailakum what
About today…hum kab Tak aslaf ke karnamoon kibyaad mien mashgool rahaigay …hum kab maidane amal mien aayegay