مسافر مزدور

سحر محمود شعروسخن

ہمارے پاؤں میں چپل نہیں ہے

حقیقت ہے یہ کوئی چَھل نہیں ہے


بہت کچھ ہے سبھی کے پاس لیکن

مصیبت کا ہماری حل نہیں ہے


نہیں کھانے کو کوئی شے میسر

کبھی تو پینے کو بھی جل نہیں ہے


زن و شو، مرد و عورت، بچے، بوڑھے

مسلسل چل رہے ہیں، کل نہیں ہے


کسی کی گود خالی ہے، کسی کو

میسر ماں کا اب آنچل نہیں ہے


یہ جانیں جارہی ہیں روز کتنی

حکومت کی جبیں پر بل نہیں ہے


سبھی ہیں جانبِ منزل روانہ

سلگتی دھوپ ہے بادل نہیں ہے


سفر کی دقتوں کا کچھ نہ پوچھو

کسی کو بھی سکوں اک پل نہیں ہے

آپ کے تبصرے

3000