چلو عید مناتے ہیں!

ابوتحسین خان رمضانیات

ہم عید امسال کیسے منائیں جب ہماری زندگی ایسے ماحول میں گزر رہی ہے، دن بدن کورونا وائرس متاثرین کی تعداد حیرت انگیز طور پر بڑھ رہی ہے، ماہ مبارک رمضان المبارک ہم سے رخصت پذیر ہے اور ہمیں اس کا احساس بھی نہ ہو پایا۔ ماحول بالکل سوگوار تها، مسکراہٹیں غائب تهیں، افطاریاں پھیکی تهیں، حرمین شریفین کی رونقیں ناپید تهیں، بازاروں کی رونقیں گم تهیں، مزدور مہاجرین کی ایک ریاست سے دوسری ریاست پیدل ہجرت کی المناک خبریں تهیں۔
عید مسجدوں میں نماز عید الفطر کے بغیر، عید فیملی جمگهٹ و خویش واقارب کی زیارتوں کے بغیر! عید آمدورفت کے بغیر، عید بچوں کی چہل پہل و کھیل کود کے بغیر!
گویا کہ امسال عید 500 میٹر مربع مسافت میں سمٹ گئی ہے، امسال کی عید بالکل خاموش عید ہے!
اے عید! امسال کس حال میں ہم پر جلوہ افروز ہوئی ہے، ہم اس بار آخر کیوں اور کیسے عید منائیں؟
کچھ اس طرح آج لوگوں کی زبانوں پر کلمات جاری ہیں۔ کچھ اس طرح ہر عام و خاص کے زبان قصیدے پڑھ رہے ہیں!

اس میں کوئی شک نہیں کہ امسال عیدالفطر کی آمد ہم پر استثنائی صورت میں ہوئی ہے، ہماری عید سابقہ سالوں سے قدرے مختلف ہونے والی ہے چنانچہ ہم عید سابقہ سالوں کی طرح نہیں مناسکیں گے، ہم اپنے بچوں کے ساتھ عیدگاہوں کا رخ نہیں کر پائیں گے!
اس میں دو رائے نہیں کہ عیدالفطر کی سنتیں جو ہمارے دل کے دیواروں پر نقش ہیں، جو ہمارے روح کی گہرائیوں میں مضمر ہیں ہم انھیں بہت مس کرنے والے ہیں، وہ تکبیرات عید پڑھتے ہوئے اپنے گهروں سے نکلنا، مسجد سے دلوں کو سیراب کرنے والی اجتماعی تکبیروں کا بار بار بلند ہونا پهر نماز عید الفطر اور امام کا خطبہ، وہ دوست و احباب سے ملنا، وہ مہینوں سے بچھڑے ہوئے اپنوں کے ارد گرد جمع ہوکر ان کی باتیں دلجمعی سے سننا، وہ بچوں کی عیدی، وہ ان کا عیدی پاکر کھلکھلا کر ہنسنا، وہ اخوت ومحبت سے سرشار نششتیں یہ تمام کی تمام اس بار ہم سے جدا رہنے والی ہیں، یہ عید مختلف ہونے والی ہے!
مگر یہ تقدیر الہی ہے، ہمیں اللہ کے اس فیصلے کو سر بتسلیم خم کرتے ہوئے قبول کرنا ہے مگر ساتھ میں ہمیں عید کی خوشیاں زندہ وبرقرار رکهنے کے لیے دیگر متبادل صورتیں اختیار کرنی ہیں، ہمیں امسال بھی دیگر سالوں کی طرح خوشیاں منانی ہیں کیونکہ اللہ رب العزت چاہتا ہے کہ ہم عید منائیں ہم خوش ہوں، خود خوشیاں منائیں اور اپنے ارد گرد رہنے والے دوسروں کو بھی عید کی خوشیاں میسر کرائیں!
تاریخ شاہد ہے کہ امت اسلامیہ پر اس سے بھی برے دن گزرے ہیں، اس سے بھی ناگفتہ بہ حالات آئے ہیں پھر بھی مسلمانوں نے عید منائی ہے!
لہذا آئیے ہم بهی عید منائیں کیونکہ شریعت اسلامیہ نے اسے شرعی خوشی قرار دیا ہے کہ جو دین کے ارکان میں سے ایک اہم وعظیم عبادت روزہ کے اختتام پر مشروع ہے:
انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو اہالیان مدینہ کے دو مقرر دن تھے جن میں کھیل کود کرتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ دو دن کیا ہے؟ لوگوں نے جواب دیا: یہ دو ایسے دن ہیں جن میں ہم زمانہ جاہلیت میں کھیلتے تھے تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ نے تمھارے لیے ان دو دنوں کو دو بہتر دنوں سے بدل دیا ہے: عیدالاضحٰی اور عید الفطر!
چانچہ پتہ چلا کہ ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اللہ کی توفیق سے روزہ جیسی نعمت کی تکمیل پر خوشی کا اظہار کرے!
لہذا آئیے ہم احتیاطی تدابیر کو اپناتے ہوئے عید منائیں، اس آفت کو ہم سے عید کی خوشیاں چھیننے والا نہ بنائیں، سوشل ڈسٹینسنگ کو فالو کریں!
عید بدلے کا دن ہے:
بے شک اللہ رب العالمین نے عید کو بدلے اور ثواب کا دن بنایا ہے، جس دن وہ اپنے عبادت گزار بندوں پر اپنی رضامندی کے دروازے کهولتا ہے اور اپنے فضل کو کرم سے انھیں بہترین بدلے سے نوازتا ہے، روزے داروں کو روزے کا ثواب عطا فرماتا ہے اور ان کے گناہوں کی مغفرت فرماتا ہے!
تو ہم اپنے آپ کو ان انعامات سے کیوں محروم رکھیں؟ کیوں نہ ہم رمضان المبارک میں انجام دیے نیک اعمال کا اللہ سے بدلہ لیں؟ کیوں نہ ہم اللہ سے دعا مانگیں؟
عید منانے کی شکلیں:-
1-نیا لباس زیب تن کرنا: سنن بیہقی میں ہے کہ نافع فرماتے ہیں: ابن عمر رضی اللہ عنہما عیدین کے دن سب سے بہترین پوشاک زیب تن کرتے تھے!
موجودہ صورتحال میں ہمارے بعض احباب کا کہنا ہے کہ نیا لباس نہ پہنا جائے تو ان کے لیے ابن رجب الحنبلي رحمہ اللہ کا قول ہے وہ فرماتے ہیں: عید کے دن زینت اختیار کرنے میں گھر سے باہر نماز کے لیے نکلنے والا اور گھر میں رہنے والا تمام حتی کہ خواتین اور بچے تمام حکم میں برابر ہیں!
لہذا ثابت ہوا کہ عید کے دن حسب استطاعت اچھے کپڑے بھی پہنے جائیں۔
2-فرحت و شادمانی:
اس وائرس وناگفتہ بہ احوال میں ہمارے لیے خصوصی طور پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم اپنے اہل و عیال کے درمیان خوشیاں عام کریں، خاص طور سے گھر والوں کے دلوں میں خوشیاں داخل کریں چنانچہ سب سے زیادہ مستحق ہمارے والدین ہیں ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا، ان کو خوش کرنا عید کے موقع پر ہمارے لیے سب سے اہم ہے کیونکہ وہی دنیا میں ہماری موجودگی کا باعث ہیں اور ان کے احسانات ہم پر عظیم ہیں:
ایک آدمی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: میں آپ کے پاس اپنے والدین کو روتا بلکتا چھوڑ کر ہجرت پر بیعت کرنے کے لیے آیا ہوں، اس پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی سے کہا: تم ان دونوں کے پاس واپس لوٹ جاؤ اور جیسا انھیں رلا کر آئے ہو ویسے جاکر ہنساؤ!
والدین کے بعد بیوی کے ساتھ حسن معاملہ کرنا اور اسے اس خاص موقع پر مزید محبت و الفت سے نوازنا: ہم میں سے ہر فرد جانتا ہے کہ عورت ایک نازک مخلوق ہے جو ہمیشہ الفت و محبت کی محتاج ہوتی ہے نیز وصیت رسول اکرم بھی ہے کہ ہم میں سے سب سے بہتر شخص وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو!
عید کا موقع بچوں سے قربت کا ایک اہم ذریعہ رہتا ہے، بچوں کو سال بھر اس عید اور عیدی کا بے صبری سے انتظار رہتا ہے اور اس عیدی کے ذریعے ہم ان کو بے پناہ خوشیاں دے سکتے ہیں چنانچہ ارشاد نبوی ہے: تهادوا تحابوا یعنی آپس میں تحفے پیش کرتے رہو اس سے آپس میں محبت بڑھتا ہے۔
لاک ڈاؤن کے پیش نظر عید کی خوشیوں کو حسب ممکن اپنے پڑوسیوں کے ساتھ شیئر کیا جائے کیونکہ اہل خانہ کے بعد سب سے زیادہ مستحق ہمارے پڑوسی ہیں، ہم انھیں اپنی خوشیوں میں ضرور شامل کریں:
رسول اکرم صلی اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا: مجھ پر ایمان نہیں لایا وہ شخص جس نے آسودگی کی حالت میں رات گزاری جبکہ اس کا پڑوسی اس کے بغل میں بھوکا تھا اور اسے اس بابت علم بھی تھا!
نیز اسی طرح اس عید کے موقع پر ہم فقیروں، مسکینوں، یتیموں اور مظلوموں کو بھی ضرور یاد رکھیں ان کی حسب استطاعت مال، تحفوں اور دعا کے ذریعے ضرور خبرگیری کریں!
3-دل جوئی کرنا: بے شک زندگی میں تنہائی، اپنوں سے دوری اور کورونا وبا کی وجہ سے جاری لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہمارے اندر بے چینی و اکتاہٹ اور اداسی پھیل گئی ہے لہذا ایسے ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے مزاح و دل جوئی والی باتوں کا تبادلہ کریں، سوشل میڈیا کے ذریعے ایک دوسرے کو دینی واصلاحی وتہنیتی پیغامات ارسال کریں، ایک دوسرے کو یہ باور کرائیں کہ یہ لاک ڈاون کے ایام بہت محدود ہیں، گهبراہٹ کا شکار نہ ہوں، صبر سے کام لیں، احتیاطی تدابیر کو بروئے کار لائیں، جلد ہی یہ لاک ڈاؤن دور ہوگا، جلد ہی تمام رونقیں واپس لوٹیں گی تاکہ عید جیسے اہم موقع پر بے چینیاں ختم ہوں!
یاد رکھو دین اسلام کی ہم سے خوشیاں بکھیرنے اور دلوں کو جوڑنے کی مانگ ہے۔ یہ خوشیاں اداسیاں اور غم دور کرنے میں اکسیر کا کام کرتی ہیں۔
اللہ رب العالمین سے ہمیں عید کی حقیقی خوشیاں نصیب فرمائے۔ آمین

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
عائشہ سہیل احمد

حالات کے پیش نظر کئ لوگوں نے عید نا منانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس سلسلے میں میرے بھی یہی خیالات ہیں کہ عید اللہ کا عطا کردہ تحفہ ہم اسے رد نہیں کرسکتے۔ آپ نے ان خیالات کو بہت خوبصورتی سے پیش کیا۔ جزاک اللہ خیرا و بارک فیک۔